عوام میں سے بعض لوگ بطور خود کسی ایک کا تقرر کر کے جمعہ پڑھ سکتے ہیں؟
فی زماننا جمعہ قائم کرنے کی اہلیت کسے حاصل ہے ؟
صورت مستفسرہ میں مذکور علاقہ جو خارج از شہر ہے وہاں جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں بر تقدیر اول عند الأحناف اسکی کیا تو جیہات ہیں ؟ اور بر تقدیر ثانی کیا یہ شعار اسلام کو پامال کرنے کے مترادف نہیں ؟ نیز وہاں جمعہ قائم کرنے والے پر کیا حکم ہے.؟
اور وہ لوگ جو شہر کی مساجد کو چھوڑ کر اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں از رو شرع انکا کیا حکم ہے ؟ نیز جمعہ کے دن ان لوگوں کے جانے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مساجد میں دو تین صفیں خالی ہوجاتی ہیں
ایک شہر میں متعدد جمعہ قائم کرنا عند الأحناف جائز ہے یا نہیں ؟
(۲)
عوام میں سے بعض لوگ بطور خود کسی ایک کا تقرر کر کے جمعہ پڑھ سکتے ہیں؟
(۳)
فی زماننا جمعہ قائم کرنے کی اہلیت کسے حاصل ہے ؟
(۴)
صورت مستفسرہ میں مذکور علاقہ جو خارج از شہر ہے وہاں جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں بر تقدیر اول عند الأحناف اسکی کیا تو جیہات ہیں ؟ اور بر تقدیر ثانی کیا یہ شعار اسلام کو پامال کرنے کے مترادف نہیں ؟ نیز وہاں جمعہ قائم کرنے والے پر کیا حکم ہے.؟
(۵)
اور وہ لوگ جو شہر کی مساجد کو چھوڑ کر اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں از رو شرع انکا کیا حکم ہے ؟ نیز جمعہ کے دن ان لوگوں کے جانے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مساجد میں دو تین صفیں خالی ہوجاتی ہیں
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ میں کہ ریاست کرناٹکا کے ایک شہر رانی بنور میں بحمد اللہ تعالیٰ جماعت اہلسنت کی پندرہ مساجد موجود ہیں جن میں نماز پنجگانہ اور جمعہ مع شرائط جمعہ ادا کی جاتی ہیں۔
باوجود اس کے شہر سے خارج وہ جگہ جو تقریبا آٹھ کلو میٹر کی مسافت پر ہے نہ وہ محلہ ہے نہ ہی لوگوں کی ضروریات میں سے ہے اس جگہ ایک مدرسہ اور اسی سے متصل مسجد قائم ہے جس میں نماز پنجگانہ وجمعہ ادا کی جاتی ہیں اور بعض لوگ شہر کی مساجد میں نماز ادا کرنے کی بجائے اس مسجد میں جا کر نماز پنجگانہ وجمعہ ادا کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اگر یہ بعض لوگ بھی وہاں نہ جائیں تو سواے مدرسے کے طلبہ کے اور کوئی نہیں رہتا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ
(۱) ایک شہر میں متعدد جمعہ قائم کرنا عند الأحناف جائز ہے یا نہیں ؟
(۲) عوام میں سے بعض لوگ بطور خود کسی ایک کا تقرر کر کے جمعہ پڑھ سکتے ہیں؟
(۳) فی زماننا جمعہ قائم کرنے کی اہلیت کسے حاصل ہے ؟
(۴) صورت مستفسرہ میں مذکور علاقہ جو خارج از شہر ہے وہاں جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں بر تقدیر اول عند الأحناف اسکی کیا تو جیہات ہیں ؟ اور بر تقدیر ثانی کیا یہ شعار اسلام کو پامال کرنے کے مترادف نہیں ؟ نیز وہاں جمعہ قائم کرنے والے پر کیا حکم ہے.؟
(۵) اور وہ لوگ جو شہر کی مساجد کو چھوڑ کر اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں از رو شرع انکا کیا حکم ہے ؟ نیز جمعہ کے دن ان لوگوں کے جانے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مساجد میں دو تین صفیں خالی ہوجاتی ہیں
مدلل جوابات عنایت فرما کر عند اللہ ماجور وعند الناس مشکور ہوں.
المستفتيان:
(مولانا محمد اشتیاق احمد ، رانی بنور ، کر تانک
(مولانا) سید حبیب الله نوری ، رانی بنور ، کرناٹک
(جناب) محمد عمران، ضوی ، رانی بنور ، کرناٹک نوجوانان المسفت رانی بنور ، ضلع ہاویری، کرناٹک
9945701078
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب
عند الاحناف صحیح ، راجح اور مفتی بہ قول یہ ہے کہ شہر کے اندر متعدد مقامات پر جمعہ قائم کرنا درست ہے
مراقی الفلاح مصری ص ۳۰۴ میں ہے۔
وتصح اقامۃ الجمعۃ فی مواضع کثیرۃ بالمصرو فنائہ و ھو قول أبی حنیفۃ و محمد فی الأصح و من لازم جواز التعدد سقوط اعتبار السبق۔
یعنی:شہر اور فنائے شہر کے اندر مختلف مقامات پر جمعہ قائم کرنا صحیح ہے۔ یہی امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کا قول ہے۔ اور تعدد کے جواز سے تقدیم و سبقت کا اعتبار ساقط ہو جاتا ہے۔
حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح مصری میں ہے۔
(قولہ فی الأصح) قال السرخسی و بہ ناخذ و علیہ الفتویٰ کما فی شرح المجمع للعینی و کما فی الفتح۔
(ان کا قول فی الأصح) سرخسی نے کہا۔ یہی ہمارا موقف ہے اور اسی پر فتویٰ ہے جیسا کہ عینی کی شرح مجمع اور فتح القدیر میں ہے۔
اسی میں ہے۔
فان المذھب الجواز مطلقا۔
صحیح مذہب مطلقاً جمعہ کئی مقامات پر جائز ہونے کا ہے۔
اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
قصبہ و شہر جہاں جمعہ جائز ہے وہاں نماز جمعہ متعدد جگہ ہونا بھی جائز ہے اگر چہ افضل حتی الوسع ایک جگہ ہوتا ہے۔
(فتاوی رضویہ،ج:۸،ص:۳۱۳)
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
تعدد نماز جمعہ میں قول امام محمد رحمۃ اللہ علیہ پر فتوی ہے کہ ایک شہر میں متعدد جمعہ قائم کر سکتے ہیں۔
(فتاوی امجدیہ،ج:۱،ص:۲۹۴)
اسی طرح حبیب الفتاوی،ج:۱،ص:۵۲۵،کتاب الصلوۃ میں ہے
مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
مگر جمعہ چونکہ شعائر اسلام سے ہے اور مسلمانوں کے اجتماع عظیم سے ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے جو تفرق میں نہیں لہذا جہاں تک تعداد جمعہ میں کمی ہو مسلمانوں کا مجمع کثیر ہوگا اور اس سے اسلام کی شوکت زیادہ ظاہر ہوگی اور کفار پر اس کا رعب پڑے گا ان امور کو لحاظ رکھتے ہوئے مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ جمع ہونا بنسبت تعدد کے بہتر ہے۔
(فتاوی امجدیہ،ج:۱،ص:۲۹۰،باب الجمعہ)
و اللہ اعلم بالصواب
(۲)عوام میں سے بعض لوگ بطور خود کسی ایک کا تقرر کر کے جمعہ پڑھ سکتے ہیں؟
الجواب
جمعہ قائم کرنے اور نماز جمعہ صحیح ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بادشاہ اسلام اس کا نائب یا اس کا ماذون قائم کرے۔ یا ایسا عالم جو اعلم علمائے بلد ہو۔ یا بدرجۂ مجبوری عام مسلمانوں کی اکثریت جسے منتخب کرے وہ امامت کرے اور ان طریقوں میں سے ایک بھی فوت ہو تو قیام جمعہ اور نماز باطل محض ہو گی کہ اذافات الشرط فات المشروط یعنی جب شرط نہیں پائی گئی تو مشروط نہیں پایا جا سکتا۔
لہذا چند افراد مل کر نہ جمعہ قائم کر سکتے ہیں نہ ہی جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں کیونکہ
جملہ متون وشروح وفتاوئے مذہب مہذب حنفیہ میں یہی ہےکہ اقامت جمعہ کا اختیار سلطان اسلام یا اس کےنائب کو ہے جہاں سلطنتِ اسلامیہ نہیں وہاں یہ امامتِ عامہ اس شہر کے سنی اعلمِ علمائے دین کو ہے، جہاں یہ بھی نہ ہو وہاں بہ مجبوی عام مسلمان جسے مقرر کرلیں ۔
امام ابوجعفرطحاوی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں
ولایقوم بہا الا ذو سلطان
(مختصرالطحاوی ص٣٥ ، المعارف النعمانیۃ حیدرآباد)
امام قدوری علیہ الرحمہ فرماتےہیں
ولاتجوز اقامتہا الابالسلطان او من امرہ السلطان (مختصرالقدوری ص١٠١ ، مؤسسۃالریان)
امام ابوالبرکات نسفی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
والسلطان او نائبہ
کنزالدقائق ص١٨٩ ، دارالبشائرالاسلامیۃ
کتاب الکافی فی شرح الوافی ص٩٨ ، مخطوطۃ
امام ابراہیم حلبی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
لاتصح الا بستۃ شروط المصر او فناءہ والسلطان او نائبہ (ملتقی الابحر ص١٣٣ ، دارالبیروتی)
مجمع البحرین وملتقی النیرین ص ١٥٩ ، دارالکتب العلمیۃ
علامہ شرنبلالی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
ویشترط لصحتہا ستۃ اشیآء المصر او فناءہ والسلطان او نائبہ
(نورالایضاح ص٢٦٣ ، مکتبۃالمدینۃ)
کہ جمعہ کےشرائط میں سلطان اسلام یا اس کےنائب کاہوناہے“
تنویر الابصار و درمختار باب الجمعہ میں ہے:
یشترط لصحتھا سبعۃ اشیاء الاول المصر وفناء والثانی السلطان اومامورہ باقامتھا۔
صحت ِجمعہ کے لئے سات چیزیں شرط ہیں: ایک یہ شہر اور فناء شہر، دوسری سلطان یا اقامت جمعہ پر اس کی طرف سے کوئی مامور ہو
(درمختار باب الجمعہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۰۹)
بایں ہمہ کہ ہمارا ہندستان دارالاسلام ہے مگریہاں نہ توبادشاہ اسلام ہےنہ اس کانائب ، فہلذا یہاں اعلم علمائےبلد بادشاہ اسلام کا قائم مقام ہے
فتاوٰی امام عتابی پھر حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ مطبوعہ مصر جلد اول صفحہ ۲۴۰میں ہے:
اذاخلا الزمان من سلطان ذی کفایۃ فالامورموکلۃ الی العلماء ویلزم الامۃ الرجوع الیھم ویصیرون ولاۃ فاذا عسر جمعھم علی واحد استقل کل قطر باتباع علمائہ فان کثروا فالمتبع اعلمھم فان استووا اقرع بینھم ۔
جب کامل سلطان سے زمانہ خالی ہو تو معاملات علماء کے سپرد ہوں گے اور امت پر لازم ہے کہ وہ علماء کی طرف رجوع کرے اور اس وقت علماء ہی والی ہوجائیں گے اور جب ان کا کسی معاملہ پرجمع ہونا مشکل ہوجائے تو ہر علاقہ کے لوگ اپنی طرف کے علماء کی اتباع کرلیں، اور اگر اس علاقہ میں علماء زیادہ ہوں تو ان میں زیادہ علم والے کی اتباع کریں اور اگر وہ برابر ہوں توقرعہ ڈال لیا جائے
(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریۃ المحمدیۃالنوع الثالث من انواع العلوم الثلثۃ الخ مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/۳۵۱)
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
ان شہروں میں کہ سلطان اسلام موجود نہیں اورتمام ملک کا ایک عالم پراتفاق دشوارہے ، اعلم علمائےبلد کہ اس شہرکےسنی عالموں میں سب سے زیادہ فقیہ ہو نمازکےمثل مسلمانوں کےکاموں میں ان کا امام عام ہے اور بحکم قرآن ان پر اس کی طرف رجوع اور اس کےارشاد پرعمل فرض ہے ، جمعہ وعیدین وکسوف کی امامت وہ خودکرے یاجسے مناسب جانے مقرر کرے ، اس کےخلاف پرعوام بطورخود اگرکسی کو امام بنالیں گے صحیح نہ ہوگا کہ عوام کاتقرر بمجبوری اس حالت میں روا رکھاگیاہے جب امام عام موجود نہ ہو اس کےہوتےہوئے ان کی قرارداد کوئی چیزنہیں۔
(فتاوی رضویہ مترجم،ج:٨،ص:٣٨٥ ، رضافاؤنڈیشن)
عمدۃ المحققین سلطان المناظرین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی اشرفی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں
نمازِ جمعہ و عیدین و کسوف میں ہرشخص امامت نہیں کرسکتا، اگرچہ وہ حافظ، قاری، مولانا مفتی، متقی وغیرہ صفات کا جامع ہومگر وہ جو بحکمِ شرع عام مسلمانوں کا خود امام ہوکہ بالعموم ان سب پر استحقاق امامت رکھتاہو یا ایسے امام کا ماذون و مقرر کردہ ہو اور یہ استحقاق علی الترتیب صرف تین طورپر ثابت ہوتا ہے، اولاً:وہ سلطانِ اسلام ہو ثانیاً: جہاں سلطنتِ اسلامیہ نہیں وہاں یہ امامتِ عامہ اس شہر کے سنی اعلمِ علمائے دین کو ہے، ثالثا:ً جہاں یہ بھی نہ ہو وہاں بہ مجبوی عام مسلمان جسے مقرر کرلیں ۔ بغیر ان صورتوں کے جوشخص نہ خود ایسا امام، نہ ایسے امام کا نائب و ماذون ومقرر کردہ ہو، اس کی امامت ان نمازوں میں اصلاً صحیح نہیں ۔ اگر امامت کرے گا، نمازباطل محض ہوگی، جمعہ کا فرض سرپررہ جائے گا۔
(حبیب الفتاوی،ج:۱،ص:۲۷۴،کتاب الصلوۃ)
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
ہر شخص کو اختیار نہیں کہ بطورِ خود یا ایک دو یا دس بیس یاسو پچاس کے کہے سے امامِ جمعہ یا عیدین بن جائے ایسا شخص اگرچہ اس کا عقیدہ بھی صحیح ہو اور عمل میں بھی فسق وفجور نہ ہو جب بھی امامتِ جمعہ وعیدین نہیں کرسکتا اگر کرے گا نماز اُس کے پیچھے باطل محض ہوگی۔
(فتاوی رضویہ،ج:۳،ص:۲۷۵)
بہارشریعت میں ہے
عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں ۔
(حصہ چہارم ٧٦٩)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
اس لئے کہ جمعہ و عیدین کی نماز صحیح ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بادشاہ اسلام اس کا نائب یا اس کا ماذون قائم کرے۔ یا ایسا عالم جو اعلم علمائے بلد ہو۔ یا بدرجۂ مجبوری عام مسلمانوں کی اکثریت جسے منتخب کرے وہ امامت کرے اور ان طریقوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو نماز باطل محض ہو گی کہ اذافات الشرط فات المشروط یعنی جب شرط نہیں پائی گئی تو مشروط نہیں پایا جا سکتا۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۹۰)
ان تمام تصریحات سے واضح ہواکہ جمعہ قائم کرنے کا حق بادشاہ اسلام اس کا نائب یا اس کا ماذون یا ایسا عالم جو اعلم علمائے بلد ہو۔ یا بدرجۂ مجبوری عام مسلمانوں کی اکثریت جسے منتخب کرے وہ امامت کرے اور ان طریقوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو نماز باطل محض ہو گی۔
(۳) فی زماننا جمعہ قائم کرنے کی اہلیت کسے حاصل ہے ؟
الجواب
فی زماننا ہمارا ہندستان دارالاسلام ہے مگریہاں نہ توبادشاہ اسلام ہےنہ اس کانائب ، فہلذا یہاں جمعہ اور عیدین کی امامت کے فیصلہ کا حق شہر کے سب سے بڑے سنی عالم فقیہ معتمد کو ہے‘ اور جہاں یہ نہ ہو تو بہ مجبوری وہاں کے صرف عوام نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی اکثریت جسے انتخاب کرے وہ امامت جمعہ و عیدین کر سکتا ہے۔
فتاوٰی امام عتابی پھر حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ مطبوعہ مصر جلد اول صفحہ ۲۴۰میں ہے:
اذاخلا الزمان من سلطان ذی کفایۃ فالامورموکلۃ الی العلماء ویلزم الامۃ الرجوع الیھم ویصیرون ولاۃ فاذا عسر جمعھم علی واحد استقل کل قطر باتباع علمائہ فان کثروا فالمتبع اعلمھم فان استووا اقرع بینھم ۔
جب کامل سلطان سے زمانہ خالی ہو تو معاملات علماء کے سپرد ہوں گے اور امت پر لازم ہے کہ وہ علماء کی طرف رجوع کرے اور اس وقت علماء ہی والی ہوجائیں گے اور جب ان کا کسی معاملہ پرجمع ہونا مشکل ہوجائے تو ہر علاقہ کے لوگ اپنی طرف کے علماء کی اتباع کرلیں، اور اگر اس علاقہ میں علماء زیادہ ہوں تو ان میں زیادہ علم والے کی اتباع کریں اور اگر وہ برابر ہوں توقرعہ ڈال لیا جائے
(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ النوع الثالث من انواع العلوم الثلثۃ الخ مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/۳۵۱)
جمعہ اور عیدین کی امامت کے فیصلہ کا حق شہر کے سب سے بڑے سنی عالم فقیہ معتمد کو ہے‘ اور جہاں یہ نہ ہو تو بہ مجبوری وہاں کے صرف عوام نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی اکثریت جسے انتخاب کرے وہ امامت جمعہ و عیدین کر سکتا ہے۔
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص ۲۷۵ میں تحریر فرماتے ہیں: ہر شخص کو اختیار نہیں کہ بطور خود یا ایک دو یا دس بیس سو پچاس کے کہے سے امام جمعہ و عیدین بن جائے ایسا شخص اگرچہ اس کا عقیدہ بھی صحیح ہو اور عمل میں بھی فسق و فجور نہ ہو۔ جب بھی امامت جمعہ و عیدین نہیں کر سکتا اگر کرے گا تو اس کے پیچھے نماز باطل ہو گی۔ انتہیٰ
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
اس زمانہ میں جمعہ اور عیدین کی امامت کے فیصلہ کا حق شہر کے سب سے بڑے سنی عالم فقیہ معتمد کو ہے‘ اور جہاں یہ نہ ہو تو بہ مجبوری وہاں کے صرف عوام نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی اکثریت جسے انتخاب کرے وہ امامت عیدین کر سکتا ہے۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۹۰)
(۴) صورت مستفسرہ میں مذکور علاقہ جو خارج از شہر ہے وہاں جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں بر تقدیر اول عند الأحناف اسکی کیا تو جیہات ہیں ؟ اور بر تقدیر ثانی کیا یہ شعار اسلام کو پامال کرنے کے مترادف نہیں ؟ نیز وہاں جمعہ قائم کرنے والے پر کیا حکم ہے.؟
الجواب
صورت مستفسرہ میں مذکور علاقہ جو خارج از شہر ہے وہاں جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے کیونکہ جمعہ قائم کرنے کے لئے چھ اہم شرطیں ہیں ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو جمعہ ہوگا ہی نہیں اس کی پہلی شرط مصر یا فنائے مصر ہے
حدیث مبارکہ میں ہے
خمسۃ لا جمعۃ علیھم المرأۃ والمسافر و العبد و الصبی و اھل البادیۃ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت مسافر غلام بچے اور گاؤں والوں ان پانچ لوگوں پر نماز جمعہ نہیں ہے
(طبرانی،ج:۱،ص:۷۲)
دوسری حدیث میں ہے
لا جمعۃ و لا تشریق الا فی مصر جامع
جمعہ اور تشریق نہیں ہے مگر شہر میں
(سنن الکبری للبیہقی،کتاب الجمعۃ،ج:۳،ص:۱۷۹)
حلبی کبیری میں ہے
الشرط الاول المصر او فناءہ فلا تجوز فی القری عندنا
جمعہ کی شرط اول مصر یا فنائے مصر ہے لہذا ہم احناف کے نزدیک گاؤں میں جمعہ جائز نہیں۔
(غنیۃ المصلی شرح منیۃ المصلی فصل فی صلاۃ الجمعۃ،ص:۴۷۳)
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
جو جگہ خود شہر نہ ہو اُس میں صحت جمعہ کےلئے فنائے مصر ہونا ضرور ہے فنائے مصر حوالی شہر کے اُن مقامات کو کہتے ہیں جو مصالح شہر کے لئے رکھے گئے ہوں مثلاً وہاں شہر کی عیدگاہ یا شہر کے مقابر ہوں یا حفاظت شہر کے لئے جو فوج رکھی جاتی ہے اُس کی چھاونی یا شہر کی گھوڑ دوڑ یا چاند ماری کا میدان یا کچہریاں، اگر چہ مواضع شہر سے کتنے ہی میل ہوں اگر چہ بیچ میں کچھ کھیت حائل ہوں، اور جو نہ شہر ہے نہ فنائے شہر اس میں جمعہ پڑھنا حرام ہے اور نہ صرف حرام بلکہ باطل کہ فرضِ ظہر ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔
(فتاوی رضویہ،ج:۸،ص:۳۶۳،باب الجمعۃ )
مذکورہ سوال میں جن باتوں کا ذکر کیا ہے وہ جمعہ کی صحت ادا کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے لیے مصر یعنی وہ آبادی جس میں متعدد کوچے دوامی بازار ہوں اور کوئی حاکم رعایا کے مقدمات کے لیے فیصل ہو یا فنائے مصر یعنی شہر کا وہ مقام جو شہری ضروتوں کے لیے متعین ہو جیسے شہر کے آبادی سے باہر اسٹیشن ہوائی جہاز کا اڈہ فوجی چھاؤنی قبرستان وغیرہ شرط ہے ھکذا فی الکتب الفقہیہ اور گاؤں کا شہر کے قریب ہونا بھی جمعہ کو دیہات میں جائز نہیں کر سکتا حضور صدر الافاضل فرماتے ہیں
جو آبادی فنائے شہر میں نہیں خواہ وہ شہر سے قریب ہو اس میں جمعہ صحیح نہیں نہ ان لوگوں پر جمعہ واجب
(فتاوی صدر الافاضل،ص:۴۴۷)
ان عبارات مذکورہ کی روشنی میں یہ بات صاف ہو گئی کہ سوال میں مذکور علاقہ میں جمعہ کی نماز جائز نہیں
بر تقدیر اول عند الأحناف اسکی یہ تو جیہات ہیں
صغیری مجتبائی ص ۲۷۷ میں ہے۔
لا تصح فی القریٰ عندنا۔
دیہات میں ہمارے نز دیک جمعہ صحیح نہیں ۔
کبیری مجیدی ص ۵۰۶ میں ہے
فلا تجوز فی القریٰ عندنا و ھو مذھب علی بن ابی طالب و حذیفۃ و عطاء و الحسن بن ابی الحسن و النخعی و مجاھد و ابن سیرین و الثوری و سحنون خلافا للائمۃ الثلثۃ لماروی ابن ابی شیبۃ عن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ أنہ قال لا جمعۃ و لا تشریق و لاصلوۃ فطر و لا اضحی الا فی مصر جامع أومدینۃ عظیمۃ۔
ہمارے نز دیک دیہات میں نماز جمعہ صحیح نہیں ، یہی مذہب علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ حذیفہ’ عطاء‘ حسن بن ابی الحسن ‘ نخعی، مجاہد، ابن سیرین، ثوری اور سحنون کاہے۔ اس میں تینوں اماموں کا اختلاف ہے، کیونکہ ابن شیبہ نے علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی انہوں نے کہا ’’جمعہ تشریق اور عیدین شہر میں ہی صحیح ہے۔
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
دیہات میں جمعہ ناجائز ہے اگر پڑھیں گے گنہگار ہوں گے اور ظہر ذمہ سے ساقط نہ ہوگا
(فتاوی رضویہ،ج:۸،ص:۲۷۳،باب الجمعۃ )
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
جمعہ کی صحت کے لئے مصر یا فنائے مصر شرط ہے گاؤں میں جمعہ جائز نہیں
(فتاوی امجدیہ،ج:۱،ص:۲۹۲،باب الجمعۃ)
فقیہ اسلام قاضی القضاۃ فی الھند تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خان ازھری قادری رضوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی تاج الشریعہ جلد ۴ میں متعدد جگہ تحریر فرماتے ہیں
گاؤں میں جمعہ و عید کی نماز صحیح نہیں
(فتاوی تاج الشریعہ جلد ۴)
لہذا مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ دیہات میں جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہے جب دیہات میں جمعہ کی نماز کا حکم نہیں ہے تو مذکورہ بالا علاقہ جو نہ مصر ہے نہ فنائے مصر اور ناہی دیہات بلکہ جو کہ جنگل میں شمار ہوتا ہے تو یہاں بدرجہ اتم جمعہ صحیح نہیں ہوگا
فتح القدیر میں ہے
لا یجوز اقامتھا فی البراری اجماعا
یعنی:جمعہ کا قیام جنگلوں میں بالاتفاق جائز نہیں۔
(فتح القدیر باب صلٰوۃ الجمعۃ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۲۳)
حضرت العلام مولانا مفتی محمد خلیل خان قادری مارہروی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ سے باغات پہاڑی مقامات وغیرہ پر نماز جمعہ کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے سوال ہوا تو آپ جوابا تحریر فرماتے ہیں:
اور جب دیہات میں نماز جمعہ کا حکم نہیں ہے تو مندرجہ بالا مقامات پر جمعہ ادا کرنا کسی طرح جائز نہیں نہ ان مقامات پر جمعہ پڑھنے سے جمعہ ادا ہوگا ان پر فرض ہے کہ نماز ظہر ادا کرے۔
(احسن الفتاوی المعروف فتاوی خلیلیہ،ج:۱،ص:۳۹۴،باب جمعہ و عیدین)
بر تقدیر ثانی یہ شعار اسلام کو پامال کرنے کے مترادف ہے
کیونکہ جمعہ چونکہ شعائر اسلام سے ہے اور مسلمانوں کے اجتماع عظیم سے ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے جو تفرق میں نہیں لہذا جہاں تک تعداد جمعہ میں کمی ہو مسلمانوں کا مجمع کثیر ہوگا اور اس سے اسلام کی شوکت زیادہ ظاہر ہوگی اور کفار پر اس کا رعب پڑے گا یہ حکم وہاں کےلئے جہاں متعدد جمعہ قائم کئے گئے ہیں جہاں پر جمعہ صحیح ہی نہ ہو وہاں پر بدرجہ اتم شعار اسلام کو پامال کرنے کے مترادف ہے
اور جو لوگ دیہات میں جمعہ قائم کر کے نماز پڑھتے ہیں وہ متعدد گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اولا یہ مکروہ تحریمی ثانیا ترک ظہر ثالثا ترک جماعت ظہر رابعا نفل بالتداعی مکروہ خامسا ایک نفل کو فرض ماننا حالانکہ وہ فرض نہیں سابعا جمعہ کے دن زوال کے بعد سفر کرنا
فی الدرالمختار تکرہ تحریما ای لانہ اشتغال بمالایصح لان المصر شرط الصحۃ
درمختار میں ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے اس لئے کہ یہ غیر صحیح کام میں مشغول ہوناہے کیونکہ شہر جمعہ کی صحت کے لئے شرط ہے ۔
(درمختار باب العیدین مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۱۴)
فی ردالمحتار عن العلامہ الحلبی محشی الدر فہو نفل مکروہ لادائہ بالجماعۃ
ردالمحتار میں محشی در علامہ حلبی سے ہے یہ نوافل مکروہ ہیں کیونکہ جماعت کے ساتھ ادا ہوئے ۔
(ردالمحتار باب العیدین مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۶۱۱)
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
اقول فالجمعۃ اولی لانہ فیھا مع ذلک اما ترک الظھر وھوفرض اوترک جماعتہ وھی واجبۃ ثم الصلوۃ فرادی مع الاجتماع، وعدم المانع شنیعۃ اخری غیر ترک الجماعۃ فان من صلی فی بیتہ منعز لاعن الجماعۃ فقدترک الجماعۃ وان صلوافرادی حاضرین فی المسجد فی وقت واحد فقد ترکوا الجماعۃ واتوا بھذہ الشنیعہ زیادۃ علیہ فیؤدی الٰی ثلث مخطورات بل اربع بل خمس لان مایصلونہ لما لم یکن مفترضا علیھم کان نفلاً واداء النفل بالجماعۃ والتداعی مکروہ ثم ھم یعتقد ونھا فریضۃ علیھم و لیس کذلک فھذہ خامسۃ وھذان مشترکان بین الجمعۃ والعیدین۔
اقول جمعہ بطریق اولی مکروہ تحریمی ہوگا کیونکہ اس جمعہ کی صورت میں ترک ظہر ہوگا جو فرض ہے یا ترک جماعت ہوگا حالانکہ وہ واجب ہے، باوجود اجتماع اور عدم مانع کے تنہا نماز ادا رکرنا ترک جماعت سے الگ خرابی ہے کیونکہ جو جماعت سے الگ گھر میں نماز ادا کرے گا اس نے جماعت ترک کردی اور ایک وقت میں مسجد میں حاضر لوگ تنہا نماز ادا کرتے ہیں تو انھوں نے جماعت ترک کردی اور انھوں نے ایسا عمل کیا جو اس خرابی پر اضافہ ہے پس اب تین بلکہ چار، نہیں بلکہ پانچ ممنوعات لازم آجاتے ہیں کیو نکہ جو نماز انھوں نے ادا کی وہ ان پر فرض نہ تھی بلکہ وہ ان پر نفل تھی اور نفل کو جماعت اور تداعی کے ساتھ اداکرنا مکروہ ہے پھر ان کا اسے اپنے فرض ماننا حالانکہ وہ فرض نہیں یہ پانچویں خرابی ہے اوریہ دونوں چیزیں جمعہ اور عیدین کے درمیان مشترک ہیں۔
(فتاوی رضویہ،ج:۸،ص:۲۷۳،باب الجمعۃ )
اور وہ لوگ جو شہر کی مساجد کو چھوڑ کر اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں وہ بھی متعدد گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اولا ترک جمعہ ثانیا ترک جماعت جمعہ ثالثا نفل بالتداعی مکروہ رابعا ایک نفل کو فرض ماننا حالانکہ وہ فرض نہیں خامسا جہاں جمعہ فرض نہیں وہاں جمعہ پڑھنے کے لیے جانا سادسا قریب کی مسجد کو چھوڑ کر دور کی مسجد میں جانا
جمعہ کی نماز فرض ہے اور بلاعذر جمعہ کی نماز ترک کرنے والا سخت گناہ گار ہے، احادیثِ مبارکہ میں جمعہ کی نماز چھوڑنے والوں سے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
مَنْ تَرَکَ الْجُمْعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اﷲُ عَلَی قَلْبِهِ.
’’جو کاہلی کے باعث تین جمعہ ترک کر دے اﷲ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الجمعة، باب ماجاء فی ترک الجمعة من غير عذر، ۱: ۵۲۰، رقم : ۵۰۰)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت
عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔
( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص۴۳۰، الحدیث: ۴۰(۸۶۵))
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
بلاشبہ بلاعذر ترک جمعہ اورترک جماعت کی عادت موجب فسق ومسقط عدالت و وجہ ردشہادت ہے
(فتاوی رضویہ،ج:۱۱،ص:۸۷)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
اگر وہ ایسی جگہ ہے جہاں جمعہ فرض ہوتا ہے اور بعد زوال وہاں سے ایسی جگہ چلا گیا جہاں جمعہ فرض نہیں تو گنہگار ہے
(فتاوی امجدیہ،ج:۱،ص:۲۹۴،باب الجمعۃ)
فتاوی فیض الرسول میں ہے”قریب کی مسجد کی جماعت کو چھوڑ کر دور کی مسجد میں جانے والا اگر اس مسجد کا امام یا مؤذن یا مقیم جماعت ہو یعنی اس کے نہ جانے کے سبب جماعت میں خلل کا اندیشہ ہو یا کوئی اور وجہ شرعی ضروری ہو تو دور کی مسجد میں جانا ضروری ہے‘ اور اگر کوئی وجہ شرعی نہ ہو تو قریب کی مسجد کو چھوڑ کر دور کی مسجد میں جانا بہتر نہیں۔ “(فتاوی فیض الرسول، ج1، باب الجماعۃ ، ص347 ، شبیر برادرز لاہور)
شرعی اعتبار سے جمعہ کے دن سفر کرنا اس وقت مکروہ جب کہ سفر زوال کے بعد ہو ورنہ نہیں، البتہ اگر جمعہ کے دن سفر کا ارادہ ہو تو اس بات کااہتمام کیاجائے کہ زوال یعنی ظہر کا وقت شروع ہو نے سے پہلے شہر کی آبادی سے نکل جائے اور اگرشہرکی آبادی میں ہی زوال کا وقت شروع ہوجائےتو پھر جمعہ پڑھ کر سفر شروع کرے ۔
درمختارمیں ہے: ”قال في شرح المنية: و الصحيح أنه يكره السفر بعد الزوال قبل أن يصليها، ولايكره قبل الزوال“ترجمہ :شرح منیہ میں کہا :اور صحیح یہ ہے کہ جمعے والے دن زوال کے بعدنماز جمعہ سے پہلے سفر کرنا مکروہ ہے ،اور زوال سے پہلے مکروہ نہیں ۔
(درمختار ،جلد:۲،صفحہ:۱۶۲،مطبوعہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے” جمعہ کے دن اگر سفر کیا اور زوال سے پہلے آبادی شہر سے باہر ہوگیا تو حرج نہیں ورنہ ممنوع ہے۔ “
(بہار شریعت،جلد:۱،صفحہ۷۷۶،مطبوعہ کراچی )
جہاں جمعہ فرض نہیں اگر وہ علاقہ شہر کے قریب ہو اور اذان جمعہ سنائی دیتی ہو تو اس کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ جو لوگ شہر سے اتنا قریب رہتے ہیں کہ اس شہر کے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے تو اکثر ائمہ کے نزدیک ان پر جمعہ فرض ہے کہ جاکر وہاں ادا کریں اور بعض ائمہ کے نزدیک یہ ہے کہ اگر شہر سے دور رہتا ہو لیکن بلا تکلیف آ جا سکتا ہے تو اس پر جمعہ فرض ہے۔
جیسا کہ در مختار مع رد المحتار میں ہے کہ ” و اما المنفصل عنه فان كان يسمع النداء تحب عليه عند محمد و به يفتى كذا فى الملتقى و قدمنا عن الولوالجية تقديره بفرسخ و رجح فى البحر اعتبار عوده لبيته بلا كلفة ” اھ اور رد المحتار میں ہے کہ ” قوله : ( قدمنا الخ ) فيه ان ما مر عن الولوالجية فى حد الفناء الذى تصح اقامة الجمعة فيه ؛ و الكلام هنا فى حد المكان الذى من كان فيه يلزمه الحضور الى المصر ليصلها فيه ؛ نعم فى التاتر الخانية عن الذخيرة ان من بينه و بين المصر فرسخ يلزمه حضور الجمعة و هو المختار للفتوى ” اھ
( در مختار مع رد المحتار ج:۳،ص:۳۰،کتاب الصلاۃ ، مطلب : فى شروط وجوب الجمعة ، دار المعرفۃ بیروت )
اور بہار شریعت میں ہے کہ ” جو جگہ شہر سے قریب ہے مگر شہر کی ضرورتوں کے لیے نہ ہو اور اس کے اور شہر کے درمیان کھیت وغیرہ فاصل ہو تو وہاں جمعہ جائز نہیں اگرچہ اذان جمعہ کی آواز وہاں تک پہنچتی ہو ۔ مگر اکثر آئمہ کہتے ہیں کہ اگر اذان کی آواز پہنچتی ہو تو ان لوگوں پر جمعہ پڑھنا فرض ہے بلکہ بعض نے تو یہ فرمایا کہ اگر شہر سے دور جگہ ہو مگر بلا تکلیف واپس باہر جاسکتا ہو تو جمعہ پڑھنا فرض ہے ۔ لہٰذا جو لوگ شہر کے قریب گاؤں میں رہتے ہیں انھیں چاہیے کہ شہر میں آکر جمعہ پڑھ جائیں ۔ گاؤں کا رہنے والے شہر میں آیا اور جمعہ کے دن یہیں رہنے کا ارادہ ہے تو جمعہ فرض ہے اور اسی دن واپسی کا ارادہ ہو ، زوال سے پہلے یا بعد تو فرض نہیں ، مگرپڑھے تو مستحقِ ثواب ہے ” اھ
( بہار شریعت ج:۱،ص:۷۶۳،جمعہ کا بیان )
لیکن صورت مذکورہ میں معاملہ برعکس ہے
اگر واقعی میں ان افراد کے جانے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مساجد خالی ہوجاتی ہیں تو علاقہ کے مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے والوں سے یہی کہا جائےگا کہ وہاں نماز پڑھنے کے بجائے شہر کی مساجد کو آباد کریں کہ اس میں فرض کا ثواب ہے اور وہاں پڑھنے میں گناہ ہے اور آباد مسجد کو ویران کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے ۔فتاوی رضویہ میں ہے حتی الامکان مسجد کا آباد کرنا فرض ہے اور ویران کرنا حرام ہے ۔فتاوی رضویہ ج ۳ ص ۴۳۴
اور اگر واقعی میں علاقہ کی نئئ مسجد میں جمعہ قائم کرنے کا کے یہی مقصود ہے کہ شہر کی اکثر و بیشتر مساجد جمعہ کے دن ویران ہو جائے اور اس کو ضرر پہنچ جائے تو حکما مسجد ضرار ہے اور مسجد ضرا مسجد نہیں ہوتی۔
حضرت العلام مولانا مفتی محمد خلیل خان قادری مارہروی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں:لہذا مسجد اللہ کےلئے بنانی چاہئے اور جب بنانے والے کی نیت کا حال معلوم ہوجائے تو وہ حکما مسجد ضرار کہلائے گی ورنہ مسجد ضرار کا حکم نہ دیں گے “﴿احسن الفتاوی المعروف فتاوی خلیلیہ ج ۲ص ۵۶۷ باب احکام المسجد و آداب المسجد﴾
اور مسجد کی ویرانی کے جو لوگ باعث و ذمہ دار ہوں یا ان کے کسی فعل سے مسجد ویران ہوجائے تو قرآن مجید کے الفاظ میں وہ ظالموں میں شامل ہیں اور ان کے لئے دنیا و آخرت میں عذاب عظیم کی وعید۔قال اللہ تعال
ی فی القرآن المجید
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا یعنی اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگاجو اللہ کی مسجدوں کو اس بات سے روکے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔
پ ۱ سورہ بقرہ آیت مبارکہ ۱۱۴
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند