انبیائے کرام کسی کو مال کا وارث نہیں بناتے
اگر فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ما ن بھی لیا جائے پھر بھی اس میں وراثت نہیں جاری ہو گی بلکہ وہ صدقہ ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم لانورث ماترکناہ صدقۃ۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ ہم (گروہ انبیاء) کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہے۔
(مشکوٰۃ ص ۵۵۰)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور کے وصال فرما جانے کے بعد ازواج مطہرات نے چاہا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حضور کے مال سے اپنا حصہ تقسیم کروائیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
الیس قد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانورث ماترکناہ صدقۃ۔
کیا حضور نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ ہم کسی کو اپنے مال کا وارث نہیں بناتے جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے۔
(مسلم شریف جلد دوم ص ۹۱)
جب حضرت عائشہ نے ازواج مطہرات کو یہ حدیث شریف سنائی تو انہوں نے میراث طلب کرنے کا ارادہ ختم کر دیا‘ اور حضرت عمرو بن الحارث رضی اللہ عنہ جو حضرت جویریہ زوجۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے انہوں نے فرمایا:
ماترک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عند موتہ دیناراً اولادرھماً ولاعبداً ولاامۃ ولاشیئا الا بغلتہ البیضاء وسلاحہ وارضا جعلھا صدقۃ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے وقت درہم و دینار اور غلام و باندی کچھ نہیں چھوڑا مگر ایک سفید خچر، اپنا ہتھیار اور کچھ زمین جس کو حضور نے صدقہ کر دیا تھا۔
(رواہ البخاری مشکوٰۃ ص ۵۵)
اور بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لایقتسم ورثتی دیناراً ماترکت بعد نفقۃ نسائی ومؤنۃ عاملی فھو صدقۃ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے وارث ایک دینار بھی تقسیم نہیں کریں گے میں جو کچھ چھوڑ جاؤں میری ازواج کے مصارف اور عاملوں کا خرچ نکالنے کے بعد جو بچے وہ صدقہ ہے۔
(مشکوٰۃ شریف ص ۵۵۰)
اور بخاری و مسلم میں حضرت مالک بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجمع صحابہ جن میں حضرت عباس، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سب کو قسم دے کر فرمایا: کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے؟ تو سب نے اقرار کیا کہ ہاں حضور نے ایسا فرمایا ہے حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں:
انشدکم باللّٰہ الذی باذنہ تقوم السماء والارض ھل تعلمون ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لانورث ماترکنا صدقۃ قالوا قد قال ذٰلک فاقبل عمر علیٰ علی و عباس فقال انشد کما باللّٰہ ھل تعلمان ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد قال ذٰلک
قالانعم۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو خداتعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہے؟ تو ان لوگوں نے کہا: بے شک حضور نے ایسا فرمایا ہے پھر وہ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں آپ دونوں کو خداتعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ حضور نے ایسا فرمایا ہے؟ تو ان لوگوں نے بھی کہا کہ ہاں حضور نے ایسا فرمایا ہے۔
(بخاری ج ۲‘ ص ۵۷۵ مسلم ج ۲‘ ص ۹۰)
ان احادیث کریمہ کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا اور حضور کا ترکہ خیبر اور فدک وغیرہ ان کے قبضہ میں ہوا اور پھر ان کے بعد حسنین کریمین وغیرہ کے اختیار میں رہا تو ان میں سے کسی نے ازواج مطہرات حضرت عباس اور ان کی اولاد کو باغ فدک وغیرہ سے حصہ نہ دیا‘ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ نبی کے ترکہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی‘ ورنہ یہ تمام بزرگوار جو رافضیوں کے نزدیک معصوم اور اہلسنّت کے نزدیک محفوظ ہیں حضرت عباس اور ازواج مطہرات کی حق تلقی جائز نہ رکھتے۔
ان تمام شواہد سے خوب واضح ہو گیا کہ انبیائے کرام کے ترکہ میں وراثت نہیں جاری ہوتی اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیّدہ کو باغ فدک نہیں دیا ‘نہ کہ بغض و عداوت کے سبب‘ جیسا کہ رافضیوں کا الزام ہے اس لئے کہ اگر حضرت سیّدہ سے ان کو دشمنی تھی تو ازواج مطہرات کو حضور کے ترکے سے حصہ پہنچتا تو ان سے اور ان کے باپ بھائی وغیرہ متعلقین سے کیا عداوت تھی کہ ان سب کو محروم المیراث کر دیا جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ ان کی صاحبزادی بھی ازواج مطہرات میں سے تھیں بلکہ حضرت عباس حضور کے چچا اور حضرت ابوبکر کے ابتدائے خلافت سے مشیر و رفیق تھے جن کو تقریباً نصف ترکہ ملتا تھا وہ کس دشمنی کے سبب وراثت سے محروم ہو ئے؟ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد رسول: لانورث ماترکتہ صدقۃ کے سبب حضرت سیّدہ کو فدک نہ دیا کہ حدیث پر عمل کرنا ان پر لازم تھا۔ اس لئے کہ کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت سیّدہ کو خوش کرنے کے لئے انہیں حدیث کوپس پشت ڈال دینا چاہئے تھا اور ارشاد رسول پر انہیں عمل نہیں کرنا چاہئے تھا‘ اور جب حضرت ابوبکر صدیق نے حدیث رسول پر عمل کیا تو ان پر الزام کیا ہے جبکہ روایت کہ حضرت انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے رافضیوں کی معتبر کتابوں سے بھی ثابت ہے جیسا کہ اصول کافی باب العلم و المتعلم میں ہے:
عن ابی عبداللّٰہ علیہ السلام قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان العلماء ورثۃ الانبیاء وا ن الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولادرھما ولٰکن اور ثوا
العلم فمن اخذہ منہ اخذبحظ وافر۔
ابوعبداللہ حضرت امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علمائے دین انبیائے کرام کے وارث ہیں اس لئے کہ ابنیائے کرام کسی شخص کو درہم و دنیار کا وارث نہیں بتاتے تو جس شخص نے علم دین حاصل کیا اس سے بہت کچھ حاصل کیا۔ اور اسی کتاب اصول کافی کے باب صفتہ العلم میں ہے
: عن ابی عبداللّٰہ علیہ السلام ان العلماء ورثۃ الانبیاء وذٰلک ان الانبیاء لم یورثوا درھما ولادیناراً وانما اور ثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذہ بشیء منھا فقد اخذ حظا وافرا۔
حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ علمائے کرام انبیائے عظام کے وارث ہیں اور یہ اس لئے کہ حضرات انبیائے کرام نے کسی کو دراہم و دینار کا وارث نہیں بنایا‘ انہوں نے تو صرف اپنی باتوں کا وارث بنایا‘ تو جس شخص نے ان کی باتوں کو حاصل کر لیا اس نے بہت کچھ حاصل کیا۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ جو رافضیوں کے نزدیک معصوم ہیں اور اہلسنّت کے نزدیک محفوظ ہیں۔ ان کی روایتوں سے بھی ثابت ہو گیا کہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی میراث صرف علم شریعت ہی ہے وہ درہم و دینار اور مال و اسباب کا کسی کو وارث نہیں بناتے اور جب یہ بات رافضیوں کی روایات سے بھی ثابت ہے تو پھر سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم نہ کرنے کے سبب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر فدک کے غصب کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘ اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ وَوَرِثَ سُلَیْمَانَ دَاؤٗدَ وغیرہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی انبیائے کرام کی وراثت کا ذکر ہے اس سے علم شریعت و نبوت مراد ہے نہ کہ درہم و دینار۔
اور بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں میراث نہ جاری ہوتی تو حضرت ابوبکر حضرت علی کو حضور کی تلوار‘ زرہ اور دلدل وغیرہ کیوں دیتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت علی کو حضور کی تلوار وغیرہ کا دینا اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ حضور کے ترکہ میں میراث نہیں۔ اس لئے کہ حضرت علی حضور کے وارث نہ تھے۔ اگر حضور کے ترکہ کے وارث ہوتے تو صرف حضرت فاطمہ زہراء، ازواج مطہرات اور حضرت عباس ہوتے نہ کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہم) مگر چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مال وفات کے بعد عامۂ مسلمین کے لئے وقف کا حکم رکھتا ہے اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان چیزوں کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو زیادہ لائق سمجھا تو ان کے لئے مخصوص کر دیا اور بعض چیزیں حضرت زبیر بن العوام اور حضرت محمد بن مسلمہ انصاری کو بھی دیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں میراث نہیں۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۹۷/۹۶/۹۵/۹۴)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند