جھوٹا الزام لگانے والے کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟

جھوٹا الزام لگانے والے کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟

مسئلہ: از برکت اللہ چودھری پیری بزرگ ضلع بستی
زید، بکر اور عمر تین بھائی ہیں اور تینوں نے بانٹ لیا ہے مگر ایک ہی مکان میں رہتے ہیں ایک ایک کمرہ اور تھوڑا تھوڑا برآمدہ ہر ایک کے حصہ میں ہے لیکن تینوں کا آنگن ایک ہی ہے کوئی دیوار یا ٹاٹی بیچ میں حائل نہیں اور نہ آپس میں کسی قسم کا جھگڑا فساد رہتا ہے تینوں میل جول سے رہتے ہیں زید کی خالد سے بظاہر دوستی ہے خالد کو ساتھ لے کر اکثر اپنے گھر بیٹھا باتیں کیا کرتا ہے‘ اور کبھی کبھی خالد بھی اس کے گھر زید کی موجودگی میں چلا جاتا ہے‘ اور بیٹھ جاتا ہے مگر تنہائی میں نہیں بیٹھتا ہے خالد عالم دین ہے‘ اور امامت بھی کرتا ہے مگر گاؤں کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خالد زید کے گھر جا کر زید کی غیرموجوگی میں بیٹھ جاتا ہے اس وجہ سے اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں اور خالد کو کچھ لوگوں نے روکا کہ زید کے گھر مت جاؤ تو خالد نے کہا کہ اب نہیں جائیں گے اور نہ جاتا ہے تو خالد کے پیچھے نماز ہو گی یا نہیں؟

الجواب:خالد اگر غیرمحرم کے ساتھ تنہائی میں نہیں بیٹھتا تھا اور نہ اب بیٹھتا ہے بلکہ لوگوں کے روکنے پر زید کے گھر جانا بھی بند کر دیا تو اس پر شرعاً کوئی جرم نہیں عائد ہوتا اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ کوئی اور وجہ مانع امامت نہ ہو‘ اور اگر خالد پر غیرمحرم کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنے کا جھوٹا الزام ہے تو جھوٹا الزام لگانے والے اور مؤمن پر بدگمانی کرنے والے گنہگار حق العبد میں گرفتار ہیں اور ان پر توبہ کرنا اور خالد سے معافی مانگنا لازم ہے
قال اللّٰہ تعالٰی: یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ ۲۶ ع ۱۴) وھوتعالٰی اعلم

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۶۵)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top