اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکلنا جائز ہے یا نہیں؟
تکبیر کے وقت بات کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اقامت شروع ہونے سے قبل کھڑا ہونا سنت ہے یا حی علی الصلوۃ پر؟
مسئلہ: از سیّد محمد منظور عالم مسجد و محلہ گوٹئیا باغ شہر لکھیم پور کھیری (یو پی)
اول(۱) اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکلنا جائز ہے یا نہیں؟
دوم(۲) تکبیر کے وقت بات کرنا جائز ہے یا نہیں؟
سوم(۳) اقامت شروع ہونے سے قبل کھڑا ہونا سنت ہے یا حی علی الصلوۃ پر؟ زید لوگوں کویہ بتلاتا ہے کہ تکبیر شروع ہونے سے قبل کھڑا ہونا خلاف سنت ہے بلکہ حی علی الصلوۃ پر کھڑا ہونا چاہئے اور یہی سنت رسول ہے لیکن کچھ لوگ اس فعل کو بدعت قرار دے رہے ہیں اور گمراہی بتاتے ہیں سب کتابوں کے حوالے سے جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب: (۱) جس شخص نے نماز نہ پڑھی ہو اسے اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکلنا جائز نہیں اس لئے کہ ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ادرک الاذان فی المسجد ثم خرج لم یخرج لحاجتہ وھولا یرید الرجوع فھو منافق۔
یعنی اذان کے بعد جو شخص مسجد سے چلا گیا اور کسی حاجت کے لئے نہیں گیا اور نہ اس کا واپس ہونے کا ارادہ ہے تو وہ منافق ہے لیکن جو شخص کسی دوسری مسجد کی جماعت کا منتظم ہو مثلاً امام یا مؤذن وغیرہ کہ اس کے ہونے سے لوگ ہوتے ہیں ورنہ متفرق ہو جاتے ہیں ایسے شخص کو اجازت ہے کہ اذان ہونے کے بعد اپنی مسجد کو چلا جائے اگرچہ یہاں اقامت بھی شروع ہو گئی ہو۔ تنویر الابصار اور درمختار مع شامی ج ۱ ص ۴۷۹ میں ہے:
کرہ تحریما خروج من لم یصل من مسجد اذن فیہ الا ان ینتظم بہ امرجماعۃ اخریٰ اوکان الخروج لمسجد حیہ ولم یصلوا فیہ ملخصًا‘
اور اگر ظہر یا عشاء کی نماز تنہا پڑھ چکا ہے تو اقامت شروع ہونے سے پہلے جا سکتا ہے‘ اور جب اقامت شروع ہو گئی تو بہ نیت نفل جماعت میں شریک ہو جائے اور عصر و مغرب و فجر میں مسجد سے چلا جائے۔ فتاویٰ عالمگیری ج ۱ ص ۱۱۲ میں ہے:
ان کان قد صلی مرۃ ففی العشاء والظھر لاباس بالخروج مالم یاخذ المؤذن فی الاقامۃ فان اخذ فی الاقامۃ لم یخرج حتیٰ قضا ھما تطوعاً وفی العصر والمغرب والفجر یخرج۔ وھو تعالٰی عالم۔
دوم(۲) تکبیر کے وقت بات کرنا جائز نہیں بہار شریعت ج ۳ ص ۳۶ میں فتاویٰ رضویہ سے ہے کہ جو اذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے اس پر معاذ اللہ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے‘ اور حدیث شریف میں اقامت کو اذان کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ بھی نماز کے اعلام کے لئے ہے‘ اور گفتگو کی آواز اعلام میں مخل ہو گی۔ وھو اعلم۔
سوم(۳) تکبیر کے وقت بیٹھے کا حکم ہے کھڑا رہنا مکروہ و منع ہے۔ پھر جب تکبیر کہنے والا حی علی الفلاح پر پہنچے تو اٹھنا چاہئے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص۵۳ میں مضمرات سے ہے:
اذا دخل الرجل عند الاقامۃ یکرہ لہ الانتظارقائما ولکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن قولہ حی علی الفلاح۔
یعنی اگر کوئی شخص تکبیر کے وقت آیا تو اسے کھڑا ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے اور جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے تو اس وقت کھڑا ہو اور شامی جلد اوّل ص ۲۶۸ مطبوعہ دیوبند میں ہے: یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح۔ یعنی کھڑا ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے۔ لہٰذا بیٹھ جائے پھر جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو اٹھے اور مولوی عبدالحئی صاحب فرنگی محلی عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ جلد اوّل ص ۱۳۶ میں لکھتے ہیں:
اذا دخل المسجد یکرہ لہ الانتظار الصلوٰۃ قائماً بل یجلس فی موضع ثم یقوم عند حی علی الفلاح وبہ صرح فی جامع المضمرات۔
یعنی جو شخص مسجد کے اندر داخل ہوا سے کھڑے ہو کر نماز کا انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ کسی جگہ بیٹھ جائے پھر حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہو اس کی تصریح جامع المضمرات میں ہے‘ اور علامہ سیّد احمد طحطاوی اپنی مشہور کتاب طحطاوی علی مراقی مطبوعہ قسطنطنیہ ص ۱۵۱ میں تحریر فرماتے ہیں:
اذا اخذ المؤذن فی الاقامۃ ودخل رجل فی المسجد فانہ یقعد ولاینتظر قائمًا فانہ مکروہ کما فی المضمرات۔ قھستانی ویفھم منہ کراھۃ القیام ابتداء الاقامۃ والناس عنہ غافلون۔
یعنی جب مکبر تکبیر کہنے لگے اور کوئی شخص مسجد میں آئے تو وہ بیٹھ جائے کھڑے ہو کر انتظار نہ کرے اس لئے کہ تکبیر کے وقت کھڑے رہنا مکروہ ہے جیسا کہ مضمرات قہستانی میں ہے‘ اور اس حکم سے سمجھا جاتا ہے کہ شروع اقامت میں کھڑا ہونا مکروہ ہے‘ اور لوگ اس سے غافل ہیں‘ اور حدیث شریف کی مشہور کتاب موطا امام محمد باب تسویۃ الصف ص ۸۸ میں ہے:
قال محمد ینبغی للقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ان یقوم الی الصلوۃ فیصفوا ویسو والصفوف۔
یعنی محرر مذہب حنفی حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الفلاح پر پہنچے تو متقدیوں کو چاہئے کہ نماز کے لئے کھڑے ہوں پھر صف بندی کرتے ہوئے صفوں کوسیدھی کریں۔ حدیث و فقہ کی مذکورہ بالا عبارتوں سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ مقتدیوں کو اقامت کے وقت کھڑا رہنا مکروہ ہے‘ اور یہی حکم امام کے لئے بھی ہے تفصیل کے لئے ہمارے رسالہ ’’آٹھ مسئلے‘‘ کا محققانہ فیصلہ دیکھئے مگر نہ معلوم کیوں وہابی دیوبندی اس مسئلہ میں عمل کرنے والوں سے جھگڑتے اور اس کو بدعت قرار دیتے ہیں حالانکہ ان کے پیشواؤں نے اردو کی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں بھی اس مسئلہ کو اسی طرح لکھا ہے۔ مفتاح الجنہ ص ۳۳ میں دیوبندیوں کے پیشوا مولوی کرامت علی جونپوری نے لکھا ہے کہ جب اقامت میں حی علی الصلوۃ کہے تب امام اور سب لوگ کھڑے ہو جائیں اور راہ نجات ص ۱۴ میں ہے: حی علی الصلوۃ کے وقت امام اٹھے۔ لوگوں کا اب بھی اس مسئلہ کی مخالفت کرنا کھلی ہوئی ہٹ دھرمی ہے۔ خداتعالیٰ انہیں حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امین یارب العٰلمین وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲؍ شعبان المعظم ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۸۷/۱۸۶/۱۸۵)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند