آسمانوں پہ جو خدا ہے اس سے میری یہی دعا ہے چاند یہ ہر روز میں دیکھوں تیرے ساتھ میں

 آسمانوں پہ جو خدا ہے 

اس سے میری یہی دعا ہے

چاند یہ ہر روز میں دیکھوں
تیرے ساتھ میں
Aasmaano Pe Jo Khuda Hai
Usse Meri Yahi Duaa Hai
Chand Ye Har Roz Main Dekhun
Tere Saath Mein
आस्मानों पे जो खुदा है
उस से मेरी यही दुवा है
चांद ये मैं हर रोज़ देखूं
तेरे साथ में

is ke bare men hukme shara
इस के बारें में हुक्मे शराअ
اس کے بارے میں حکم شرع
****************************************
آسمانوں پہ جو خدا ہے اس سے میری یہی دعا ہے
چاند یہ ہر روز میں دیکھوں تیرے ساتھ میں
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
_****************************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
آسمانوں پہ جو خدا ہے
اس سے میری یہی دعا ہے
چاند یہ ہر روز میں دیکھوں
تیرے ساتھ میں
اس شعر کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟
نیز اس گانے کو لوگ سن رہے ہیں گارہے ہیں اور اپنے فون کے اسٹیٹس پر رکھ رہے ہیں اس کے متعلق حکم کیا ہے
💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢: محمدی جویریہ فاطمہ رضویہ پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
اس شعر کے متعلق حکم شرع یہ ہے کہ اس میں دو صورتیں ہیں ایک صورت میں حکم کفر اور دوسری صورت میں عدم کفر۔
🕹(1)🕹حکم کفر والی صورت
اگر آسمانوں پہ سے قائل کی مراد مکان ہے اس میں کفر کا شائبہ ہے آسمانوں پہ کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آسمانوں پہ رہتاہے اس میں اللہ تعالی کےلئے مکان کا اثبات ہے اور اللہ تعالی کے لئے مکان ثابت کرنا کفر ہے نیز اس کا بھی شائبہ ہے کہ آسمانوں پہ ہے نیچے نہیں ہے
جیساکہ علامہ سعد الدین تفتازانی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں:
اذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھۃ لا علو و لاسفل و لا غیرھما یعنیاللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مکان میں ہونے سے پاک ہے اور جب وہ مکان میں ہونے سے پاک ہے توجِہَت(یعنی سَمت) سے بھی پاک ہے ،(اِسی طرح ) اُوپر اور نِیچے ہونے سے بھی پاک ہے ۔ ‘‘
(شرحُ الْعقائد نسفی ص ۳۳)
حضرت علامہ ابن نجیم مصری رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں:
یکفر بوصفہ تعالی بالفوق او بالتحت اھ تلخیصا یعنی جواللہ عَزَّوَجَلَّ کو اُوپر یا نِیچے قرار دے تو اُس پر حکمِ کُفر لگایا جائے گا۔ بحر (الرائق جلد پنجم ص ۱۲۰)
شعب الایمان میں ہے:
وہو المتعالي عن الحدود والجہات، والأقطار، والغایات، المستغني عن الأماکن والأزمان، لا تنالہ الحاجات، ولا تمسّہ المنافع والمضرّات، ولا تلحقہ اللّذّات، ولا الدّواعي، ولا الشہوات، ولا یجوز علیہ شيء ممّا جاز علی المحدثات فدلّ علی حدوثہا، ومعناہ أنّہ لایجوز علیہ الحرکۃ ولا السکون، والاجتماع، والافتراق، والمحاذاۃ، والمقابلۃ، والمماسۃ، والمجاوزۃ، ولا قیام شيء حادث بہ ولا بطلان صفۃ أزلیۃ عنہ، ولا یصح علیہ العدم
(شعب الإیمان ، باب في الإیمان باللّٰہ عزوجل، فصل في معرفۃ أسماء اللّٰہ وصفاتہ، ج۱، ص۱۱۳)
شرح مواقف میں ہے:
أنّہ تعالی لیس في جہۃ )من الجہات
( ولا في مکان ) من الأمکنۃ )۔
(شرح المواقف ‘‘ ، المقصد الأول، ج۸، ص۲۲)
وص ۳۱: (أنّہ تعالی لیس في زمان ) أي : لیس وجودہ وجوداً زمانیاً )۔شرح المواقف،المقصد الأول، ج۸، ص۳۱
شرح مقاصد میں ہے:
( طریقۃ أہل السنّۃ أنّ العالم حادث والصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ لیست عینہ ولا غیرہ، وواحد لا شبۃ لہ ولا ضدّ ولا ندّ ولانہایۃ لہ ولا صورۃ ولا حدّ ولا یحلّ في شيء ولا یقوم بہ حادث ولا یصحّ علیہ الحرکۃ والانتقال ولا الجہل ولا الکذب ولا النقص وأنہ یری في الآخرۃ )۔
ترجمہ: اہل سنت وجماعت کا راستہ یہ ہے کہ بے شک عالم حادث ہے اور صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے جو نہ اس کا عین ہیں نہ غیر۔ وہ واحد ہے ، نہ اس کی کوئی مثل ہے نہ مقابل نہ شریک ، نہ انتہا ، نہ صورت ، نہ حد ، نہ وہ کسی میں حلول کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ کوئی حادث قائم ہوتا ہے، نہ اس پر حرکت صحیح ، نہ انتقال ، نہ جہالت ، نہ جھوٹ اور نہ نقص۔ اور بے شک آخرت میں اس کو دیکھا جائے گا ۔
(شرح المقاصد، ج۲، ص۲۷۰)
البحر الرائق میں ہے:
خدا کےلئے مکان ثابت کرنا(یعنی ماننا یا کہنا)کفر ہے۔
(البحر الرائق،ج:۵،ص:۲۰۳)
دوسری جگہ ہے:
جو کہے:اللہ تعالی آسمان میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آگے تحریر فرماتے ہیں:اگر مکان کی نیت ہے تو کفر ہے اور اگر کچھ بھی نیت نہیں تب بھی اکثر علماء کرام رضی اللہ تعالی عنہمکے نزدیک کفر ہے۔
(البحر الرائق،ج:۵،ص:۲۰۳)
ھدایۃ للمھدیین میں ہے:
اذ قال اللہ فی السماء عالما ان ارادبہ المکان کفر اتفاقا و ان لم یکن لہ نیۃ یکفر عند اکثر ھم یعنی اگر اللہ تعالی آسمان میں ہے بول کر اس کے لئے مکان مراد لیا ہے تو کفر اتفاقی ہے اور اگر نیت نہیں بھی ہے تو اکثر مشائخ کرام کے نزدیک کفر ہے ۔
(ھدایۃ للمھدیین،ص:۱۵ مطبوعہ استنبول ترکی)
حدیقہ ندیہ میں ہے:
نہ مکانی ز تو خالی نہ تو در ہیچ مکانی۔
حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ،ج:۱،ص:۲۰۵
اللہ تعالی کےلئے جسم اور مکان ثابت کرنا کفر ہے اس مسئلہ کی تفصیلی معلومات کے لئے سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کے مبارک رسالے قوارع القہار(فتاوی رضویہ ج ۲۹ص ۱۱۹ تا ۲۸۵) میں دیکھی جاسکتی ہے
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں:
ﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔
(بہار شریعت ج 1 حصہ 1ص 19)
نیز دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
اللہ تعالی کےلئے مکان ثابت کرنا کفر ہے کہ وہ مکان سے پاک ہے
(بہار شریعت حصہ ۹ص ۱۸۰)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں:
اس کے لئے جہت کا ثبوت ہوتا ہے اور اس کی ذات جہت سے پاک ہے۔
(فتاوی فیض الرسول ج ۱ ص ۲)
فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں :
اللہ تعالی کےلئے مکان ثابت کرنا کفر ہے۔
(فتاوی شارح بخاری،کتاب العقائد،ج:۱،ص:۲۵۹،عقائد متعلقہ ذات و صفات الہی)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے یہ جملہ اللہ تعالی آسمانوں پہ،آسمانوں میں ہے بول کر اس کے لئے مکان مراد لیا ہے تو کفر ہے لہذا اس پر فرض ہے کہ اس شِعر میں جو کفر ہے اُس سے فورًا توبہ کر ے اور کلمہ پڑھ کر نئے سرے سے مسلمان ہو ۔ مُرید ہونا چاہے تو اب نئے سرے سے کسی بھی جامِعِ شرائط پیر کا مُرید ہو اگر سابِقہ بیوی کو رکھنا چاہے تودوبارہ نئے مہر کے ساتھ اُس سے نکاح کرے ۔
🕹(2)🕹اور رہی دوسری صورت جس میں عدم کفر ہے وہ یہ ہے کہ کسی نے:” اللہ تعالی آسمانوں پہ ہے”اگر اس نے وہ مراد لیا جو ظاہرا احادیث مبارکہ میں ہے اسی کا بیان ہے تو کفر نہیں۔
جیسا کہ ھدایۃ للھدیین میں ہے:
و ان ارادبہ الحکایۃ عن ظاھر الاخبار لا یکفر۔” یعنی اور اگر اس ظاہری اخبار کی نقل مقصود ہے تو کفر نہیں۔
(ھدایۃ للھدیین،ص۱۵)
اور بحر الرائق میں ہے:
ظاہرا اخبار میں ہے اس کی حکایت ہے تو کفر نہیں۔
(بحر الرائق،ج:۵،ص:۲۰۳)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ اگر کہنے والے نے وہی مراد لیا ہے جو اوپر مذکور ہے تو کفر نہ ہوگا اور یہی مانا جائے گا کیونکہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا لازم اس لیے اس کے کلام کو اچھے محل پر حمل کرناضروری اس لیے بہ طور حسن ظن یہی کہیں کہ قائل کی مراد یہی ہے
(فتاوی شارح بخاری جلد 1 ص 245 )
اس کے کہنے والے پر ضروری ہےکہ احتیاطا توبہ و استغفار کرکے نئے سرے سے مسلمان ہوجائے،نیز تجدید نکاح اور بیعت کرلے کہ اسی میں دونوں جہاں کی بھلائی ہے۔
🕹جواب🕹 (2):-👇
اس کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر کسی نے اس گانے کو اس اعتقاد کے ساتھ کہ اللہ تعالی کےلئے مکان ثابت ہے گایا،سنا،پڑھا یا اسٹیٹس پر رکھا وہ کفر میں جا پڑا اور اسلام سے خارج ہو کر کافرو مُرتد ہو گیا ، اس کے تمام نیک اعمال اَکارت ہو گئے یعنی پچھلی ساری نَمازیں، روزے ، حج وغیرہ تمام نیکیاں ضائع ہو گئیں۔ شادی شُد ہ تھا تو نکاح بھی ٹوٹ گیا اگر کسی کامُرید تھا تو بیعت (بَے۔ عَت)بھی ختم ہو گئی۔اس پر فرض ہے کہ اس شِعر میں جو
کفر ہے اُس سے فورًا توبہ کر ے اور کلمہ پڑھ کر نئے سرے سے مسلمان ہو ۔ مُرید ہونا چاہے تو اب نئے سرے سے کسی بھی جامِعِ شرائط پیر کا مُرید ہو اگر سابِقہ بیوی کو رکھنا چاہے تودوبارہ نئے مہر کے ساتھ اُس سے نکاح کرے
ایک ضروری ھدایت
جب میں نے اس گانے کے متعلق معلومات حاصل کی تو معلوم ہوا کہ اس گانے کو لکھنے والا،گانے والا اور اس پر رقص کرنے والا یہ سب کے سب کافر فلمی اداکار ہیں اور ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور دوسروں کو بھی لا مذہب بناتے ہیں۔
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا الھند
بتاریخ ۲۸/ مارچ بروز اتوار ۲۰۲۱ عیسوی
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*

_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top