ایسے ریسٹورنٹ میں جہاں سور کا گوشت بنانا پڑے وہاں ملازمت کرنا کیسا؟
AISE RESTAURANT MEN JAHAN SUWAR (PIG) KA GOSHT BANANA PADE WAHAN MULAZIMAT KARNA KAISA HAI?
ऐसे रेस्तौरंट में जहाँ सुवर (PIG) का गोशत बनाना पड़े वहाँ नौकरी करना कैसा?
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے ھذا میں کہ:
ایک کمپنی ہے جس میں کام کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ اس میں (sandwich 🥪) بنانا ہوتا ہے۔ bread وغیرہ سب تیاری رہتے بس بریڈ کے درمیان گوشت وغیرہ لگا کر fry کر کے دینا ہوتا۔اب اس میں یہ ایک چیز ہے کہ جو گوشت ہوتا ہے وہ کئی طرح کا ہے۔مثلا مچھلی، گائے ،بکرے کا اور اس میں سور کا گوشت بھی شامل ہے۔ہمیں جس گوشت سے sandwich بنانے کا order آئے اسکی sandwich بنانا پڑے گا۔
اب اگر ہمیں order سور کے گوشت کی sandwich بنانے کا آئے تو بنانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔ gloves بھون کر ہی بنا نا ہوتا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ایسے ریسٹورنٹ میں ملازمت کرنا کیسا ہے؟
قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائلہ:بنت سیدہ حیدرآباد تلنگانہ الھند
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
ایسے ریسٹورنٹ میں نوکری کرنا عند الشرع ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔ اس طور پر کہ جن چیزوں کا کھانا پینا خود مسلمان کے لیے حلال نہیں ہیں، وہ چیزیں مسلمانوں کو تو درکنار، غیر مسلموں کو کھانے پینے کے لیے بنا کر فراہم کرنا بھی ناجائز ہے،اسلئے کہ صحیح قول کے مطابق کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں ، انہیں کھانے پینے کے لیے حرام اشیاء فراہم کرنا ضرور گناہ پر تعاون ہے اور اللہ عزوجل نے گناہ پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ نیز جب اتنا معلوم ہے کہ اس ریسٹورنٹ سے حلال کے ساتھ حرام اشیاء بھی پکانی پڑتی ہیں، تو اِس کام کے ناجائز ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
مسلم و غیر مسلم کو کھانے پینے کے لیے حرام اشیاء بنا کر فراہم گناہ پر تعاون ہے ،اور گناہ پر تعاون جائز نہیں ۔
اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ۔
ترجمہ کنز العرفان:اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے‘‘۔
(پارہ 6، سورۃ المائدہ،آیت2)
اللہ تعالی سور کے حرام ہونے کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اﷲِط فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
یعنی:
اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو ناچار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
(پ:۲،س:۱،آیت:۱۷۳)
دوسرے مقام پر فرمایا:
حُرِّمَتْ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِهِ…الخ
یعنی:
تم پر حرام ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا الخ۔
(پ:۶،س:۵،آیت:۳)
تیسرے مقام پر حرام قرار دینے کے ساتھ وجہ بھی بیان فرمائی کہ حرام کیوں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ يَّطْعَمُهُ اِلَّآ اَنْ يَّکُوْنَ مَيْتَة اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْلَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهُ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِهِ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
یعنی:
تم فرماؤ میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے یا وہ بےحکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بےشیک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
(پ:۸،س:۶،آیت:۱۴۵)
اسی طرح چوتھے مقام پر فرمایا:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِهِ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
یعنی:تم پر تو یہی حرام کیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام پکارا گیا پھر جو لاچار ہو نہ خواہش کرتا اور نہ حد سے بڑھتا تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(پ:۱۴،س:۱۶،آیت:۱۱۵)
حدیث مبارکہ میں خنزیر کی خریدوفروخت کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اﷲِ يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَکَّةَ إِنَّ اﷲَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَة وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اﷲِ أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَة فَإِنَّهَا يُطْلَی بِهَا السُّفُنُ وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ فَقَالَ لَا هُوَ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اﷲِ عِنْدَ ذَلِکَ قَاتَلَ اﷲُ الْيَهُودَ إِنَّ اﷲَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَکَلُوا ثَمَنَهُ.
یعنی:حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جبکہ آپ مکہ مکرمہ میں تھے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دے دیا ہے۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ! مردار کی چربی کو کشتیوں میں ملتے، کھالوں پر لگاتے اور لوگ اُس سے چراغ روشن کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں وہ حرام ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے، جب اللہ نے اُن پر چربی کو حرام کیا تو وہ اُسے پگھلا کر فروخت کر دیتے اور اس کی قیمت کھا جاتے۔
(البخاري، الصحيح، كتاب البيوع، باب بيع الميتة والأصنام، 2: 779، الرقم: 2121، بيروت: دار ابن کثير اليمامة)
(مسلم، الصحيح كتاب المساقاة، باب تحريم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام، 3: 1207، الرقم: 1581، بيروت: دار احياء التراث العربي)
(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 324، الرقم: 14512، مصر: مؤسسة قرطبة)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ ابو داود، امام ترمذی، ابن ماجہ، امام نسائی، امام طبرانی اور دیگر محدثین نے بھی نقل کی ہے۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق مسلمانوں کے لیے تو خنزیر کا گوشت کھانا اور اس کی خرید و فروخت کرنا قطعی حرام ہے۔
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال ہوا کہ مسلمانوں کو قصدا شکار سور کا کھانا اور بلم سے مارنا اور کتے سے اور اہل ہنود کو کھلانا جائز ہے یانہیں؟ تو اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ:
سوئر اگر کھیتی وغیرہ کو ضرر دے یا اس سے انسان یا مویشی پر حملہ آوری کااندیشہ ہو تو اسے کتے سے شکار کرنا خواہ بلم یا بندوق سے مارنا جائز بلکہ مستحب،بلکہ بعض اوقات میں فرض وواجب ہے۔مگر ہندو وغیرہ کسی کافر کو اس کا کھلانا یا اس کے پاس بھجوانا سخت حرام ہے۔کہ کھانے اور کھلانا ایك حکم ہے۔
اشباہ میں ہے:
ماحرم اخذہ حرم اعطاؤہ۔
یعنی:جس چیز کالینا حرام ہے اس کا دینا بھی حرام ہے۔(ت)
(الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الرابعہ عشر ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۱۸۹)
(فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص:۶۴۲)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ شراب کابنانا، بنوانا، چھونا، اٹھانا، رکھنا، رکھوانا، بیچنا، بکوانا، مول لینا، دلواناسب حرام حرام حرام ہے اور جس نوکری میں یہ کام یا شراب کی نگہداشت، اس کے داموں کا حساب کتاب کرنا ہو،سب شرعاًناجائز ہیں ۔ قال اللہ تعالیٰ: ﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾‘‘
(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 566،565، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں۔
چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
حرمۃ الخمر والخنزیر ثابتۃ فی حقھم کما ھی ثابتۃ فی حق المسلمین،لانھم مخاطبون بالحرمات وھو الصحیح عند اھل الاصول۔
ترجمہ:شراب اور خنزیر کی حرمت غیر مسلموں کے حق میں بھی بالکل اسی طرح ثابت ہے ،جس طرح مسلمانوں کے حق میں ثابت ہے ،کیونکہ وہ بھی محرمات کے مکلف ہیں اور یہی اہلِ اصول کے نزدیک صحیح ہے ۔ ‘‘ (بدائع الصنائع، کتاب السیر، جلد 6، صفحہ 83، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے:
صحیح یہ ہے کہ کفار بھی مکلّف با لفروع ہیں ۔
(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 382، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اورنا جائز کام کی نوکری کے متعلق موسوعہ فقہیہ کوییتہ میں ہے:
’’اتفقوا علی انہ لا یجوز للمسلم ان یؤجر نفسہ للکافر لعمل لا یجوز لہ فعلہ کعصر الخمر ورعی الخنازیر وما اشبہ ذلک‘‘
ترجمہ: فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان کا کافر کے پاس ایسے کام کے لیے اجیر ہونا ، جائز نہیں جو کام اس کے لیے شرعاً جائز نہ ہو، جیسے شراب (کے لیے انگور) نچوڑنا، خنزیروں کو چرانا اور اسی طرح کے دیگر ناجائز افعال ۔ ‘‘
(موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 19، صفحہ 45، مطبوعہ کویت)
صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ دو مسلمان ایسے ہوٹل میں ملازم ہوئے کہ جس میں خنزیر کا گوشت پکتا تھا اور بھی ہر قسم کا گوشت پکتا تھا۔ ان دونوں میں سے ایک کا کام ڈھکی ہوئی رکابی اٹھا کر دوسرے مسلمان کو دینا اور دوسرے کا کام میز پر رکھنا تھا، لیکن دونوں کو علم نہ تھا کہ اس ڈھکی ہوئی رکابی میں کیا ہے، تو اب ان دونوں کے حق میں کیا حکم ہے؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا :
جبکہ یہ معلوم تھا کہ اس ہوٹل میں خنزیر کا گوشت پکتا ہے اور ان دونوں کے متعلق یہ کام تھا کہ کھانا میز تک پہنچائیں، تو ایسے ہوٹل میں انہیں ملازمت ہی نہ چاہیے تھی، توبہ کر کے برادری میں شامل ہو جائیں۔ حدیث میں ہے: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔ ‘‘
(فتاوی امجدیہ، جلد 3، صفحہ 270 تا 271، دار العلوم امجدیہ، کراچی)
لہذا ایسے ریسٹورنٹ میں جہاں سور کے گوشت کو بنانا پڑتا ہے اس میں ملازمت کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں و بانی و مہتمم تاج الشریعہ لائبریری پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
(بتاریخ ۱۱/ربیع الآخر بروز پیر مطابق ۷/نومبر ۲۰۲۲/ عیسوی)
( موبائل نمبر 8390418344)
الجواب الصحیح فقط مفتی محمد شہزاد صاحب قبلہ