تثویب جو اذان و اقامت کے درمیان کہی جاتی ہے جس میں الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ وغیرہ کلمات مخصوصہ پڑھے جاتے ہیں اس کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
خاص کر مذکورہ کلمات کا ہی پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟
جو حضرت علی سے تثویب کی مخالفت مروی ہے اس کا مطلب کیا ہے؟
مسئلہ: از عبدالرحمن قادری موضع پڑولی پوسٹ جھنگٹی (ٹھوٹھی باری) ضلع گورکھپور۔
تثویب جو اذان و اقامت کے درمیان کہی جاتی ہے جس میں الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ وغیرہ کلمات مخصوصہ پڑھے جاتے ہیں اس کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ اور خاص کر مذکورہ کلمات کا ہی پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟ اور حدیث شریف:
ان علیار ای مؤذنا یثوب فی العشاء فقال اخرجوا ھٰذا المبتدع من المسجد وروی مجاھد قال دخلت مع ابن عمر مسجداً فصلی فیہ الظھر فسمع مؤذنا یثوب فغضب وقال قم حتی نخرج من عند ھٰذا المبتدع کا کیا مطلب ہے؟
الجواب: بعون الملک الوھاب۔ تثویب کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تثویب قدیم دوسرے تثویب جدید۔ تثویب قدیم الصلاۃ خیر من النوم ہے جو اذان کی مشروعیت کے بعد فجر کی اذان میں بڑھائی گئی جیسا کہ بحر الرائق جلد اوّل ص ۲۶۰ میں ہے:
وھونوعان قدیم و حارث فالاول الصلوۃ خیر من النوم والثانی احدثہ علماء الکوفۃ بین الاذان والاقامۃ‘ اور جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ان بلالااذن لصلاۃ الفجر ثم جاء الی باب حجرۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا فقال الصلاۃ یارسول اللّٰہ، فقالت عائشۃ رضی اللہ عنہا الرسول نائم فقال بلال الصلاۃ خیر من النوم، فلما انتبہ اخبرتہ عائشۃ فاستحسنہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال اجعلہ فی اذانک (عنایہ مع فتح القدیر جلد اوّل ص ۲۱۲)
اور جب لوگوں کے اندر امور دینیہ میں سستی پیدا ہوئی تو اذان و اقامت کے درمیان تثویب جدید کا اضافہ کیا گیا۔
تثویب قدیم سنت ہے‘ اور فجر کی اذان کے ساتھ خاص ہے دوسری اذان کے ساتھ بڑھانا مکروہ و ممنوع ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
عن بلال رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاتثوبن فی شیء من الصلوات الافی صلاۃ الفجر۔
یعنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ فجر کے علاوہ کسی دوسری نماز میں تثویب ہرگز مت کہو۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۶۳) اور تثویب قدیم کو دوسرے وقت کی اذان میں اضافہ کرنے سے حضرت علی و حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم نے انکار فرمایا جیسا کہ امام المحدثین حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
عن ابن عمر انہ سمع مؤذنا یثوب فی غیر الفجر وھو فی المسجد فقال لصاحبہ قم حتی نخرج من عند ھٰذا المبتدع وعن علی رضی اللہ عنہ انکارہ بقولہ اخرجوا ھٰذا المبتدع من المسجد واماالتثویب بین الاذان والاقامۃ فلم یکن علی عھدہ علیہ السلام واستحسن والمتاخرون التثویب فی الصلوات کلھا۔
یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے ایک مؤذن سے سنا کہ وہ فجر کی اذان کے علاوہ دوسری اذان میں تثویب کہتا ہے تو آپ نے اپنے ساتھی سے فرمایا اٹھو اس مبتدع کے پاس سے نکل چلیں۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غیر فجر میں تثویب سے انکار ان کے اس قول سے مروی ہے کہ اس مبتدع کو مسجد سے نکال دو۔ رہی اذان و اقامت کے درمیان کی تثویب تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں نہیں تھی مگر اس تثویب کو متاخرین نے سب نمازوں کے لئے مستحسن قرار دیا ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد اوّل ص ۴۱۸)
معلوم ہوا کہ حضرت علی و ابن عمر رضی اللہ عنہم کا انکار تثویب جدید کے لئے نہیں ہے بلکہ ان کا انکار غیر فجر میں تثویب قدیم سے ہے‘ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’آوردہ اند کہ ابن عمر بمسجدے درآمد و مؤذن راشنید درجز نماز فجر تثویب کرد پس از مسجد برآمد و گفت بیروں رویداز پیش ایں مرد کہ مبتدع ست (اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۳۰۸) اس عبارت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز فجر کے علاوہ دوسری نماز کے لئے تثویب قدیم سے انکار ہے‘ اور اگر حضرت ابن عمر و حضرت علی رضی اللہ عنہما کا انکار تثویب جدید سے تسلیم بھی کر لیا جائے تواس کا جواب یہ ہے کہ اس تثویب کے بارے میں ائمہ اسلام و فقہائے عظام کے تین اقوال ہیں۔ اوّل یہ کہ تثویب جدید نماز فجر کے علاوہ تمام نمازوں کے لئے مکروہ ہے فجر کا وقت چونکہ نوم و غفلت کا وقت ہے اس لئے اس میں صرف اس کی اذان کے بعد یہ تثویب جائز ہے‘ اور دوسرا قول یہ ہے کہ قاضی اور مفتی وغیرہ جو مصالح مسلمین کے ساتھ مشغول ہوں صرف ان کے لئے سب نمازوں کے وقت تثویب جائز ہے۔ یہ قول حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کا ہے‘ اور اسی کو امام فقیہ النفس حضرت قاضی خاں نے بھی اختیار فرمایا ہے‘ اور تیسرا قول یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت سب مسلمانوں کے لئے تثویب جائز و مستحسن ہے متاخرین نے امور دینیہ میں لوگوں کی غفلت اور سستی کے سبب اسی قول کو اختیار فرمایا جس پر اہلسنّت وجماعت کا عمل ہے جیسے کہ اذان و امامت وغیرہ پر اجرت لینا علمائے متقدمین کے نزدیک ناجائز ہے مگر متاخرین علماء نے امور دینیہ میں لوگوں کی سستی دیکھ کر اسے جائز قرار دے دیا جس پر آج ساری دنیا کا عمل ہے درمختار مع شامی جلد پنجم ص ۳۴ میں ہے:
لاتصح الاجارۃ لاجل الطاعات مثل الاذان والحج والامامۃ وتعلیم القران والفقہ ویفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القران والفقہ والامامۃ والاذان ا ھ۔
ور عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ جلد اوّل مجتبائی ص ۱۵۴ میں ہے:
اختلف الفقھاء فی حکم ھٰذا التثویب علی ثلثۃ اقوال۔ الاول انہ یکرہ فی جمیع الصلوات الاالفجر لکونہ وقت نوم وغفلۃ ویشھد لہ حدیث ابی بکرۃ خرجت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لصلاۃ الصبح فکان لایمربرجل الاناواہ بالصلاۃ اوحرکہ برجلہ۔ اخرجہ ابوداؤد فانہ یدل علی اختصاص الفجر بتثویب فی الجملۃ۔ والثانی ماقالہ ابویوسف واختارہ قاضی خاں انہ یجوز التثویب للامراء وکل من کان مشغولا بمصالح المسلمین کالقاضی والمفتی فی جمیع الصلوات لالغیرھم ویشھد لہ ماثبت بروایات عدیدۃ ان بلالاکان یحضرباب الحجرۃ النبویۃ بعد الاذان ویقول الصلاۃ الصلاۃ۔ والثالث مااختارہ المتاخرون ان التثویب مستحسن فی جمیع الصلوات لجمیع الناس لظھور التکاسل فی امور الدین لاسیما فی الصلاۃ ویستثنیٰ منہ المغرب بناء علی انہ لیس یفصل فیہ کثیرا بین الاذان والاقامۃ صرح بہ العنایۃ والدرر والنھایۃ وغیرھا۔
متون مثلاً تنویر الابصار، وقایہ، نقایہ، کنزالدقائق، غرر الاحکام، غرر الاذکار، وافی، ملتقی، اصلاح، نور الایضاح‘ اور شرح مثلاً درمختار، طحطاوی، عنایہ، نہایہ، غنیہ شرح منیہ، صغیری، بحر الرائق، نہر الفائق، تبیین الحقائق، برجندی، قہستانی، درر، ابن ملک، کافی، مجتبیٰ، ایضاح، امداد الفتاح، مراقی الفلاح طحطاوی علی مراقی‘ اور فتاویٰ مثلاً ظہیریہ، خلاصہ، خزاۃ المفتیین، جواہر اخلاطی اور فتاویٰ عالمگیری وغیرہا کتب معتبرہ میں اذان و اقامت کے درمیان تثویب کو جائز و مستحسن لکھا ہے درمختار مع شامی جلد اوّل مطبوعہ دیوبند ص ۲۶۱ میں ہے:
یثوب بین الاذان والاقامۃ فی الکل للکل بماتعارفوہ اسی کے تحت ردالمحتار میں ہے: التثویب العودالی الاعام بعد الاعلام درر۔ قولہ فی الکل ای کل الصلوات لظھور التوانی فی الامور الدینیۃ۔ قال فی العنایۃ احدث المتاخرون التثویب بین الاذان والاقامۃ علی حسب ماتعارفوہ فی جمیع الصلوات سوی المغرب مع ابقاء الاول یعنی الاصل وھو تثویب الفجر ومارآہ المسلمون حسنا فھو عنداللّٰہ حسن اھ۔ قولہ بماتعارفوہ کتنحنح او قامت قامت اوالصلاۃ الصلاۃ ولواحد ثوا اعلاما مخالفا لذٰلک جازنھر عن المجتبیٰ ا ھ ملتقطًا۔
اور فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۵۳ میں ہے:
التثویب حسن عند المتاخرین فی کل صلاۃ الافی المغرب ھٰکذا فی شرح النفایہ للشیخ ابی المکارم وھورجوع المؤذن الی الاعلام بالصلاۃ بین الاذان والاقامۃ وتثویب کل بلد ماتعارفوہ اما بالتنحنح اوبالصلاۃ الصلاۃ واقامت اقامت لانہ للمبالغۃ فی الاعلام وانما یحصل ذٰلک بما تعارفوہ کذا فی الکافی۔
ان عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ مسلمان امور دین میں سست ہو گئے ہیں اس وجہ سے متاخرین نے اذان و اقامت کے درمیان تثویب کو مقرر کیا اور تثویب مغرب کے علاوہ ہر نماز کے لئے جائز ہے‘ اور مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے‘ اور تثویب کے لئے کوئی الفاظ خاص نہیں ہیں لوگ جو الفاظ بھی مقرر کر لیں جائز ہے۔ آج کل تثویب میں الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ وغیرہ کلمات مخصوصہ عموماً کہے جاتے ہیں اس لئے کہ ان سے اعلام کے ساتھ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اظہار بھی ہوتا ہے‘ اور اسی لئے جو لوگ حضور کی عظمت کے مخالف ہیں وہ تثویب کی مخالفت کرتے ہیں‘ ورنہ تثویب کا جائز و مستحسن ہونا جبکہ تمام کتب متدوالہ میں مذکور ہے اس کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں‘ اور تثویب میں الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پڑھنا ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ھ میں جاری ہوا جو بہترین ایجاد ہے جیسا کہ درمختار مع شامی جلد اوّل مطبوعہ دیوبند ص ۲۶۱ میں ہے:
التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الاخرسنۃ سبع مائۃ واحدی وثما نین وھو بدعۃ حسنۃ ا ھ۔ ھٰذا ماعندی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۶؍ صفر المظفر ۱۴۰۲ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۳۳/۲۳۲/۲۳۱/۲۳۰/۲۲۹)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند