جائداد میں سے بیٹیوں کو محروم کرنا عند الشرع کیسا ہے اگر جائداد تقسیم کرنا ہو تو کس طرح ہوگی؟ JAIDAAD MEN SE BETIYON KO MAHROOM KARNA KAISA HAI? जाइदाद में से बेटियों को महरूम करना कैसा है?

جائداد میں سے بیٹیوں کو محروم کرنا عند الشرع کیسا ہے
اگر جائداد تقسیم کرنا ہو تو کس طرح ہوگی؟
JAIDAAD MEN SE BETIYON KO MAHROOM KARNA KAISA HAI?
जाइदाद में से बेटियों को महरूम करना कैसा है?
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
_****************************************_

حضرت مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ
میرے ابو کا تو انتقال ہوگیا ہے اور گھر میرے ابو کا تھا مگر ابو کے انتقال کے بعد اممی جان کے نام پر گھر ہو گیا ہم کل 5 بہنیں اور 3 بھاٸی ہیں اب امی جان جو مالک ہیں جائداد کی وہ بیٹیوں کو بے دخل کر کے صرف 3 بیٹوں میں جائداد تقسیم رہی ہیں
حاصل کلام یہ ہے کہ
جائداد میں سے بیٹیوں کو محروم کرنا عند الشرع کیسا ہے
اگر جائداد تقسیم کرنا ہو تو کس طرح ہوگی
قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
سائل: فاطمہ خان اندھیری ممبٸی
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
والد کی جائداد متروکہ میں بیٹیوں کا شرعا حق ہے اور کسی مسلمان کے لیے شرعی، عقلی اور معاشرتی طور پر ضروری ہےکہ وہ جائداد میں برابر تقسیم کریں اور یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد میں سے ایک کو حصہ دے اور دوسروں کو محروم کردے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین پر واجب کیا ہے کہ وہ اولاد میں سب کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیں اور جب تقسیم کریں تو اپنی ساری اولاد میں انصاف کرتے ہوئے سب کو برابر دیں ورنہ قیامت کے دن وہ خدا کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ جو برابر تقسیم نہیں کرتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّاO وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا یعنی اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو اور مال کی نہایت محبت رکھتے ہو
(پ30 سورۃالْفَجْر89: آیت 19-20)
حدیث شریف میں ہے
ان اللہ تعالی قد اعطی کل ذی حق حقه… یعنی اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق عطا فرمادیا اھ
(مشکوۃ شریف ص 265)
اور رد المحتار كتاب الفرائض میں ہے “ای الذین ثبت ارثهم بالكتاب اي القرآن وهم الابوان والزوجان والبنون والبنات اھ
(رد المحتار كتاب الفرائض ج 5 ص 537)
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” میراث حکم شرع ہے کہ رب العالمین تبارک و تعالی نے مقرر فرایا کسی ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا قال علمائنا في الاشباه وغيرها الارث جبری لا يسقط بالاسقاط اھ
(فتاوی رضویہ ج 10 ص 365)
حدیث مبارکہ میں ہے
سیدنا نعمان بشیر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد ماجد انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام دے دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا:
أَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: فَارْجِعْهُ.
کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی (غلام) دیا ہے؟ عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اس سے بھی واپس لے لو۔
(بخاري، الصحيح ج 2 ص 913، رقم الحدیث 2446، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
(مسلم، الصحيح، ج 3 ص 1241، رقم الحدیث 1623بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)
دوسری روایت میں ہے:
عَنْ عَامِرٍ رضی الله عنه قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رضی الله عنهم وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ يَقُولُ أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَةً فَقَالَتْ عَمْرَهُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَی حَتَّی تُشْهِدَ رَسُولَ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم فَأَتَی رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَکَ يَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اﷲَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِکُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَتَهُ. یعنی حضرت عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے سنا کہ وہ منبر پر فرماتے تھے کہ میرے والد ماجد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ نہ بنائو۔ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما سے ہے ایک عطیہ دیا ہے۔ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ کو گواہ بنائو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض گزار ہوئے کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر وہ واپس لوٹ آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔
(بخاري، الصحیح ج 2 ص 914، رقم الحدیث 2447)
(ابن أبي شيبة، المصنف ج 6 ص 233، رقم الحدیث 30989، الرياض: مکتبة الرشد)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حاجب بن مفضل بن مہلب رضی اللہ عنہ کے والد ماجد نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ.
اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔سنن ابو داود میں الفاظ یہ ہیں:
اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِکُمْ اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ.
اپنی اولاد میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔
(أحمد بن حنبل، المسند ج 4 ص 278، رقم الحدیث 18475، مصر: مؤسسة قرطبة)
(أبي داود، السنن ج 3 ص 293، رقم الحدیث 3544، دار الفکر)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ مال تقسیم کرتے ہوئے اولاد کے درمیان انصاف اور مساوات کو اپنائیں۔ لہذا والدہ پر ضروری ہےکہ وہ سب کے ساتھ انصاف کرے اور اللہ تعالی کے قہر و غضب سے ڈریں کہ اس کی پکڑ بہت سخت ہے قرآن مجید میں ہے ان بطش ريك لشدید
(پ 30 سورہ بروج آیت نمبر 12)
اور حدیث شریف میں من ظلم من الارض شیئاطوقه من سبع ارضین یعنی جو شخص ظلما کسی کی تھوڑی سی بھی زمین لے لے اللہ تعالی اس کو ساتوں زمین کا طوق پہنائے گا
نیز حدیث مبارکہ میں ہے
من ظلم قید شبر من الارض طوقہ من سبع ارضین یعنی جو شخص ظلما کسی کی ایک بالشت بھی زمین پر قبضہ کرے اللہ تعالی اس کی گردن میں ساتوں زمین کے برابر طوق ڈالے گا
(بخاری شریف جلد 1 صفحہ 332)
اور بیوی کا شوہر کے انتقال کے بعد پوری جائداد پر قبضہ کرلینا جائز نہیں ہے کیونکہ شریعت مطہرہ میں میت کے انتقال کے بعد اس کی جائداد متروکہ میں اسکے ورثاء کا بھی حق ہے جو قرآن و احادیث سے ثابت ہے لہذا بیوی کا شوہر کے انتقال کے بعد پوری جائداد پر قبضہ درست نہیں ہے
لہذا بیوی اپنے شوہر اور بیٹے اپنے والد کے ساتھ نیکی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنی بہنوں کو ان کا حصہ بخوشی دیں، کیونکہ بیٹیاں شرعاً اور قانوناً اس جائیداد میں حصہ دار ہیں اور بذریعہ عدالت اپنا حصہ لینے کا حق رکھتی ہیں۔
اور رہی بات مذکورہ بالا جائداد کے تقسیم کے متعلق تو اس کے بارے میں شریعت مطہرہ میں یہ حکم ہے کہ
مذکورہ ورثاء کی موجودگی میں والد کے مرنے کے بعد اس کی منقولہ و غیر منقولہ ساری جائداد بعد تقدیم ما تقدم
على الارث یوں تقسیم ہوگی کل جائداد کے آٹھ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ اس کی بیوی کو ملے گا ۔ پھر مابقی سات حصے کے گیارہ حصے بنا کر دو دو حصے لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کو دیا جائے گا ۔ خدائے تعالی کا ارشاد ہے فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ
(پ 4 سورہ النساء آیت مبارکہ 12)
اور اسی میں ہے یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ
(پ 4 سورۃ النساء آیت مبارکہ 11)
اور فتاوی عالمگیری مع بزازیہ میں ہے “اما الثمن ففرض الزوجة أو الزوجات اذا كان للميت ولد او ولد ابن اھ”
(فتاوی عالمگیری مع بزازیہ ج 6 ص 450)
اور اسی کتاب اسی جلد ص 448 پر ہے ” اذا اختلط البنون و البنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الانثیين كذا في التبيین ين اھ
لہذا مذکورہ بالا مکان کی اگر قیمت 80,0000 روپے ہیں تو اس میں سے 10,0000 ایک لاکھ روپے والدہ کو ملیں گے اور مابقی 700000 سات لاکھ روپیوں کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ لڑکوں کو (یعنی ہر ایک لڑکے کو) 1,27,272.72 روپے ملیں گے اور لڑکیوں کو(یعنی ہر ایک لڑکی کو) 63,636.36 روپے ملیں گے _****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
ـبتاریخ ۱۲/ جنوری بروز اتوار ۲۰۲۰ عیسوی
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*

_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد منظور احمد یارعلوی صدر شعبہ دار الافتاء دارالعوام اہلنست برکاتہ گلشن نگر جوگیشوری ممبئی
الجوابــــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح فقط محمدامجدعلی نعیمی،رائےگنج اتر دیناج پور مغربی بنگال،خطیب وامام مسجدنیم والی مرادآبا اترپردیش الھند
الجواب صحیح فقط محــــــــمد امیــــــــــــن قادری رضوی دیوان بازار مراداباد یوپی
ماشاءاللہ سبحان اللہ بہت عمدہ مدلل و مفصل جواب الجواب صحیح والمجیب نجیح بارک اللہ تعالیٰ فی علمہ و عمرہ
واللہ اعلم بالصواب غلام غوث اجملی پورنوی خادم التدریس دارالعلوم اہلسنت غریب نواز چاپاکھور بارسوئی کٹیہار بہار انڈیا
الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط *محمداسماعیل خان امجدی* رضوی دارالعلوم شہیداعظم دولھاپورپہاڑی پوسٹ انٹیاتھوک تھانہ ضلع گونڈہ یوپی الھند
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط تاج محمد قادری واحدی اترولوی صدر المدرسین مدرسہ اہلسنت رضویہ ریاض العلوم موہریا پوسٹ رہرا بازار تحصیل اترولہ ضلع بلرامپور
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top