حضور کی آواز پر کسی نے آواز اونچی نہیں کی
اس کے متعلق مدلل و مفصل جواب ملاحظہ فرمائیں
تیسری(۳) بیشک سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر آواز کو اونچی کرنا سب نیکیوں کو برباد کرنا ہے‘ اور حضور کی آواز پر آواز کو بلند کرنا سخت گناہ ہے مگر اس واقعہ میں کسی نے ایسا نہیں کیا اور نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اور نہ کسی دوسرے صحابی نے۔ البتہ آپس کی گفتگو میں حضور کے سامنے ان لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ صحابہ کرام آپس کی بحثوں اور جھگڑوں میں حضور کے سامنے ایک دوسرے پر آوازیں بلند کرتے تھے نعرے لگاتے تھے اور حضور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ اس قسم کی بحثوں کے جائز ہونے کاقرآن کریم سے بھی دو طرح اشارہ ملتا ہے۔ اوّل یہ کہ قرآن کریم نے ان لفظوں کے ساتھ حضور کے سامنے آواز بلند
کرنے کو منع فرمایا ہے۔
لَاتَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔
نبی کی آواز پر اپنی آوزوں کو بلند نہ کرو۔
(ص ۲۶ ع ۱۳)‘ اور اس طرح منع نہیں فرمایا:
کجھر بعضکم لبعض
نبی کے پاس اپنی آوازوں کو آپس میں بلند نہ کرو۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کے ایک دوسرے پر آواز بلند کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ حضور کی آواز پر آواز بلند کرنا بربادی اعمال کا سبب ہے‘ اور پھر یہ کہاں سے ثابت ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آواز بلند کی۔ پہلے ان کا آواز بلند کرنا ثابت کیا جائے پھر اعتراض کیا جائے بہت ممکن ہے کہ مجموعی طور پر ایسا ہوا ہو اس لئے کہ جب بہت سے صحابہ حجرۂ مبارکہ میں حاضر تھے تو سب کی گفتگو سے آواز کا بلند ہونا یقینی ہے‘ اور یہ گناہ نہیں اور اگر یہ بھی گناہ ہو تو سب حاضرین یہاں تک حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ عنہما پر بھی یہ گناہ عائد ہو گا اور حضو کا ارشاد گرامی:
لاینبغی عندی تنازع
یعنی میرے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔
اسی بات کی تائید کر رہا ہے کہ یہ گناہ نہیں بلکہ خلاف اولیٰ ہے اس لئے کہ زنا جو بربادیٔ اعمال کا سبب نہیں ہے اس سے منع کرنے کے لئے بھی یوں نہیں کہا جاتا کہ زنا مناسب نہیں ہے‘ اور جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: قومواعنی یعنی تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاؤ تو یہ کلام ان اقسام میں سے ہے جو مرض کے سبب مریض سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ ذرا سی گفت وشنید کو برداشت نہیں کرتا اور پھر یہ خطاب تو سب حاضرین سے تھا جس میں لکھنے کا سامان لانے کی تاکید کرنے والے اور مخالفت کرنے والے دونوں شامل تھے تو صرف حضرت عمر ہی پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ حضرت عباس و حضرت علی اور دوسرے لوگوں پر کیوں نہیں کیا جاتا۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۵/۱۱۴)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند