امام کچھ لوگوں کے ساتھ اونچی جگہ پر ہو اور باقی لوگ نیچے تو نماز میں کراہت نہیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسلہ ذیل کے بارے میں فی الوقت جو مسجد ہےمحراب کے سمت مسجد کی توسیع کی جارہی ہے اندر گراؤنڈ کی وجہ سے موجودہ مسجد کے بنسبت پندرہ انچ اونچی ہورہی ہے اب دریافت یہ ہے کہ امام صاحب کے ساتھ کچھ صفیں پندرہ انچ اونچی ہورہی ہے اور کچھ صفیں پندرہ انچ نیچے ہونے کی وجہ سے نماز میں کوی کراہت ہے یانہیں مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
سایل۔ محمد جعفر صادق تاج نگر تاج مسجد ھبلی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسئولہ میں کوئی حرج نہیں ، اس طرح توسیع بھی درست ہے اور نماز بھی بلا کراہت جائز ہوگی
چنانچہ امام برہان الدین محمود ابن مازہ بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ ھ فرماتے ہیں
وإنما يكره أن يكون الإمام وحده على الدكان أو وحدہ على الأرض، أما إذا كان بعض القوم مع الإمام فلا بأس “*
(المحیط البرھانی ، کتاب الصلاۃ ، بیان مایکرہ للمصلی ، مایتصل بھذاالفصل ، ۱/۳۸۱ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، کراہت اس صورت میں ہے کہ امام اکیلا دکان پر یا اکیلا زمین پر ہو ، لیکن جب امام کے ساتھ کچھ لوگ ہوں تو کوئی حرج نہیں
اور علامہ زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں
قيد بالانفراد لانه لو قام بعض القوم مع الامام قیل يكره والاصح أنه لا يكره و به جرت العادة في جوامع المسلمين في أغالب الامصار۔
(البحر الرائق ، کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا ، ۲/۲۹ ، مطبوعہ مصر)*
یعنی ، مصنف نے انفراد کے ساتھ مقید اسلئے کیا کہ کچھ لوگ اگر امام کے ساتھ کھڑے ہوں تو ایک قول یہ ہے کہ مکروہ ہے مگر صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں اور عام طور پر شہروں میں مسلمانوں کے جوامع مساجد کے اندر یہ طریقہ رائج ہے
اور علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں
*” لم يكره لو كان معه بعض القوم في الأصح، وبه جرت العادة في جوامع المُسلمين۔
(الدر المختار ، کتاب الصلاۃ ، باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا ، ص۸۸ ، دارالکتب العلمیہ بیروت)*
یعنی ، اگر امام کے ساتھ کچھ لوگ ہوں تو اصح قول پر مکروہ نہیں ہے اور مسلمانوں کی جامع مسجدوں میں یہی عادت جاری ہوگئی ہے
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
وظاهره: أنه لا يكره ولو بلا عذر، وإلا كان داخلاً فيما قبله
(ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا ، ۴/۱۶۴ ، صالح فرفور ، دارالثقافۃ والتراث)*
یعنی ، ظاہر یہ ہےکہ ایسا بلا عذر ہو تو بھی مکروہ نہیں ہے ورنہ پھر ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا
البتہ اگر امام کے ساتھ صرف ایک آدمی ہو تو ضرور مکروہ ہوگا
چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہیں
الظاهر ان المراد بالبعض جماعة من القوم لا واحد لما في الدر المختار فی باب الامامة من انه لوقام واحد بجنب الامام وخلفه صف کره اجماعا۔
(منحۃ الخالق علی البحر الرائق ، علی ھامش البحر ، کتاب الصلاۃ ، باب مایفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا ، ۲/۲۹)*
یعنی ، ظاہر یہ ہے کہ بعض سے مراد لوگوں کی ایک جماعت ہے ، کیونکہ درمختار کے باب الامامۃ میں تصریح ہےکہ اگر امام کے پہلو میں ایک آدمی کھڑا اور اس کے پیچھے صف ہو تو بالاجماع مکروہ ہے
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۱۳/ ربیع الآخر۱۴۴۵ھ مطابق ۲۹/ اکتوبر ۲۰۲۳ء*
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
المفتی محمد جنید النعیمی غفرلہ
دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
الجواب صحیح ابوحمزہ محمد عمران مدنی نعیمی دارالافتاء محمدی ۔محمدی مسجد گارڈن ویسٹ کراچی
الجواب صحیح
المفتی محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
صح الجواب
المفتی محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
دارالافتاء غوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ