اللہ تعالی کے لئے لفظ عاشق استعمال کرنا کیسا ہے؟ ALLAH TA,AALA KELIYE LAFZE AASHIQ ISTEMAAL KARNA KAISAA HAI? अल्लाह तआला के लिए लफ्ज़े आशिक़ इस्तेमाल करना कैसा है?

 اللہ تعالی کے لئے لفظ عاشق استعمال کرنا کیسا ہے؟

ALLAH TA,AALA KELIYE LAFZE AASHIQ ISTEMAAL KARNA KAISAA HAI?
अल्लाह तआला के लिए लफ्ज़े आशिक़ इस्तेमाल करना कैसा है?
کمال حسنِ یوسف پہ فقط زلیخا عاشق تھی
خود خدا جس پہ عاشق ہے وہ صورت ہے محمد کی
یہ شعر کہنا کیسا ہے اس کے متعلق حکم شرع کیا نیز
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
_****************************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
👈کمال حسنِ یوسف پہ فقط زلیخا عاشق تھی⁦
👈خود خدا جس پہ عاشق ہے وہ صورت ہے محمد کی
کیا مذکورہ بالا شعر درست ہے اس کے متعلق حکم شرع کیا ہے نیز اللہ تعالی کے لئے لفظ عاشق استعمال کرنا کیسا ہے
💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢علی رضا پاکستان
💢گروپ💢مسائل شرعیہ فقہی گروپ
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*

*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🕹اس شعر کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ اس کا پہلا مصرع یعنی کمال حسنِ یوسف پہ فقط زلیخا عاشق تھی⁦
‏اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس شعر کے دوسرے مصرع میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں لفظ عاشق کو استعمال کیا گیا اور کہا کہ خود خدا جس پر عاشق ہے اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں لفظ عاشق استعمال کرنا ناجائز و حرام ہے کیونکہ عشق کا معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہوجائے اور یہ معنی اللہ تعالیٰ کے حق میں یقینی طور پر محال (ناممکن) ہے اور محال معنی کا صرف وہم بھی ممانعت کے لیے کافی ہوتا ہے. جیساکہ👇
👈 ردالمحتارمیں ہے :
*”مجردایھام المعنی المحال کاف فی المنع”*یعنی صرف معنی محال کا وہم ممانعت کے لئے کافی ہے۔
📗✒ردالمحتار کتاب الحظروا لاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ج 5 ص 253
👑حضرت العلام مولانا امام علامہ یوسف اردبیلی شافعی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کتا ب الانوار لاعمال الابرار میں اپنے اور شیخین مذہب امام رافعی وہ ہمارے علماء حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہم سے نقل فرماتے ہیں :
*”لوقال انا اعشق اﷲ اویعشقنی فبتدع و العبارۃ الصحیحۃ ان یقول احبہ و یحبنی کقولہ تعالی یحبہم ویحبونہ”*
یعنی اگر کوئی شخص کہے میں اللہ تعالی سے عشق رکھتاہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتاہے تو وہ بدعتی ہے لہذا عبارت صحیح یہ ہے کہ وہ یوں کہےکہ میں اللہ تعالی سے محبت کرتاہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتاہے اللہ تعالی کے اس ارشاد کی طرح ” اللہ تعالی ان سے محبت رکھتاہے اور وہ لوگ اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہیں”
📗✒الانوار لاعمال الابرار کتا ب الردۃ المطبعۃ الجمالیہ مصر ج 2 ص 321
👑حضرت العلام مولانا مفتی امام ابن حجر مکی قدسی سرہ الملکی نے اعلام میں نقل فرما کر مقر رکھا۔
*”اقول : وظاھر ان منشاء الحکم لفظ یعشقنی دون ادعائہ لنفسہ الاتری الی قولہ ان العبارۃ الصحیحۃ یحبنی ثم الظاھر ان تکون العبارۃ بواؤالعطف کقولہ احبہ ویحبنی فیکون الحکم لاجل قولہ یعشقنی والا فلا یظہر لہ وجہ بمجرد قولہ اعشقہ فقد قال العلامۃ احمد بن محمد بن المنیر الاسکندری فی الانتصاف ردا علی الزمخشری تحت قولہ تعالی فی سورۃ المائدۃ یحبہم ویحبونہ بعد اثبات ان محبۃ العبد اﷲ تعالی غیر الطاعۃ وانہا ثابتۃ واقعۃ بالمعنی الحقیقی اللغوی مانصہ ثم اذا ثبت اجراء محبۃ العبد ﷲ تعالی علی حقیقتہا لغۃ فالمحبۃ فی اللغۃ اذا تاکدت سمیت عشقا فمن تاکدت محبتہ للہ تعالی وظھرت آثارتأکدھا علیہ من استیعاب الاوقات فی ذکرہ وطاعتہ فلا یمنع ان تسمی محبتہ عشقا اذ العشق لیس الا المحبۃ البالغۃ اھ لکن الذی فی نسختی الانوار ونسختین عندی من الاعلام انما ھو بأو فلیستأمل ولیحرر ثم اقول لست بغافل عما اخرج واﷲ تعالی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔”*
اقول : (میں کہتاہوں) ظاہر یہ ہے کہ منشائے حکم لفظ ”یعشقی” ہے نہ کہ وہ لفظ جس میں اپنی ذات کے لئے دعوی عشق کیا گیا ہے کیا تم اس قول کو نہیں دیکھتے کہ صحیح عبارت ”یحبنی” ہے پھر ظاہرہے کہ عبارت واؤ عاطفہ کے ساتھ ہے جیسے اس کا قول ہے احبہ، ویحبنی یعنی میں اس سے محبت رکھتاہوں اور وہ مجھ سے محبت رکھتاہے پھر حکم اس کے یعشقنی کہنے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کے صرف اعشقہ کہنے سے کوئی امتناعی وجہ ظاہر نہیں ہوتی۔ چنانچہ علامہ احمد بن محمد منیر اسکندری نے ”الانتصاف” میں علامہ زمحشری کی تردید کرتے ہوئے فرمایا جو اللہ تعالی کے اس ارشاد کے ذیل میں جو سورۃ مائدہ میں مذکور ہے :یحبھم ویحبونہ، (اللہ تعالی ان سے محبت رکھتاہے اور وہ اس سے محبت رکھتے ہیں) اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ بندے کا اللہ تعالی سے محبت کرنا اس کی اطاعت (فرمانبرداری) سے جدا ہے (الگ ہے) اور محبت معنی حقیقی لغوی کے طور پر ثابت اورواقع ہے (جیسا کہ) موصوف نے تصریح فرمائی پھر جب بندے کا اللہ تعالی سے محبت کرنے کا اجراء حقیقت لغوی کے طریقہ سے ثابت ہوگیا اور محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور مؤکد ہوجائے تو اسی کو عشق کا نام دیاجایاتاہے پھر جس کی اللہ تعالی سے پختہ محبت ہوجائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار ظاہر ہوجائیں (نظر آنے لگیں) کہ وہ ہمہ اوقات اللہ تعالی کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی مانع نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے۔ کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے اھ لیکن میرے پاس جو نسخہ ”الانوار” ہے وہ دو نسخے میرے پاس ”الاعلام” کے ہیں ان میں عبارت مذکورہ صرف ”آو” کے ساتھ مذکور ہے لہذا غور وفکر کرنا چاہئے اور لکھنا چاہئے میں کہتاہوں کہ میں نے اس سے بے خبر نہیں جس کی موصوف نے تخریج فرمائی اور اللہ تعالی خوب جانتاہے اور اس عظمت والے کاعلم بڑا کامل اوربہت پختہ ہے۔
👑 سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ اسی طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ “ناجائز ہے کہ معنی عشق اللہ عزوجل کے حق میں محال قطعی ہے۔ اور ایسا لفظ بے ورودثبوت شرعی حضرت عزت کی شان میں بولنا ممنوع قطعی”۔
📗✒فتاوی رضویہ ج21ص144تا116
👑شارح بخاری فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں (دل بر, دل ربا اور معشوق) میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے دل بر, دل ربا, معشوق ہیں اس لئے کہ دل بر, دل ربا کہنے میں باری تعالی کے لئے ایہامِ تجسم ہے اور معشوق کہنے میں اثباتِ نقص. کیونکہ عشق کا حقیقی معنیٰ محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے”.
📗✒المواھب الالہیہ فی الفتاوی الشرفیہ المعروف فتاوی شارح بخاری ج1 ص 281
🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں لفظ عاشق استعمال کرنا ناجائز و حرام ہے لہذا اس شعر کا دوسرا مصرع 👇
👈خود خدا جس پہ عاشق ہے وہ صورت ہے محمد کی کہنا جائز نہیں ہے مگر اس طرح کہا جائے تو بہتر ہوگا اور رہے گا کہ خود خدا جس پہ محب ہے وہ صورت محمد ﷺ کی
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـبتاریخ ۲/ فروری بروز اتوار ۲۰۲۰عیسوی
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🎗الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی
🎗ماشاءاللہ بہت خوب الجواب’ ھوالجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)
🎗الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محمد امین قادری رضوی دیوان بازار مراداباد یوپی الہند
🎗الجوابــــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح فقط محمدامجدعلی نعیمی،رائےگنج اتر دیناج پور مغربی بنگال،خطیب وامام مسجدنیم والی مرادآبا اترپردیش الھند
🎗الجوابـــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح اسیر حضور تاج الشریعہ محمد عامل رضـا خان المعروف ضیاء انجم قادری رضوی مقام کھمریا پوسٹ تکونیاں ضلع لکھیم پور کھیری یوپی الہنـــــــــــــــــــــــد*
🎗الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محمد الطاف حسین قادری خادم التدریس دارالعلوم غوث الورٰی ڈانگا لکھیم پور کھیری یوپی الھند
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top