توبہ کی دعوت میں شریک ہونے والے کی امامت کیسے؟
مسئلہ: از محمد لطیف اسٹینڈرڈ واچ سروس نیرپوسٹ مہند اوّل ضلع بستی۔
ہمارے یہاں ایک لڑکی ھندہ کو ناجائز حمل رہا جب قریب چھ (۶) ماہ کے حمل ہو گیا تو گاؤں کے مسلمانوں نے لڑکی کو طلب کر کے بیان لیا۔ لڑکی ہندہ نے بتایا کہ یہ حمل زید کا ہے اس پر گاؤں والوں نے زید کا بائیکاٹ کر دیا لیکن گاؤں کے کچھ مسلمان حامد و محمود وغیرہ زید کے ساتھ کھاتے پیتے اور سلام کلام شادی وغیرہ میں شرکت کرتے رہے۔ ھندہ نے دو اکے ذریعہ حمل کا اسقاط بھی کرا دیا اس کے بعد ھندہ نے کہیں سے استفتاء لیا اور توبہ کی۔ نیز میلاد کا پروگرام رکھا جس میں حامد و محمود وغیرہ کو بھی دعوت دی اور مکتب کے ماسٹر صاحب اور مسجد کے امام صاحب کو بھی دعوت دی اور ان لوگوں نے دعوت میںشرکت بھی کی لیکن جو مسلمان پہلے بائیکاٹ کئے ہوئے تھے نہ تو انہیں شریک کیا گیا اور نہ ان کے سامنے توبہ کی گئی‘ اور انہیں بائیکاٹ کرنے والے مسلمانوں نے اب امام صاحب کو بھی امامت سے الگ کر دیا یہ کہہ کر کہ آپ نے جو لوگ پہلے سے غلط کام میں ساتھ دے رہے تھے ان کا ساتھ دیا ہے۔ اس وجہ سے آپ امامت کے لائق نہیں رہے کیونکہ ابھی ان لوگوں نے توبہ نہیں کی جنہوں نے شرع کے خلاف والوں کا ساتھ دیا تھا‘ اس لئے حضور والا سے گزارش ہے کہ ہم مسلمانوں کو شریعت کے حکم سے آگاہ کریں کہ امام صاحب کے پیچھے نماز ہم لوگ پڑھیں یا نہ پڑھیں اور اگر پڑھیں تو امام صاحب پر کیا حکم ہے؟ جیسا ہو ہم مسلمانوں کو شریعت کے حکم سے آگاہ فرمائیں۔
الجواب: جو گناہ لوگوں پر ظاہر ہو جائے اس کی توبہ علانیہ ہونا ضروری ہے جن لوگوں نے بائیکاٹ کیا ان کے سامنے ضروری نہیں۔ لہٰذا جب کہ مجرم نے توبہ کر لی اگرچہ بائیکاٹ کرنے والوں کے سامنے نہ کی مگر اس کا مقصد حاصل ہے۔ اسی طرح توبہ کرنے کے لئے بائیکاٹ کرنے والوں کی دعوت دینی بھی ضروری نہیں البتہ بہتر یہی تھا کہ مجلس توبہ میں بائیکاٹ کرنے والوں کو بھی شریک کیا جاتا‘ اور جو مسلمان زید کے ساتھ کھاتے پیتے رہے وہ گنہگار ہوئے ان پر بھی لازم تھا کہ وہ زید کا بائیکاٹ کرتے۔ پارہ ص ۷ ع ۱۴ میں ہے:
وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَیْطٰنُ فَـلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo۔
اس آیت کریمہ کے تحت رئیس الفقہاء حضرت ملا جیون رحمتہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
ان القوم الظلمین یعم المبتدع والفاسق والکافر والعقود مع کلھم متنع۔ (تفسیر احمدیہ ص ۲۵۵)
لہٰذا وہ سب بھی علانیہ توبہ و استغفار کریں‘ اور مکتب کے ماسٹرو مسجد کے امام کو چاہئے تھا کہ وہ اس قسم کی دعوت میں شرکت نہ کرتے اور جب حامد محمود وغیرہ کو دعوت دی گئی تو اس صورت میں بدرجہ اولیٰ انہیں احترام کرنا چاہئے تھا لیکن اگر امام نے اس قسم کی دعوت میں شرکت کر لی تو وہ اس درجہ گنہگار نہیں ہوئے کہ ان کے پیچھے نماز جائز نہ ہو اس کے باوجود امام کو چاہئے کہ وہ رفع فتنہ کے لئے توبہ کر لیں فتاویٰ عالمگیری میں ملتا ہے کہ اگر ایک دسترخوان پر کافر و مشرک کے ساتھ کسی مسلمان نے ایک دو بار کھانا کھا لیا تو حرج نہیں۔ اس کے اصل الفاظ یہ ہیں:
لم یذکر محمد الاکل مع المجوس ومع غیرہ من اھل الشرک انہ ھل یحل الاوحکی عن الحاکم الامام عبدالرحمن الکاتب انہ ان ابتلی بہ المسلم مرۃ اومرتین فلاباس بہ واما الدوام علیہ فیکرہ کذا فی المحیط انتھٰی۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲۱؍ جمادی الاولی ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۶۳)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند