بلا وجہ شرعی امامت سے الگ کرنا گناہ ہے

بلا وجہ شرعی امامت سے الگ کرنا گناہ ہے

مسئلہ: از شریف الدین مدرس مدرسہ نعیم العلوم تولہوا۔ نیپال
جامع مسجد میں ایک امام کو امامت کرتے ہوئے اکیس سال گزر گئے۔ بائیسویں سال میں کچھ لوگ ایک پارٹی بنا کر علیحدہ ہو گئے‘ اور نماز الگ پڑھنے لگے۔ اختلاف کی بناء پر سابق امام کو ہٹانے کی آواز بلند کی۔ لوگوں نے سوال کیا کہ امام کو کس وجہ سے ہٹا دیں۔ مخالف نے جواب دیا کہ امام کو نکال کر دوسرے امام کو معین کرو‘ تو ہم نماز پڑھنے مسجد میں آئیں گے نہیں تو نہیں آئیں گے بات حکام تک پہنچی۔ موقع کے حاکم نے مخالف سے سوال کیا۔ وہاں بھی کوئی معقول جواب نہ دیا۔ حکام نے سابق امام کے بارے میں فیصلہ دے دیا۔ حکام کی بھی بات نہ مان کر پھر حاکموں سے مخالف نے کہا کہ آپ لوگ میرے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لہٰذا دونوں پارٹیوں کے طرف سے دو دو عالموں کو بلوایئے اور وہ چار عالم مل کر جو فیصلہ دے دیں دونوں فریق مان لیں۔ بات طے ہو گئی وقت مقررہ پر چار عالم تشریف لائے جن میں امام کی طرف سے دو سنی عالم اور مخالف کی طرف سے دو غیرمقلد تھے۔ پہلی نشست میں علماء نے امام کو بلایا امام حاضر ہوا اور ایک شخص مخالف پارٹی سے بلایا اور سوال کیا کہ امام کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو کوئی بہتان ہو یا کوئی اور خرابی ہو جس کی وجہ سے نہیں پڑھتے ہو تو بتاؤ‘ تو مخالف نے جواب دیا کہ امام پر کوئی بہتان نہیں کوئی جرم نہیں‘ تو عالم نے سوال کیا کہ نماز الگ پڑھنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام میں کوئی نقص ہے اس پر مخالف نے جواب دیا کہ نہیں نہیں صاحب‘ امام میں کوئی نقص نہیں ہے۔ میری استدعا ہے کہ چونکہ یہ مقام ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس مسجد میں ایک امام ایسا ہو جو مفتی ہو قاری ہو اس کو رکھا جائے عالم نے سوال کیا کہ امام کو کس وجہ سے ہٹائیں۔ پہلے روز کی یہ نشست برخاست ہو گئی اور بات طے نہ ہو پائی۔ دوسرے روز پہلی نشست میں گفتگو جاری ہوئی امام میں کوئی خرابی نہ پا کر دو عالموں نے فتویٰ دیا کہ امام میں شرعی نقص نہیں ہے اس وجہ سے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ مخالف پارٹی کے دو عالموں نے جواب دیا کہ آپ اپنا فیصلہ حاکم کو دے دیجئے اور میں اپنا فیصلہ حاکم کو دے دوں گا۔ بات حاکم تک پہنچی حاکم موقع پر پھر چاروں عالم کو ایک جگہ جمع کر کے کہا کہ آپ لوگوں کو فیصلہ دینا ہے۔ شرع کے رو سے فیصلہ دیجئے۔ مخالف سے جب کوئی بات نہ بن پڑی تو امام پر زنا کا غلط بہتان لگایا اور بہتان لگانے والے ہی کو گواہی میں طلب کیا اور اس کی گواہی پر فتویٰ دے دیا نہ گواہ کو دیکھا کہ کیسا ہے‘ اور نہ امام سے پوچھا اور نہ امام کی طرف سے کوئی گواہی لی۔ فتویٰ یہ دیا کہ امام میں کچھ خامیاں ہیں اس وجہ سے امامت کے لائق نہیں ہے‘ اور چاروں عالموں نے دستخط کر دیئے پھر بات حاکم تک پہنچی تو زنا ثابت نہ کر سکے حاکم کا فیصلہ پھر امام سابق کے حق میں رہا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ سابق امام کی امامت درست ہے کہ نہیں؟ اور ایسا کیوں؟ اور بہتان لگانے والے پر ازروئے شرع کیا احکام نافذ ہوتے ہیں اور کیوں؟
نوٹ: جبکہ اسی فیصد عوام سابق امام کو چاہتی ہے‘ اور ابھی سابق امام ہی امامت کرتا ہے۔

الجواب: امام سابق اگر صحیح العقیدہ صحیح الطہارۃ اور صحیح القرأت ہے اس میں کوئی وجہ شرعی مانع امامت نہیں ہے تو اس کی امامت درست ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے اسے بلاوجہ شرعی امامت سے الگ کرنا گناہ ہے یہاں تک کہ حکم شرع کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد سوم ۲۴۱ پر ردالمحتار سے ہے: لیس للقاضی عزل صاحب وظیفۃ بغیر حجۃ‘ اور زنا کے بارے میں ایک آدمی کی گواہی مان کر فتویٰ دینے والے جاہل گنوار ہیں اس لئے کہ ثبوت زنا کے لئے چار عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے‘ اور زنا کا جھوٹا الزام لگانے والا اسی درے مارے جانے کا مستحق ہے جیسا کہ پارہ ۱۸؍ سورۂ نور رکوع اوّل میں ہے:
: وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃَ،ً وھو تعالٰی اعلم

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۸؍ محرم الحرام ۱۴۰۲ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۷۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top