حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے دھوبی کے واقعہ کی واقعی حیثیت کیا ہے ؟

حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے دھوبی کے واقعہ کی واقعی حیثیت کیا ہے ؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس واقعہ کے بارے میں کہ غوث اعظم کا ایک دھوبی تھا جب اسکا انتقال ہوا اور پھر اس کی تدفین کے بعد منکر نکیر نے اس سے سوال کیا “من ربک” تو اس نے کہا میں تو غوث اعظم کا دھوبی ہوں اور تینوں سوال کے جواب میں اس نے یہی کہا کہ میں تو غوث اعظم کا دھوبی ہوں اور پھر اس کو جنت کی خوشخبری سنا دی گئی کیا یہ واقعہ سہی ہے؟

عبد الاحد نواز بہیڑی بریلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب

لفظ ” دھوبی “ کسی مستندکتاب میں نظرسے نہیں گزرا ، البتہ اسی سے ملتا جلتا ایک فاسق آدمی کا واقعہ سیدی عبدالقادر ابن محی الدین قادری اربلی علیہ الرحمہ نے نقل فرمایاہے ، ممکن ہےکہ وہ فاسق آدمی دھوبی ہی ہو

فاضل اجل علامہ شیخ عبدالقادر قادری اربلی علیہ الرحمہ فرماتےہیں

” یروی انہ کان فی زمن الغوث رجل فاسق مصر علی الذنوب ولکن تمکنت محبۃ الغوث فی قلبہ المحجوب فلما توفی دفنوہ فجاء منکر و نکیر و سالاہ من ربک و من نبیک و مادینک فاجابہما فی کل سوال بعبدالقادر فجاءھماالخطاب من الرب القدیر یا منکر ونکیر ان کان ھذا العبد من الفاسقین لکنہ فی محبۃ محبوبی السید عبدالقادر من الصادقین فلاجلہ غفرت لہ و وسعت قبرہ بمحبتہ وحسن اعتقادہ فیہ رضی اللہ عنہ “

{تفریح الخاطر فی ترجمۃ الشیخ عبدالقادر ص ٢٨ ، ٢٩ ، دعوت اسلامی عربک ویب سائٹ}
یعنی، مروی ہے کہ غوث پاک کے زمانہ میں ایک فاسق آدمی تھا جو گناہوں پر اصرار کرتا تھا ، لیکن اس کے دل کے نہاں خانے میں غوث پاک کی محبت متمکن تھی ، جب اس کی وفات ہوئی تو لوگوں نے دفن کردیا ، منکر نکیر آئے اور اس سے پوچھاکہ تیرا رب کون ہے ، تیرے نبی کون ہیں اور تیرا دین کیاہے؟ تو اس نے انہیں ہرسوال کے جواب عبدالقادر سے دیا ، فرشتوں کو رب قدیر کی جانب سے خطاب آیاکہ اگرچہ یہ بندہ فاسقین میں سے ہے مگر میرے محبوب بندے عبدالقادر کی محبت میں صادق ہے ، تو میں عبدالقادر کی وجہ سے اسے بخش دیا ، اس کی قبر غوث پاک کی محبت اور ان کے بارے میں حسن اعتقاد کی وجہ سے کشادہ کردی گئی ،

اور شیخ عبدالقادر اربلی علیہ الرحمہ جامع علوم شریعت و حقیقت اور گروہ صوفیاء میں عمدہ مقام کے حامل اور صاحب تصانیف کثیرہ قادری بزرگوں میں سے تھے

علامہ اسماعیل بن محمدامین بابانی بغدادی علیہ الرحمہ فرماتےہیں

” عبدالقادر بن شیخ محی الدین الصدیقی الاربلی القادری من تلامیذالشیخ عبدالرحمن الطالبانی نزیل اورفۃ المتوفی بہا ١٣١٥ ھ ، من تصانیفہ اداب المریدین ونجاةالمسترشدین ، تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر الخ “

{ھدیةالعارفین ج١ ص٦٠٥ ، موسسةالتاریخ العربی}
یعنی ، عبدالقادر بن شیخ محی الدین صدیقی اربلی قادری شیخ عبدالرحمن طالبانی کے تلامذہ میں سے ہیں ، اورفہ کے رہنےوالے تھے ، جن کی وفات ۱۳۱۵ھ میں ہوئی ، ان کی تصانیف میں سے آداب المریدین و نجاۃ المسترشدین اور تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر ہے الخ

مشہور عربی مؤرخ عمر رضا کحالہ دمشقی رقمطراز ہیں

” عبدالقادر بن محی الدین الصدیقی الاربلی القادری صوفی ، توفی باورفۃ من تصانیفہ الکثیرة آداب المریدین ونجاةالمسترشدین ، تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر ، النفس الرحمانیۃ فی معرفۃ حقیقةالانسانیۃ الخ “

{معجم المؤلفین ج٥ ص٣٠٤ ، دار احیاءالتراث العربی}
یعنی ، عبدالقادر بن محی الدین صدیقی اربلی قادری صوفہ ہیں ، اورفہ میں وفات ہوئی ، آپ کی تصانیف میں سے آداب المریدین ، تفریح الخاطر النفس الرحمانیہ ہیں الخ

سیدی سرکاراعلیحضرت محقق البریلوی رضی اللہ عنہ نے بھی تفریح الخاطر سے استناد فرمایاہے

ایک روایت کے بارے میں حوالہ دیتےہوئے آپ رقمطراز ہیں

” فاضل عبدالقادر قادری بن شیخ محی الدین اربلی نے تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ میں یہ روایت لکھی ہے اوراسےجامع شریعت وحقیقت شیخ رشیدبن محمدجنیدی رحمہ اللہ کی کتاب حرزالعاشقین سے نقل کیا ہے اور ایسے امور میں اتنی ہی سند بس ہے “

{فتاوی رضویہ ج٢٨ ص٤٢٩ ، رضا فاؤنڈیشن}

فلہذا شیخ اربلی علیہ الرحمہ خود بھی معتمد ہیں اور ان کی کتاب تفریح الخاطر بھی مستند ۔ البتہ اس میں ایک واقعہ ایساہے جس کےبارے میں سرکاراعلیحضرت علیہ الرحمہ نےفرمایاکہ اس کا پڑھنا سننا دونوں حرام ہے

{فتاوی رضویہ ج٢٩ ص٦٣٠}

مگرصرف ایک دو واقعات کی وجہ سے پوری کتاب غیرمستندنہیں ہوسکتی ورنہ ہزارہا کتب دینیہ سے ہاتھ دھونا پڑےگا

حتی کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح للبخاری کا بھی استناد کالعدم ہوکر رہ جائےگا

علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتےہیں

” فلان ما انتقد علی البخاری من الاحادیث اقل عددا مما انتقد علی مسلم “

{نزھۃالنظر ص٦٧ ، دارالماثور}
یعنی ، بخاری کی جن احادیث پر نقد و جرح کی گئی ہے ان کی تعداد مسلم کی منتقدفیہ احادیث سے کم ہے ،

اس کے تحت علامہ علی قاری حنفی علیہ الرحمہ فرماتےہیں

” فان الاحادیث اللتی انتقدت علیہما بلغت مائتی حدیث و عشرة احادیث اختص البخاری منہا باقل من ثمانین ویشترکان فی اثنین وثلاثین “

{شرح شرح نخبۃالفکر لعلی القاری ص٢٧٩ ، دارارقم}
یعنی ، بخاری و مسلم کی جن احادیث پر نقد و جرح کی گئی ہے ان کی تعداد دو سو تک پہونچتی ہے ، دس حدیثیں خاص بخاری کی ہیں جو اسی سے کم ہیں ، اور بتیس میں دونوں مشترک ہیں

ظاہرہےکہ ان دو سو منتقدفیہ احادیث کی وجہ سے نہ تو امام بخاری ومسلم علیہماالرحمہ کی ثقاہت میں کوئی فرق پڑا ہے نہ بخاری و مسلم کی استنادی حیثیت پر کوئی اثر

بات وہی ہے جو سرکاراعلیحضرت رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمائی کہ

” ایسے امور میں اتنی ہی سند بس ہے “

{مر آنفا من الرضویۃ}

تفریح الخاطر کے مذکورہ واقعہ میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے ، منکرنکیر کے سوالات کے جواب دینے کا انکار ہے نہ ان کی بارگاہ میں کوئی گستاخی ، نیز یہ بھی لازم نہیں ہےکہ ہر مردے سے لازما سوال ہوتا ہو کہ بہت ایسے خوش نصیب بھی ہیں جن سے سرےسے سوالات قبر ہوتےہی نہیں ہیں ، کماھو ثابت فی الکتب

تو اگر رب رحیم و کریم اپنے محبوب بارگاہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے نام پاک کی برکت سے نکیرین کے جواب میں ” عبدالقادر “ کہنےپر گناہگار کی مغفرت فرمادے تو اس کی رحمت سے کیا بعید ہے

غالبا اسی سے متاثر ہوکر مرید و خلیفہ اعلیحضرت مولانا جمیل الرحمن قادری بریلوی علیہ الرحمہ نے عرض کیاتھاکہ

لحد میں جب فرشتے مجھ سے پوچھیں گے تو کہہ دونگا
طریقہ قادری ہوں نام لیوا غوث اعظم کا

فتاوی شارح بخاری ، فتاوی فقیہ ملت اور فتاوی یورپ وغیرہ میں جو اس کے بےاصل ہونے کی بات کی گئی ہے تو ہوسکتاہے کہ عین دھوبی کے بارے میں ہو کہ اصل واقعہ تو فاسق کا ہے اور لوگ بیان کرتےہیں دھوبی کے بارےمیں ، نفس واقعہ کے انکار کی کوئی شرعی وجہ سمجھ میں نہیں آتی

ھذا ماتیسرلی والعلم الحقیقی عندربی
واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ ۔۔۔۔

محمدشکیل اخترقادری برکاتی
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیحضرت ، قربان شاہ ولی نگر ، صدرصوفہ ، ہبلی ، کرناٹک
٨ ربیع الثانی ١٤٤٢ ھ

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top