اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟
کیا عام مسلمانوں میں بہت سی بدعتیں رائج ہیں؟
کیا خطبہ کی اذان داخل مسجد کہنا بدعت ہے؟
مسئلہ: از سیّد شاہ محمد حسنی حسینی چشتی القادری ۱۵۱؍۹ صوفیہ اسٹریٹ۔ گنتکل (اے پی)
یہاں چند مختلف خیالات رکھنے والے مسلمان بھائی اعتراضات کرتے ہیں کہ قبل اذان اور قبل اقامت بلند آواز سے درود شریف پڑھنا اور پڑھ کر اذان و اقامت دینا درست نہیں‘ مگر مسجد میں روزانہ بلند آواز سے درود شریف پڑھ کر مائیک میں اذان دی جاتی ہے‘ اور پست آواز سے درود شریف پڑھ کر اقامت کہی جاتی ہے اس کو روکنے کے لئے روزانہ تحقیقات مخالفانہ مسلمان بھائی کر رہے ہیں۔ امید رکھتا ہوں براہ کرم اس کا جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں گے۔
الجواب: بعون الملک الوہاب۔ اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنا جائز ہے مگر درود شریف پڑھنے کے بعد قدرے ٹھہر جائے پھر اذان و اقامت پڑھے تاکہ دونوں کے درمیان فصل ہو جائے یا درود شریف کی آواز اذان و اقامت کی آواز سے پست رہے تاکہ امتیاز رہے‘ بلکہ علمائے کرام کثرہم اللہ تعالیٰ نے اقامت سے پہلے اور اس قسم کے دوسرے مواقع میں درود شریف پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے جیسا کہ ردالمحتار جلد اوّل ص ۳۴۸ مطبوعہ دیوبند میں ہے:
نص العلماء علی استحبابھا فی مواضع یوم الجمعۃ ولیلتھا‘ وزید یوم السبت والاحد والخمیس لما ورد فی کل من الثلاثۃ وعند الصباح والمساء‘ وعند دخول المسجد والخروج منہ‘ وعند زیارۃ قبرہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم‘ وعند الصفا والمروۃ‘ وفی خطبۃ الجمعۃ وغیرھا وعقب اجابۃ المؤذن وعند الاقامۃ واول الدعاء واوسطہ وآخرہ وعقب دعاء القنوت وعند الفراغ من التلبیۃ وعند الاجتماع والافتراق وعند الوضوء وعند طنین الاذان وعند نسیان الشیء وعند الوعظ ونشر العلوم وعند قراء ۃ الحدیث ابتداء وانتھاء وعند کتابۃ السوال والفتیاء ولکل مصنف ودارس ومدرس وخطیب و خاطب و متزوج و مزوج فی الرسائل‘ و بین یدی سائر الامور المھمۃ وعند ذکر وسماع اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اوکتابہ عند من لا یقول بوجوبھا کذا فی شرح الفاسی علی دلائل الخیرات ملخصًا وغالبھا منصوص علیہ فی کتبنا اھ۔
اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: ’’درود شریف قبل اقامت پڑھنے میں حرج نہیں مگر اقامت سے فصل چاہئے یا درود شریف کی آواز آوازِ اقامت سے ایسی جدا ہو کہ امتیاز رہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دوم الاذان والاقامۃ ص ۳۹۵ مطبوعہ لائل پور) اگر مخالفین اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد میں اذان و اقامت سے پہلے درود شریف نہیں پڑھا جاتا تھا تو مخالفین سے کہئے کہ مسلمان بچوں کو جو ایمان مجمل اور ایمان مفصل یاد کرایا جاتا ہے۔ ایمان کی یہ دو قسمیں اور ان کے یہ دونوں نام بدعت ہیں۔ کلموں کی تعداد ان کی ترتیب اور ان کے نام سب بدعت ہیں۔ قرآن شریف کے تیس پارے بنانا، ان میں رکوع قائم کرنا، اس پر اعراب یعنی زبر زیر وغیرہ لگانا اور آیتوں کا نمبر لگانا سب بدعت ہے، حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا، حدیث کی قسمیں بنانا، پھر ان کے احکام مقرر کرنا سب بدعت ہیں، اصولِ حدیث واصولِ فقہ کے سارے قاعدے قانون سب بدعت ہیں۔ نماز کے لئے زبان سے نیت کرنا یہ بھی بدعت ہے۔ روزہ کی نیت اس طرح زبان سے کہنا: نویت ان اصوم غداً ان شاء اللّٰہ تعالٰی اور افطار کے وقت ان الفاظ کو زبان سے کہنا: اللھم لک صمت وبک امنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت یہ دونوں بدعت ہیں اور خطبہ کی اذان داخل مسجد کہنا یہ بھی بدعت ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۱۶۲ میں ہے:
عن السائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر و عمر۔
یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں۔ اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنے کی مخالفت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ ان بدعتوں کی بھی مخالفت کریں‘ مگر وہ لوگ ان بدعتوں کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ جس سے انبیائے کرام و بزرگان دین کی عظمت ظاہر ہو صرف اسی کی مخالفت کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی بات نہ سنیں کہ عظمت نبی کا دشمن ابلیس جنت سے نکال دیا گیا اور یہ لوگ عظمت نبی کی مخالفت کر کے جنت میں جانے کا خواب دیکھتے ہیں خداتعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔ وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۳؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۸۱/۱۸۲)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند