جو ہر چیز کو اپنے عقل کے کانٹے پر تولتا ہے وہ ایک دن قران کا انکار کر بیٹھتا ہے۔حضرت ابوہریرہ کا روزانہ بارہ ہزار رکعت پڑھنا کرامت ہے۔حضرت عمر کے خط سے دریائے نیل جاری ہوا۔فاروق اعظم نے اپنی اواز نہاوند پہنچادی جو دو ماہ کے راستہ پر ہے۔حضرت اصف بن برخیا نے بلقیس کے تخت کو پلک جھپکتے یمن سے ملک شام پہنچا دیا جو دو ماہ کے راستہ پر تھا۔جو عقل میں آئے صرف اس کو ماننا عقل کو پوجنا ہے قران و حدیث کو ماننا کا مطلب کیا ہے؟

جو ہر چیز کو اپنے عقل کے کانٹے پر تولتا ہے وہ ایک دن قران کا انکار کر بیٹھتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ کا روزانہ بارہ ہزار رکعت پڑھنا کرامت ہے۔
حضرت عمر کے خط سے دریائے نیل جاری ہوا۔
فاروق اعظم نے اپنی اواز نہاوند پہنچادی جو دو ماہ کے راستہ پر ہے۔
حضرت اصف بن برخیا نے بلقیس کے تخت کو پلک جھپکتے یمن سے ملک شام پہنچا دیا جو دو ماہ کے راستہ پر تھا۔
جو عقل میں آئے صرف اس کو ماننا عقل کو پوجنا ہے قران و حدیث کو ماننا کا مطلب کیا ہے؟

مسئلہ: از انور حسین ایوبی پر دھان نوگواں پوسٹ جوٹھیا ضلع رامپور (یو پی)
دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ صاحب اعظمی مدظلہ العالی کی تصنیف نوادر الحدیث ص ۵۴ پر ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روزانہ بارہ ہزار رکعت نفل پڑھا کرتے تھے حالانکہ بارہ ہزار رکعت کے لئے کم سے کم پندرہ ہزار منٹ یا ڈھائی سو گھنٹے درکار ہیں‘ تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ کیوں کر توقع کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے تمام ضروریات زندگی حتیٰ کہ فرائض و واجبات کو بالائے طاق رکھ کر سیکڑوں گھنٹے میں پڑھی جانے والی بارہ ہزار رکعات ایک دن میں پڑھتے رہے ہوں؟ میری نظر میں یہ خرافات ہے اطمینان بخش جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب: جو شخص ہر چیز کو عقل کے کانٹے پر تولتا ہے کہ جو چیز اس کی عقل میں نہیں سما سکتی اسے تسلیم نہیں کرتا ہے تو وہ پہلے چھوٹی چھوٹی باتوں کا انکار کرتا ہے پھر کرامت‘ معجزہ یہاں تک کہ جنت و دوزخ اور قرآن کریم کلام الٰہی ہونے سے بھی انکار کر بیٹھتا ہے (العیاذ باللّٰہ تعالٰی) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بارہ ہزار رکعات نفل پڑھنا کرامت ہے‘ مگر چوں کہ یہ بات آپ کی عقل میں نہیں سما سکتی اس لئے آپ کو انکار ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خط سے دریائے نیل کے جاری ہونے کا بھی آپ کو انکار ہو گا اس لئے کہ یہ بھی خلاف عقل ہے کہ سوکھا ہوا دریا کسی کے خط سے جاری ہو جائے‘ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مسجد نبوی کے منبر سے نہاوند میں مصروف جنگ اسلامی لشکر کے ملاحظہ فرمانے امیر لشکر حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو متنبہ کرنے اور حضرت ساریہ کا حضرت عمر کے کلام سننے سے بھی آپ کو انکار ہو گا جس کا بیان حدیث شریف کی مشہور کتاب مشکوٰۃ ص ۵۴۶ میں ہے: بغیر کسی مشین کے اتنے دور دراز مقام کو ملاحظہ فرمانا اور کلام کا سننا سنانا بھی آپ کے عقل کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ نہاوند مدینہ سے اتنی دور ہے کہ ایک مہینے میں قافلہ وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا جیسا کہ حاشیہ اشعۃ اللمعات جلد چہارم ص ۶۰۱ میں ہے: ’’نہاوند‘‘ در ایران صوبہ آذربائیجان از بلاد جبال ست کہ از مدینہ بیک ماہ آں جانتواں رسید۔ یہاں تک کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ عنہ کا حضرت بلقیس کے عظیم تخت کو پلک جھپکتے میں ملک یمن سے ملک شام میں پہنچا دینے سے بھی آپ کو انکار ہو گا جس کا ذکر پ ۱۹ سورۂ نمل میں ہے یہ بھی آپ کی عقل میں آنے والی بات نہیں ہے اس لئے کہ اتنی مسافت کے لئے بہت وقت چاہئے اتنی جلد تو راکٹ بھی جا کے نہیں لا سکتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس وقت بیت المقدس میں تھے۔ حضرت بلقیس کا تخت ملک یمن کے شہر سبا میں تھا جو بیت المقدس سے دو مہینے کے راستے پر تھا۔ جیسا کہ تفسیر جمل جلد سوم ص ۳۱۴ میں ہے:
کان سلیمان اذ ذاک فی بیت المقدس وعرشھا فی سبابلدۃ بالیمن وبینھا وبین بیت المقدس مسیرۃ شہرین
بلکہ شہدائے اسلام کی زندگی سے بھی آپ کو انکار ہو گا جس کا ذکر پ ۲ ع ۳ اور پ ۴ اور ع ۸ میں ہے: اس لئے کہ سرکا جسم سے الگ ہو جانا پھر اسے زمین میں دفن کر دینا۔ اس کا مال ورثہ میں تقسیم ہو جانا ور بیوی کا دوسرا عقد کر لینا۔ ان تمام باتوں کے باوجود شہید کو زندہ قرار دینا بھی آپ کی عقل کے خلاف ہے‘ بلکہ یہاں تک کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پھر وہاں سے ساتوں آسمان‘ عرش اعظم اور جنت وغیرہ کی سیر بھی آپ کے نزدیک خرافات ہی ہو گی۔ جس کا ذکر پ ۱۵ رکوع ۱ نہیں ہے‘ اور احادیث مشہورہ میں ہے اس لئے کہ اتنے لمبے سفر کے لئے بھی کئی مہینے درکار نہیں تھوڑے سے وقت میں اتنا طویل سفر بھی آپ کی عقل سے باہر ہے۔ خوب سمجھ لیجئے کہ جو شخص اسی بات کو مانتا ہے کہ جسے اس کی عقل تسلیم کرتی ہے تو وہ اپنی عقل کا پجاری ہے‘ اور صرف اسی کو وہ مانتا ہے۔ خدا و رسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و حدیث کو اس کے ماننے کا دعویٰ غلط ہے۔ اس لئے کہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے تسلیم کر لیاجائے اگر سمجھ میں آ نے کے بعد ہی مانا تو اپنی سمجھ کو مانا قرآن و حدیث کو نہ مانا… کرامت حق ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے‘ اور جس طرح سے معجزہ کا انکار کرنا گمراہی ہے اسی طرح کرامت کو تسلیم نہ کرنا بھی بدمذہبی ہے کہ ولی کی کرامت نبی کے معجزہ کا عکس و پرتو ہے‘ اور معجزہ کے معنی ہیں عاجز کر دینے والا‘ تو جس طرح معجزہ عقل انسانی کو عاجز کر دینے والا ہے اسی طرح کرامت کو بھی انسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہے‘ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کرامت ہی سے روزانہ بارہ ہزار رکعات پڑھا کرتے تھے تو اس کو بھی انسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہی رہے گی۔ دعا ہے کہ خداتعالیٰ آپ کو گمراہی سے بچائے رکھے کسی عالم دین کی صحبت عطا فرمائے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بویلوی علیہ الرحمۃ والرضوان و دیگر علمائے اہلسنّت کی کتابوں کے مطالعہ کی توفیق بخشے۔
آمین۔ بجاہ حبیبہ سیّد المرسلین صلواۃ اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ وعلیھم اجمعین۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۳۰؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۳۲/۱۳۱/۱۳۰)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top