امام پر زنا کا الزام لگانے والے کے لئے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
جس کا عقیدہ مشکوک ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے بلا وجہ شرعی امامت سے ہٹانا کیسا ہے؟
مسئلہ: از علی احمد پوسٹ و مقام مہندوپار۔ ضلع بستی
زید تقریباً بارہ سال سے جامع مسجد کا امام تھا عمرو نے زید پر زنا کا الزام لگایا اور بکر سے کہا جب کہو ہم زید کو حرام کاری کی حالت میں پکڑ کر دکھا دیں تو بکر نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اکثریت سے الگ ہو کر جمعہ و عیدین کی نماز قائم کی۔ علمائے کرام و مفتیان عظام نے اسے دیہات میں جمعہ و عیدین کی نماز قائم کرنے سے بہت روکا مگر وہ باز نہ آیا یہاں تک کہ ضد نفسانی میں بکرنے لوگوں سے کہا کہ مزار پر جانا اور حلوہ وغیرہ میری سمجھ میں نہیں آتا بلکہ اپنے لڑکے کو پڑھنے کے لئے دیوبندی مکتب میں داخل کر دیا۔ بکر دو سال تک دیہات میں جمعہ و عیدین پڑھتا اور پڑھاتا رہا اسی درمیان میں کچھ لوگوں نے ازراہِ نفسانیت زید کے خلاف ہو کر اسے امامت سے ہٹا دیا اور بکر کو امام مقرر کیا تو بکر نے دیہات کا جمعہ بند کر کے امامت قبول کر لی‘ اور کہتا ہے کہ میں سنی ہوں۔ لہٰذا دریافت طلب امور ہیں کہ:
اول(۱) عمرو جس نے زید پر زنا کا الزام لگایا اس کے لئے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
دوم(۲) بکر جس نے زنا کے الزام کی تصدیق کرتے ہوئے دوسرا جمعہ خلاف شرع دیہات میں قائم کر لیا جو عالم نہیں ہے مگر وہابیوں دیوبندیوں کے جلسوں میں اکثر شرکت کرتا رہتا ہے‘ اور بدمذہبوں کی کتابوں کا اکثر مطالعہ کرتا رہتا ہے جو مزار پر جانے اور حلوہ وغیرہ کے سمجھ میں آنے سے انکار کرتا ہے۔ جو اپنے لڑکے کو دیوبندی مکتب میں پڑھانے کو جائز سمجھتا ہے نیز اس کا عقیدہ مشکوک ہے اگرچہ اب وہ اپنے سنی ہونے کا اقرار کرتا ہے تو ایسے شخص کو امام مقرر کرنا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
سوم(۳) زید کو بلاوجہ شرعی امامت سے ہٹانا کیسا ہے؟
الجواب: عمرو جس نے زید پر زنا کا الزام لگایا اگر وہ چشم دید چار گواہوں سے زنا ثابت نہ کرے تو وہ گنہگار حق العبد میں گرفتار اور مستحق عذاب نار ہے۔
قال اللّٰہ تعالٰی: تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَہٗ ہَیِّنًاق صلے وَّہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌo
یعنی تم اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں اور تم اسے ہلکا سمجھتے ہو حالانکہ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ (پ ۱۸ سورۂ نور ع ۲) اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے
وَالَّذِیْن یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًاo
یعنی جو لوگ مسلمان مرد اور عورتیں کو نا کی ہوئی باتوں (کے الزام) سے ایذا دیتے ہیں تو انہوں نے بہتان اور کھلا ہوا گناہ اٹھایا (پ ۲۲ سورۂ احزاب ع ۷) اور خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً ۔
یعنی جو لوگ پارسا عورتوں (اور مردوں) کو تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی کوڑے مارو۔ (پ ۱۸ سورۂ نور ع ۱) لہٰذا اگر حکومت اسلامیہ ہوتی تو قرآن کریم کے فرمان کے مطابق زنا کے الزام لگانے والے کو چار گواہ نہ لانے کی صورت میں اسی کوڑے مارے جاتے اور اسے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ موجودہ صورت میں اس پر علانیہ توبہ و استغفار کرنا اور جس پر جھوٹا الزام لگایا ہے اس سے معافی طلب کرنا لازم ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو سب مسلمان اس کا بائیکاٹ کریں ورنہ وہ بھی گنہگار ہوں گے قال اللّٰہ تعالٰی: وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَیْطٰنُ فَـلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo (پارہ ۷ رکوع ۱۴) وھو تعالٰی اعلم۔
دوم(۲) بکر نے زنا کے الزام لگانے والے کی تصدیق کی وہ بھی الزام لگانے والے کے برابر گنہگار ہے اس پر بھی معافی مانگنا اور علانیہ توبہ واستغفار کرنا واجب ہے۔ پھر دیہات میں خلاف شرع جمعہ قائم کرنا اور د وسال بعد بند کر دینا بکر کی کھلی ہوئی غلطی ہے کہ اس نے احکام شرعیہ کو کھیل بنایا ہے‘ اور وہابیوں دیوبندیوں کے جلسوں میں اکثر شرکت کرنا، بدمذہبوں کی کتابوں کا مطالعہ کرنا۔ مزار پر جانے اور حلوہ وغیرہ کے سمجھ میں آنے سے انکار کرنا اور اپنے لڑکے کو دیوبندی مکتب میں پڑھنے کے لئے بھیجنا۔ یہ سب اس کی بدعقیدگی اور گمراہی کی کھلی ہوئی نشاندہی کرتے ہیں۔ لہٰذا اب اگرچہ وہ اپنے سنی ہونے کااقرار کر لے اسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں جن لوگوں نے بکر کے حالات سے مطلع ہوتے ہوئے اسے امام مقرر کیا اور زید کو بلاوجہ شرعی معزول کر دیا ان لوگوں نے اللہ و رسول اور مسلمانوں کی خیانت کی۔ وہ مسلمانوں کے بدخواہ ہیں ان پر اپنے فعل سے توبہ کرنا اور اپنے مقرر کئے ہوئے مشکوک امام کو معزول کرنا ان پر لازم ہے۔ حاکم صحیح مستدرک میں ہے‘ اور ابن عدی و عقیلی و طبرانی و خطیب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من استعمل رجلا من عصابۃ وفیھم من ھوارضی اللہ منھم فقد خان اللّٰہ ورسولہٗ وللمؤمنین۔
یعنی جس نے کسی جماعت میں سے ایک شخص کو کسی کام پر مقرر کیا اور ان میں وہ شخص موجود تھا جو اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو اس نے اللہ و رسول اور مسلمانوں کی خیانت کی۔ تیسیر شرح جامع صغیر میں اسی حدیث کی شرح میں ہے:
: ای نصبہ علیھم امیراً وقیما اوا ماماً بالصلاۃ ا ھ۔
پھر اگرچہ اس نے توبہ کر لی ہو اور اپنے سنی ہونے کا اعلان کرتا ہو اسے امام نہیں بنا سکتے بلکہ لازم ہے کہ اسے زمانۂ دراز تک معزول رکھیں اور اس کے احوال کو بغور دیکھتے رہیں اگر خوف و طمع اور غضب و رضا وغیرھا مختلف حالات کے متعدد تجربے ثابت کر دیں کہ واقعی یہ سنی صحیح العقیدہ ثابت قدم ہے‘ اور وہابیوں دیوبندیوں کے جلسوںمیں شرکت نہیں کرتا اور ان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا بلکہ ان سے اور سب بدمذہبوں سے اور ان کی کتابوں سے متنفر ہے اس وقت اسے کسی مسجد کا امام مقرر کر سکتے ہیں۔ فتاویٰ قاضی خاں پھر فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
الفاسق اذا تاب لایقبل شھادتہ مالم ینص علیہ زمان یظھر علیہ اثر التوبۃ ا ھ۔
امیر المؤمنین غیظ المنافقین سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب صبیغ تمیمی سے جس پر بحث متشابہات کے سبب بدمذہبی کا اندیشہ تھا بعد ضرب شدید توبہ لی تو حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو فرمان بھیجا کہ مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھیں، اس کے ساتھ خرید و فروخت نہ کریں، بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کو نہ جائیں اور مر جائے تو اس کے جنازے پر حاضر نہ ہوں تو اس حکم کی تعمیل میں ایک مدت تک یہ حال رہا کہ اگر سو آدمی بیٹھے ہوتے اور وہ آ جاتا تو سب متفرق ہو جاتے حالانکہ وہ توبہ بہت پہلے کر چکا تھا‘ مگر مسلمان بحکم امیر المؤمنین اس سے دور رہتے۔ پھر جب حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کو مطلع کیا کہ اب اس کا حال اچھا ہو گیا اس وقت آپ نے مسلمانوں کو صبیغ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور خرید و فروخت کرنے کی اجازت دی۔
اخرج نضر المقدسی فی کتاب الحجۃ وابن عساکر عن ابی عثمان النھدی عن صبیغ انہ سال عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ عن المرسلات والذاریات والنازعات فقال لہ عمرالق ماعلی راسک فاذالہ صفیر تان فقال لو وجدتک محلوقالضربت الذی فیہ عیناک ثم کتب الی اھل البصرۃ ان لاتجالسوا صبیغاً قال ابوعثمان فلوجآء ونحن مائۃ نفرقنا عنہ ا ھ۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا رضی المولیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں: جسے دیکھیں کہ ان (گمراہ) لوگوں سے میل جول رکھتا۔ ان کی مجلس وعظ میں جاتا ہے اس کا حال مشتبہ ہے ہرگز اسے امام نہ بنائیں اگرچہ وہ اپنے کو سنی صحیح العقیدہ کہتا ہو (فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص ۲۱۴) وھو تعالٰی اعلم۔
سوم(۳) زید اگر بدمذہب نہ ہو اور اس کی طہارت و قرأت یا کسی عمل کی وجہ سے کوئی سبب کراہت نہ ہو اور الزام زنا ثابت نہ ہو تو اسے امامت سے ہٹانا جائز نہیں لان فیہ ایذاء المسلم لہٰذا جن لوگوں نے زید کو بلاوجہ شرعی امامت سے معزول کیا ان لوگوں نے دو ظلم کیے کہ جو شخص قابل امامت تھا اسے ہٹا دیا اور بکر جو قابل امامت نہیں تھا اسے امام مقرر کر دیا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ جس کا حال مشتبہ ہو اور جو احکام شرعیہ کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا اسے امامت سے الگ کر دیں اور امام اوّل کو نماز پڑھانے کے لئے مقرر کر دیں۔
اور اگر امام اوّل میں بھی کوئی شرعی خرابی ہو تو تیسرا شخص جو سنی صحیح العقیدہ، صحیح الطہارۃ، صحیح القرأت ہو اور اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو اسے امام مقرر کریں۔ اگر مسلمان ایسا نہ کریں گے تو گنہگار ہوں گے کما ھو الظاھر وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲۹؍ ذی الحجہ ۱۳۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۸۱/۲۸۰/۲۷۹/۲۷۸)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند