جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام معصوم ہیں تو پھر ان آیات کریمہ میں ذنب یعنی گناہ کی نسبت حضور کی طرف کیسے کی گئی؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
مسئلہ: مسئولہ مولوی قیام الدین احمد خاں فیضی موضع پڑرہاپوسٹ لوٹن ضلع بستی
سورۂ مومن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ۔
(پ ۲۴ ع ۱۱)
اور سورۂ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ارشاد خداوندی ہے وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ۔
(پ ۲۶ ع ۶)
اور سورۂ فتح میں ارشاد ہے: لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔
(پ ۲۶ ع ۹)
دریافت طلب یہ امر ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام معصوم ہیں تو پھر ان آیات کریمہ میں ذنب یعنی گناہ کی نسبت حضور کی طرف کیسے کی گئی؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
الجواب: بعون الملک الوھاب۔
بے شک سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام معصوم ہیں جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
الانبیاء علیھم السلام کلھم منزھون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبائح
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ منزھون کی شرح میں لکھتے ہیں: ای معصومون یعنی سارے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام صغیرہ، کبیرہ، کفر اور بری باتوں سے معصوم ہیں۔
(فقہ اکبر مع شرح ملا علی قاری ص ۶۸)
اور مذہب اصح پر انبیاء کرام کے لئے یہ عصمت قبول نبوت اور بعد نبوت دونوں زمانے میں ثابت ہے جیسا کہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ھذہ العصمۃ ثابتۃ للانبیاء قبل النبوۃ وبعدھا علی الاصح (شرح فقہ اکبر ص ۶۹)
پھر قرآن مجید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ذنب (گناہ) کی نسبت کیوں کی گئی؟ مفسرین کرام اور محققین عظام نے کئی معانی اس کے تحریر فرمائے ہیں۔
حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ سورۂ مومن کی آیت کریمہ: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
الطاعنون فی عصمۃ الانبیآء (علیھم السلام) یتمسکون بہ ونحن نحملہ علی التوبۃ عن ترک الاولٰی والافضل اوعلی ماکان قد صدرمنھم قبل النبوۃ وقیل ایضاً المقصود منہ محض التعبد کما فی قولہ ربنا واتنا وما وعدتنا علی رسلک فان ایتآء ذٰلک الشی واجب ثم انہ امرنا بطلبہ وکقولہ رب احکم بالحق مع انا نعلم انہ لایحکم الابالحق۔ وقیل اضافۃ المصدرالٰی الفاعل والمفعول فقولہ واستغفر لدنبک من باب اضافۃ المصدرالی المفعول ای واستغفر لذنب امتک فی حقک۔
یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی عصمت میں طعن کرنے والے اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں اور ہم اسے محمول کرتے ہیں اولیٰ اور افضل کے چھوڑنے سے توبہ کرنے پر۔ یا ان باتوں پر جو قبل نبوت انبیاء کرام سے صادر ہوئیں‘ اور بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مقصود اس سے صرف اظہار بندگی کا طلب کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول۔
(پ ۴ ع ۱۱)
میں ہے کہ اے ہمارے رب!ا ور ہمیں دے وہ جس کا تو نے اپنے رسولوں کی معرفت وعدہ کیا ہے۔ اس لئے کہ اس چیز کا دیا جانا یقینی ہے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس کی طلب کا حکم فرمایا اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول۔
(پ ۱۷ ع ۷)
میں ہے کہ اے میرے ربّ! حق فیصلہ فرما دے۔ باوجودیکہ ہم جانتے ہیں وہ حق ہی فیصلہ فرمائے گا‘ اور بعض لوگوں نے کہا مصدر کی اضافت فاعل اور مفعول دونوں طرف ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے قول وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ میں مصدر کی اضافت مفعول کی جانب ہے۔ یعنی آپ کی امت نے آپ کے حق میں
جو گناہ کیا ہے اس سے استغفار کریں۔
(تفسیر کبیر جلد ہفتم ص ۳۲۱)
اور یہی امام رازی سورۂ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیت کریمہ: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
لم یکن للنبی صلی اللّٰہ علیہ ذنب فماذا یغفرلہ۔ قلنا الجواب عنہ قد تقدم مرارامن وجوہ احدھا المراد ذنب المومنین ثانیھا المراد ترک الافضل ثالثھا الصغائر فانھا جائزۃ علی الانبیاء بالسھو والعمد ویصونھم عن العجب۔
یعنی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے گناہ نہیں ہے تو کیا معاف کیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب متعدد بار کئی طریقے سے گزر چکا ہے اوّل یہ کہ مراد مومنین کا گناہ ہے دوسرے یہ کہ ترک افضل ہے۔ تیسرے یہ کہ گناہ صغیرہ مراد ہیں۔ اس لئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر وہ سہواً و عمداً جائز نہیں‘ اور خداتعالیٰ فخر و غرور سے ان کی حفاظت فرماتا ہے۔
(تفسیر کبیر جلد ہفتم ص ۵۳۳)
اور عارف باللہ حضرت علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ سورۂ مومن کی آیت کریمہ: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
ای اطلب المغفرۃ من ربک لذنبک والمقصود من ھٰذا الامر تعلیم الامۃ ذٰلک والافرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم معصوم من الذنوب جمیعًا صغائر وکبائر قبل النبوۃ وبعد ھا علی التحقیق کجمیع الانبیاء۔ واجیب ایضاً ان الکلام علی حذف مضاف والتقدیر واستغفر لذنب امتک واجیب ایضاً بان المراد بالذنب خلاف الاولٰی وسمی ذنبا بالسنۃ لمقامہ من باب حسنات الابرار سیئآت المقربین۔
۔ یعنی اپنے رب سے اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرو اور اس حکم کا مقصد امت کو اس کی تعلیم دینا ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صغیرہ و کبیرہ سب گناہوں سے قبل نبوت اور بعد نبوت سارے انبیاء کرام کی طرح معصوم ہیں تحقیق یہی ہے‘ اور یہ بھی جواب دیا گیا ہے کہ آیت کریمہ میں مضاف مخذوف ہے تقدیر کلام ہے واستغفر لذنب امتک۔ یعنی اپنی امت کے گناہ کی مغفرت طلب کرو اور یہ بھی جواب دیا گیا ہے کہ گناہ سے مراد خلاف اولیٰ ہے‘ اور گناہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کے لحاظ سے کیا گیا ہے جو اس قبیل سے ہے کہ اچھے لوگوں کی نیکیاں مقربین کی برائیاں ہیں۔
(تفسیر صاوی جلد چہارم ص ۱۰)
اور سورۂ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیت مبارکہ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا: قیل لہ ذٰلک مع عصمتہ لتستن بدامہ۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرو یا باوجودیکہ وہ معصوم ہیں تاکہ حضور کی امت ان کی پیروی کرے
(تفسیر جلالین ص ۴۲۱)
اس پر حضرت علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
قولہ لتستن بہ امتہ ای تقتدی بہ وھٰذا احد اوجہ فی تاویل الایۃ وھو احسنھا۔ وقیل المراد بذنبہ ذنب ال بیتہ۔
۔ یعنی علامہ محلی کا قول لتستن الخ کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان کی پیروی کرے اور یہ آیت کریمہ کی تاویلوں میں ایک بہترین تاویل ہے‘ اور بعض لوگوں نے کہا کہ حضور کے گناہ سے آپ کے اہل بیت کا گناہ مرادا ہیں۔
(صاوی جلد چہارم ص ۷۶)
اور سورۂ فتح کی آیت کریمہ: لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ کی تفسیر میں علامہ صاوی تحریر فرماتے ہیں:
اسناد الذنب لہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤمل امابان المراد ذنوب امتک اوھومن باب حسنات الابرار سیئات المقربین اوبان المراد بالغفران الاحالۃ بینہ وبین الذنوب فلا تصدرمنہ لان الغفر ھوالستر والستر امابین العبد والذنب اوبین الذنب وعذابہ فاللائق بالانبیاء الاول وبالا مم الثانی۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گناہ کے منسوب ہونے کی تاویل کی گئی ہے یا تو اس طرح کہ آپ کی امت کا گناہ مراد ہے یا تو اس قبیل سے ہے کہ اچھوں کی نیکیاں مقربین کی برائیاں ہیں اور یا تو غفران سے مراد حضور اور گناہوں کے درمیان رکاوٹ پیدا کرنا ہے کہ گناہ آپ سے صادر نہ ہو اس لئے کہ غفر کا معنی ہے: پردہ اور پردہ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک بندہ اور گناہ کے درمیان۔ دوسرے گناہ اور اس کے عذاب کے درمیان‘ تو انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے پہلی صورت مناسب ہے‘ اور امتیوں کے لئے دوسری صورت ۔
(تفسیر صاوی جلد چہارم ص ۸۰)
اور حضرت علامہ سلیمان جمل رحمۃ اللہ علیہ سورۂ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیت مبارکہ: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کی تفسیر تحریر فرماتے ہیں:
وفی القرطبی وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ یحتمل وجھین احدھما یعنی استغفر اللّٰہ ان یقع منک ذنب۔ الثانی استغفراللہ لیعصمک من الذنوب
یعنی قرطبی میں ہے کہ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ دو معنی کا احتمال رکھتاہے: اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو کہ تم سے گناہ صادر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ خداتعالیٰ سے استغفار کرو تاکہ وہ تم کو گناہوں سے بچائے۔
(تفسیر جمل جلد چہارم ص ۱۴۸)
اور آیت مبارکہ سورۂ مومن کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت علامہ علاء الدین علی خازن رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
واستغفر لذنبک یعنی الصغائر وھٰذا علی قول من یجوزھا علی الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام وقیل علی ترک الاولٰی والافضل وقیل علٰی ماصدرمنہ قبل النبوۃ وعند من لایجوز الصغائر علی الانبیاء یقول ھٰذا تعبد من اللّٰہ تعالٰی لنبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیزیدہ درجۃ ولتصیر سنۃ لغیرہ من بعد۔
یعنی اپنے گناہوں سے استغفار کا مطلب گناہ صغیرہ ہیں اوریہ اس مفسر کے قول پر ہے جو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر گناہ صغیرہ کو جائز ٹھہراتے ہیں‘ اور بعض لوگوں نے کہا کہ افضل اور اولیٰ کے ترک پر استغفار کا حکم ہوا‘ اور کچھ لوگوں نے کہا جو گناہ کہ قبل نبوت صادر ہوا اس پر استغفار مراد ہے‘ اور جو لوگ کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر گناہ صغیرہ کہ جائز نہیں ٹھہراتے وہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار بندگی کا طلب کرنا ہے تاکہ ان کا درجہ بڑھائے
اور استغفار دوسروں کے لئے ان کا طریقہ بن جائے۔
(تفسیر خازن جلد ششم ص ۹۷)
اور سورۂ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیت کریمہ: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَکی تفسیر میں حضرت علامہ ابوالسعود رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
وھوالذی ربما یصدرعنہ علیہ الصلاۃ والسلام من ترک الاولٰی عبرعنہ بالذنب نظرا الیٰ منصبہ الجلیل کیف لاوحسنات الابرار سیئات المقربین۔
یعنی گناہ وہ ہے جو بسا اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک اولیٰ پر صادر ہوتا ہے اسی کو آپ کے منصب جلیل کالحاظ کرتے ہوئے گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اچھوں کی نیکیاں مقربین کی برائیاں ہیں۔
(تفسیر ابوالسعود مع تفسیر کبیر جلد ہفتم ص ۷۳۰)
اور حضرت علامہ نسفی رحمۃ اللہ علیہ سورۂ مومن کی آیت کریمہ: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: ای لذنب امتک یعنی اپنی امت کے گناہ کی مغفرت طلب کریں۔ (تفسیر مدارک جلد چہارم ص ۸۲) اور اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت علامہ ابومحمد حسین فراء بغوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ھٰذا تعبد من اللّٰہ لیزیدہ بہ درجۃ ولیصیر سنۃ لمن بعدہ۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اظہار بندگی کو چاہنا ہے تاکہ اس کے سبب حضور کا درجہ بلند فرمائے اور آپ کے بعد استغفار لوگوں کا طریقہ ہو جائے۔
(تفسیر معالم التنزیل جلد ششم ص ۹۷)
اور اعلیٰ حضرت پیشوائے اہلسنّت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان سورۂ فتح کی آیت کریمہ پر گفتگو کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: خود نفس عبارت گواہ ہے کہ یہ جسے ذنب فرمایا گیا ہرگز حقیقتاً ذنب بمعنیٰ گناہ نہیں۔ ماتقدم سے کیا مراد لیا؟وحی اترنے سے پیشتر کے اور گناہ کسے کہتے ہیں؟ مخالفت فرمان کو‘ اور فرمان کا ہے سے معلوم ہو گا؟ وحی سے‘ تو جب تک وحی نہ اتری تھی فرمان کہاں تھا؟ اور جب فرمان نہ تھا تو مخالفت فرمان کا کیا معنی؟ اور جب مخالفت فرمان نہیں تو گناہ کیا‘ اور جس طرح مَاتَقَدَّمَ میں ثابت ہو گیا کہ حقیقتہ ذنب نہیں یوہیں ماتاخر میں نقد وقت ہے۔ قبل ابتدائے نزول فرمان جو افعال جائزہ ہوئے کہ بعد کو فرمان ان کے منع پر اترا اور انہیں یوں تعبیر فرمایا گیا۔ حالاں کہ ان کا حقیقتاً گناہ ہونا کوئی معنی ہی نہ رکھتا تھا۔ بعد نزول وحی و ظہور رسالت بھی جو افعال جائزہ فرمائے اور بعد کو ان کی ممانعت اتری اسی طریقے سے ان کو ماتاخر فرمایا کہ وحی بتدریج نازل ہوئی نہ کہ دفعتہ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد نہم ص ۷۵)
اور پھر تحریر فرماتے ہیں: سورۂ مومن اور سورۂ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیت کریمہ میں کون سی دلیل قطعی ہے کہ خطاب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مومن میں تو اتنا ہے وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ اے شخص! اپنی خطا کی معافی چاہ۔ کسی کا خاص نام نہیں کوئی دلیل تخصیص کلام کی نہیں۔ قرآن عظیم تمام جہاں کی ہدایت کے لئے اترا نہ صرف اس وقت کے موجودین بلکہ قیامت تک آنے والوں سے وہ خطاب فرماتا ہے: وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ نماز برپا رکھو یہ خطاب جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تھا ویسا ہی ہم سے بھی ہے‘ اور تاقیام قیامت ہمارے بعد آنے والی نسلوں سے بھی۔ اسی قرآن عظیم میں ہے: لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ کتب عامہ کا قاعدہ ہے کہ خطاب ہر سامع سے ہوتا ہے۔ بداں اسعدک اللّٰہ تعالٰی۔ میں کوئی خاص شخص مراد نہیں۔ خود قرآن عظیم میں فرمایا: اَرَأَیْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی اَرَأَیْتَ اِنْ کَانَ عَلَی الْھُدٰی اَوْ اَمْرَ بِالتَّقْوٰی ابوجہل لعین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکنا چاہا اس پر یہ آیاتِ کریمہ اتریں کہ کیا تو نے دیکھا اسے جو روکتا ہے بندے کو جب وہ نماز پڑھے‘ بھلا دیکھ تو اگر وہ بندہ ہدایت رب ہو گا یا پرہیزگاری کا حکم فرمائے۔ یہاں بندے سے مراد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور غائب کی ضمیریں حضور کی طرف ہیں اور مخاطب کی ہر سامع کی طرف بلکہ فرماتا ہے: فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ ان روشن دلیلو ں کے بعد کیا چیز تجھے روز قیامت کے جھٹلانے پر باعث ہو رہی ہے۔ یہ خطاب خاص کفار سے ہے بلکہ ان میں بھی خاص منکرین قیامت مثل مشرکین آریہ و بنود سے‘ یوں ہی دونوں سورۂ کریمہ میں کاف خطاب ہر سامع کے لئے ہے کہ ’’اے سننے والے! اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کے گناہ کی معافی مانگ‘‘۔ (۲) بلکہ اس سورئہ آیت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں تو صاف قرینہ موجود ہے کہ خطاب حضور سے نہیں اس کی ابتدا یوں ہے: فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی معافی چاہ‘ تو یہ خطاب اس سے ہے جو ابھی لا الٰہ الا اللّٰہ نہیں جانتا ورنہ جاننے والے کو جاننے کا حکم دینا تحصیل حاصل ہے‘ تو معنی یہ ہوئے کہ اے سننے والے! جسے ابھی توحید پر یقین نہیں کسے باشد توحید پر یقین لا اور اپنے اور اپنے بھائی مسلمانوں کے گناہ کی معافی مانگ۔ تتمہ آیت میں اس عموم کو واضح فرما دیا کہ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جہاں تم لوگ کروٹیں لے رہے ہو اور جہاں جہاں تم سب کا ٹھکانہ ہے۔ اگر فاعلم میں تاویل کرے تو ذنبک میں تاویل سے کون مانع ہے‘ اور اگر ذنبک میں تاویل نہیں کرتا تو فاعلم میں کیسے تاویل کر سکتا ہے؟ دونوں پر ہمارا مطلب حاصل اور مدعی معاند کا استدلال زائل۔
سوم(۳)دونوں آیاتِ کریمہ میں صیغۂ امر ہے‘ اور امر انشاء ہے‘ اور انشاء وقوع پر دال نہیں تو حاصل اس قدر کہ بغرض وقوع استغفار واجب نہ کہ یہ معاذ اللہ واقع ہوا جیسے کسی نے کہا اکرم ضیفک اپنے مہمان کی عزت کرنا اس سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت کوئی مہمان موجود نہیں یہ خبر ہے کہ خواہی نخواہی کوئی مہمان آئے گا ہی بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یوں کرنا۔چہارم (۴) ذنب معصیت کو کہتے ہیں اور قرآن عظیم کے عرف میں اطلاق معصیت عمد ہی سے خاص نہیں قال اللّٰہ تعالٰی: وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہٗ آدم نے اپنے رب کی معصیت کی حالانکہ خود فرماتا ہے: فَنَسِیْ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۔ آدم بھول گیا ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔ لیکن سہو نہ گناہ ہے نہ اس پر مواخذہ خود قرآن کریم نے بندوں کو یہ دعا تعلیم فرمائی: رَبَّنَا لَا تُوَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَأْنَا۔ اے ہمارے ربّ! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں۔
پنجم(۵) جتنا قرب زیادہ اسی قدر احکام کی شدت زیادہ ع ’’جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے‘‘ بادشاہ جلیل القدر ایک جنگی گنوار کی جو بات سن لے گا جو برتاؤ گوارا کرے گا ہرگز شہریوں سے پسند نہ کرے گا شہریوں میں بازاریوں سے معاملہ آسان ہو گا اور خاص لوگوں سے سخت اور خاصوں میں درباریوں اور درباریوں میں وزراء ہر ایک پر بار دوسرے سے زائد ہے اسی لئے وارد ہوا حسنات الابرار سیئات المقربین نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں۔ وہاں تر ک اولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ترک اولیٰ ہرگز گناہ نہیں۔
ششم (۶) ہر ادنیٰ طالب علم جانتا ہے کہ اضافت کے لئے ادنی ملابست بس ہے بلکہ یہ عام طور پر فارسی، اردو، ہندی سب زبانوں میں رائج ہے۔ مکان کو جس طرح اس کے مالک کی طرف نسبت کریں گے یوہیں کرایہ دار کی طرف۔ یوہیں جو عاریت لے کر بس رہا ہے اس کے پاس ملنے آئے گا یہی کہے گا ہم فلانے کے گھر گئے تھے بلکہ پیمائش کرنے والے جن کھیتوں کو ناپ رہے ہوں ایک دوسرے سے پوچھے گا تمہارا کھیت کئے جریب ہوا یہاں نہ ملک نہ اجارہ نہ عاریت اور اضافت موجود۔ یوں ہی بیٹے کے گھر سے جو چیز آئے گی باپ سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے یہاں سے عطا ہوا تھا تو ذنب سے مراد اہل بیت کرام کی لغزشیں ہیں اور اس کے بعد وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ تعمیم بعد تخصیص ہے یعنی شفاعت فرمائیے اپنے اہل بیت کرام اور سب مسلمان مردوں عورتوں کے لئے اب اس جنون کا بھی علاج ہو گیا کہ پیروؤں کا ذکر تو بعد کو موجود ہے۔ تعمیم بعد تخصیص کی مثال خود قرآن عظیم میں ہے: رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ اے میرے ربّ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ آیا اور سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو۔
ہفتم(۷) اسی وجہ سے آیت کریمہ سورۂ فتح میں لام لک تعلیل کا ہے‘ اور مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ تمہارے اگلوں کے گناہ اعنی سیّدنا عبداللہ وسیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہما سے منتہائے نسب کریم تک تمام آبائے کرام و امہات طیبات باستثناء انبیاء کرام مشل آدم و شیث و نوح و خلیل و اسمٰعیل علیہم الصلاۃ والسلام وماتاخر تمہارے پچھلے یعنی قیامت تک تمہارے اہل بیت و امت مرحومہ‘ تو حاصل آیت کریمہ یہ ہوا کہ ہم نے تمہارے لئے فتح مبین فرمائی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے بخش دے تمہارے علاقہ کے سب اگلوں پچھلوں کے گناہ والحمد للّٰہ رب العٰلمین (فتاویٰ رضویہ جلد نہم ص ۷۸)
وصلی اللّٰہ علیہ وسلم علی النبی الکریم وعلٰی اٰلہٖ واصحابہ اجمعین۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۵۴/۱۵۳/۱۵۲/۱۵۱/۱۵۰/۱۴۹/۱۴۸/۱۴۷)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند