جمعہ اور عید ان کی امامت کے فیصلے کا حق کس کو ہے؟جہاں جمعہ کی نماز جائز ہے وہاں عیدین کی نماز جائز ہے یا نہیں؟سب سے زیادہ مستحق امامت کون ہے؟شہر کی جس مسجد میں جمعہ قائم ہو شرعا وہ جامع مسجد ہے یا نہیں؟

جمعہ اور عید ان کی امامت کے فیصلے کا حق کس کو ہے؟
جہاں جمعہ کی نماز جائز ہے وہاں عیدین کی نماز جائز ہے یا نہیں؟
سب سے زیادہ مستحق امامت کون ہے؟
شہر کی جس مسجد میں جمعہ قائم ہو شرعا وہ جامع مسجد ہے یا نہیں؟

مسئلہ: از مسلمانان اہلسنّت و جماعت شہر کالپی شریف
ہمارے یہاں شہر کالپی میں امامت عیدین کا مسئلہ درپیش ہے۔ حافظ امیر بخش صاحب جو امام جامع مسجد اور عیدین تھے جب ان کا آخر وقت ہوا تو انہوں نے اپنا جانشین اور قائم مقام اپنے داماد حافظ عبدالباری صاحب کو کیا اور امامت بطور ترکہ مرحوم نے حافظ عبدالباری صاحب کے حق میں منتقل کی جس سے یہاں کے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا کتنے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امامت ان کی میراث نہ تھی جو بحیثیت ایک فرد واحد انھوں نے باختیار خود اپنے داماد کو دی ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا‘ اور کتنے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ انتخاب صحیح ہے عیدین کی نماز حافظ عبدالباری صاحب ہی پڑھائیں گے۔ یہ اختلاف کالپی میں کسی وقت بھی باہمی فساد اور نزاع شدید کا سبب بن سکتا ہے۔
جب کہ کالپی شہر میں علاوہ جامع مسجد کے اور بھی کئی جگہ جمعہ کی نماز ہوتی ہے مثلاً خانقاہ شریف کی تاریخی قدیمی مسجد میں بھی نماز جمعہ ہوتی ہے جو عرصۂ دراز سے ہوتی چلی آ رہی ہے اس میں حاجی حافظ عبدالباسط صاحب تقریباً ۳۰؍ سال سے نماز جمعہ پڑھاتے ہیں۔ حافظ عبدالباسط صاحب یہاں کے مشہور حافظ اور بہت سے حفاظ شہر کے استاذ بھی ہیں اور بستی کے تمام حفاظ میں سینئر بھی ہیں اور معتبر بھی نیز ان کی زندگی کا زیادہ حصہ دین میں گزرا ہے‘ اور مسائل ضروریہ نماز روزہ طہارت وغیرہ وغیرہ سے دوسرے حفاظ کے مقابلے میں زیادہ واقف اور ذی علم ہیں اور کافی لوگ بھی ان سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی امامت و اقتداء جمعہ میں بستی کا ۴؍۳ مسلمان نماز پڑھتا ہے جب کہ جامع مسجد میں جمعہ میں بستی کا ۴؍۱ مسلمان ہوتا ہے ان تمام حالات کے پیش نظر ان کی حق تلفی کی جا رہی ہے نیز ان کے حق کو پامال کرتے ہوئے ان کے استحقاق کو نظرانداز کیا گیا ایسی صورت میں یہاں مسلمان دو فریق ہو گئے ہیں۔ شہر کالپی میں پہلے قاضی خاندان کے افراد بھی نماز عیدین یکے بعد دیگرے عرصہ تک پڑھاتے رہے ہیں۔ جب کہ وہ نماز جمعہ نہیں پڑھاتے تھے مگر اب ان میں کوئی باقی نہیں رہا۔ بستی کے کچھ سمجھدار طبقہ نے حافظ عبدالباری صاحب کے معاونین کے سامنے چند تجاویز رکھیں جو درج ذیل ہیں‘ مگر وہ لوگ کسی تجویز پر متفق نہیں۔
تجویز نمبر (۱) بستی کے تمام حفاظ جن کی تعداد ۱۵؍ سے ۲۰؍ تک ہے آپس میں عیدین کی نماز کے لئے کسی ایک امام کو منتخب کریں۔
دوم(۲) حافظ عبدالباری صاحب جامع مسجد کے امام رہیں اور حاجی عبدالباسط صاحب جامع خانقاہ شریف کے امام رہیں‘ اور عیدین کے لئے تیسرے امام کا انتخاب کر لیا جائے تاکہ نزاع آئندہ کا سدباب ہو جائے۔
سوم(۳) بستی کے ہر برادری کے دو دو چار چار افراد جو لکھے پڑھے ہوں‘ اور نمازی مسلمان باہم مشورہ سے ہر دو حفاظ مذکور الصدر میں سے جس کو دینی سطح نظر سے اعلیٰ و اولیٰ سمجھیں اسے امام عیدین مقرر کر دیں۔
چہارم(۴) کسی سنی مفتی عالم دین کو بلا کر تمام حفاظ کا علمی و عملی تعارف و توازن کرانے کے بعد ان سے شرعی فیصلہ حاصل کر لیا جائے۔
مگر حافظ عبدالباری صاحب کے معاونین اور حامیان اس پر اٹل ہیں کہ جو فیصلہ ہو چکا وہی رہے گا۔ کیا ہر جاہل، بے نمازی، بد افعال، چور، بدمعاش مسلمان بھی امامت کے لئے انتخاب میں رائے دہندگی کا حق دار ہے۔ ان حالات کے پیش نظر مندرجہ ذیل استصواب کے جواب باصواب سے مطلع فرمائیں تاکہ فتویٰ کے فیصلہ کی روشنی میں عملدرآمد کیا جا سکے۔
اول(۱) موجودہ انتخاب جو امیر بخش صاب نے ازخود اپنے داماد حافظ عبدالباری صاحب کے حق میں کیا ہے۔ کیا درست ہے؟
دوم(۲) امامت کے فیصلہ کا حق ازروئے شرع پاک کس کو حاصل ہے؟
سوم(۳) بخیال سدباب نزاع بین المسلمین ہم لوگ علاوہ عیدگاہ کے خانقاہ شریف کی مسجد جمعہ میں دوگانہ (عیدین) جداگانہ ادا کر سکتے ہیں؟
چہارم(۴) حالات مندرجہ بالا کے تحت ہر دو ائمہ مذکور میں سے امامت عیدین کا حق کس کو پہنچتا ہے؟
پنجم(۵) کیا یہ دلیل شرعی ہے کہ جو امام جامع مسجد کا امام ہو وہی عیدین کی نماز پڑھا سکتا ہے دوسرا نہیں؟

الجواب: بعون الملک الوھاب (۱) موجودہ انتخاب جو امیر بخش صاحب نے ازخود کیا شرعاً درست نہیں۔ وھو تعالٰی ورسولہٗ اعلم۔
دوم(۲) اس زمانہ میں جمعہ اور عیدین کی امامت کے فیصلہ کا حق شہر کے سب سے بڑے سنی عالم فقیہ معتمد کو ہے‘ اور جہاں یہ نہ ہو تو بہ مجبوری وہاں کے صرف عوام نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی اکثریت جسے انتخاب کرے وہ امامت عیدین کر سکتا ہے۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص ۲۷۵ میں تحریر فرماتے ہیں: ہر شخص کو اختیار نہیں کہ بطور خود یا ایک دو یا دس بیس سو پچاس کے کہے سے امام جمعہ و عیدین بن جائے ایسا شخص اگرچہ اس کا عقیدہ بھی صحیح ہو اور عمل میں بھی فسق و فجور نہ ہو۔ جب بھی امامت جمعہ و عیدین نہیں کر سکتا اگر کرے گا تو اس کے پیچھے نماز باطل ہو گی۔ انتہیٰ اس لئے کہ جمعہ و عیدین کی نماز صحیح ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بادشاہ اسلام اس کا نائب یا اس کا ماذون قائم کرے۔ یا ایسا عالم جو اعلم علمائے بلد ہو۔ یا بدرجۂ مجبوری عام مسلمانوں کی اکثریت جسے منتخب کرے وہ امامت کرے اور ان طریقوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو نماز باطل محض ہو گی کہ اذافات الشرط فات المشروط یعنی جب شرط نہیں پائی گئی تو مشروط نہیں پایا جا سکتا۔
سوم(۳) جب کہ خانقاہ شریف کی مسجد میں جمعہ جائز ہے تو اس میں عیدین کی نماز بھی جائز ہے ھٰکذا فی الفتاویٰ الرضویہ۔
چہارم(۴) سب سے زیادہ مستحق امامت وہ شخص ہے جو نماز و طہارت کے احکام سب سے زیادہ جانتا ہو۔ اس کے بعد وہ شخص جو تجوید کا زیادہ علم رکھتا ہو۔ صورت مستفسرہ میں اگر دونوں برابر ہوں تو ایسی صورت میں جو زیادہ پرہیزگار ہو‘ اور اگر اس میں بھی برابر ہوں تو جس کی عمر زیادہ ہو گی‘ اور اگر یہ اور قسم کی دوسری قابل ترجیح باتوں میں دونوں برابر ہوں تو جماعت جس کو منتخب کرے وہ امام ہو گا‘ اور جماعت میں بھی اختلاف ہونے کی صورت میں اکثریت کا لحاظ ہو گا۔ بہار شریعت حصہ سوم ص ۱۱۵۔
پنجم(۵) امام جمعہ ہی عیدین کی نماز پڑھاتا ہے یا اس کے اذن سے کوئی دوسرا لیکن خانقاہ شریف کی مسجد میں جبکہ جمعہ قائم ہے تو وہ مسجد بھی شرعاً جامع مسجد ہے۔ اگرچہ اہل شہر اسے جامع مسجد نہ کہتے ہوں۔ ھٰذا ماظھرلی والعلم بالحق عنداللّٰہ ورسولہٗ جل وعلا وصلی المولٰی علیہ وسلم

الجواب صحیح:غلام جیلانی اعظمی
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۱۷؍ ذی القعدہ ۱۳۹۹ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۹۱/۲۹۰/۲۸۹/۲۸۸)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top