خلع میں اگر مال کا ذکر نہ ہو تو وہ خلع ہوگا یا طلاق ہوگی ؟
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت نے درخواست میں لکھا کہ ” میرا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہے اس لئے میں اپنے شوہر سے اصول شرع کے مطابق خلع چاہتی ہوں “
اس کے جواب میں شوہر نے لکھا کہ ” میں نے اپنی منکوحہ فلانہ بنت فلاں کے تقاضے پر اصول شرع کے مطابق خلع کی صورت میں نکاح سے آزاد کیا یعنی خلع کیا “
مذکورہ درخواست اور قبولیت درخواست میں شرعاً خلع واقع ہوا یا نہیں ؟
شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
سائل ۔۔۔ عبدالرشید خان ، ہبلی کرناٹک
۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
یہ خلع نہیں ہوا بلکہ ایک طلاق بائن کی ہوسکتی ہے
کیونکہ مال کے بدلے نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں اور یہاں مال کا ذکر ہی نہیں ہے
چنانچہ امام کمال الدین ابن ھمام حنفی متوفی ۸۶۱ھ فرماتے ہیں
” إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع “
(فتح القدیر ، کتاب الطلاق ، باب الخلع ، ۳/۱۹۹ ، مطبوعہ : المطبعۃ الکبریٰ مصر ، الطبعۃ الاولی:۱۳۱۶ھ)
یعنی ، عوض کے ذریعہ لفظ خلع سے ملک نکاح کو ختم کرنے کا نام خلع ہے
اور امام بدرالدین محمود عینی حنفی متوفی ۸۵۵ھ فرماتے ہیں
” وأما معناه الشرعي فهو عبارة عن أخذ مال من المرأة بأن النكاح بلفظ الخلع “
(البنایۃ شرح الھدایۃ ، کتاب الطلاق ، باب الخلع ، ۵/۵۰۶ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۰ھ)
یعنی ، شرعاً خلع کو اس سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ (شوہر) لفظ خلع کے ساتھ نکاح کے مقابلے میں (نکاح ختم کرنے کے لیے ) عورت سے مال لے۔
اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
” خلع شرع میں اسے کہتے ہیں کہ شوہر برضائے خود مہر وغیرہ مال کے عوض عورت کو نکاح سے جدا کر دے “
(فتاوی رضویہ ، کتاب الطلاق ، باب الخلع ، رقم المسئلۃ : ۳۹ ، ۱۳/۲۶۴ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)
فلہذا جہاں عوض یعنی مال کا ذکر نہ ہو وہاں خلع بھی نہیں پایا جائےگا ، بلکہ وہ طلاق بائن کہلائےگی
چنانچہ امام علاؤالدین ابوبکر کاسانی حنفی متوفی ۵۸۶ھ فرماتے ہیں
” فإن كان بغير بدل؛ بأن قال : خالعتك ونوى الطلاق – فحكمه أنه يقع الطلاق “
(بدائع الصنائع ، کتاب الطلاق ، فصل حکم الخلع ، ۴/۳۲۵ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الثانیۃ:۱۴۲۴ھ)
یعنی ، بغیر عوض کے اس طرح کہا کہ میں نے تم سے خلع کیا اور نیت طلاق کی کی تو اس کا حکم یہ ہےکہ طلاق واقع ہوگی
فلہذا صورت مسئولہ میں خلع نہ ہونا ثابت ہوگیا ، رہ گئی یہ بات کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟ تو چونکہ عموماً لوگ خلع سے نکاح ختم کرنا ہی سمجھتے ہیں تو جب بیوی نے خلع کی درخواست پیش کی اور شوہر نے اسے پڑھا یا سنا اور پڑھ کر یا سن کر اسی وقت یا اسی مجلس میں اس پر دستخط کئے تو مذاکرہ طلاق پر خلع کا لفظ بولنا پایا گیا ، لہذا ایک طلاق بائن کا وقوع متعین ہوگیا یعنی ایک طلاق بائن پڑ گئی اور عورت اس کے نکاح سے نکل گئی کیونکہ لفظ خلع ہمارے نزدیک الفاظ کنایہ میں سے ہیں
امام کاسانی حنفی فرماتے ہیں
” أنه من كنايات الطلاق عندنا “
(بدائع الصنائع ، ۴/۳۱۱)
یعنی ، لفظ خلع ہمارے نزدیک طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہیں
اور الفاظ کنایہ سے وقوع طلاق کیلئے نیت یا مذاکرہ طلاق ضروری ہوتی ہے
چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں
” الكنايات (لا تطلق بها قضاء (إلا) بنية أو دلالة الحال . حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب “
(الدرالمختار ، کتاب الطلاق ، باب الکنایات ، ص۲۱۴ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)
یعنی ، الفاظ کنایہ سے طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب نیت ہو یا دلالت حال پائی جائے ، دلالت حال مذاکرہ طلاق یا غضب کی حالت کو کہا جاتا ہے
فلہذا جس طرح الفاظ کنایہ میں نیت طلاق سے طلاق واقع ہوتی ہے اسی طرح مذاکرہ طلاق سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے
چنانچہ امام فقیہ النفس قاضی خان حنفی متوفی ۵۹۳ھ فرماتے ہیں
” ولو قال في حالة مذاكرة الطلاق فارقتك أو باينتك ۔۔۔ يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء “
(فتاوی قاضی خان ، کتاب الطلاق ، فصل فی الکنایات والمدلولات ، ۱/۴۱۲ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی: ۲۰۰۹ء)
یعنی ، اگر کسی نے مذاکرہ طلاق کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تجھے جدا کیا ، میں تجھے بائنہ کیا ۔۔۔ تو طلاق واقع ہوجائےگی ، اگرچہ کہے کہ میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی قضاء اس کی بات نہیں مانی جائےگی
اور اگر بیوی کی طرف درخواست خلع آنے کے بعد پڑھ کر فوراً یا اسی مجلس میں قبولیت کا اظہار نہیں کیا اور قبولیت نامہ پر دستخط نہیں کئے بلکہ مجلس بدلنے کے بعد یا دو چار دن کے بعد قبولیت کا اظہار کیا اور مذکورہ نام نہاد خلع نامہ پر دستخط کیا تو مذاکرہ طلاق نہیں پایا گیا ، فلہذا اب نیت درکار ہوگی ، اگر اس نام نہاد خلع نامہ پر دستخط کرتے وقت شوہر کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ صورت میں خلع نہیں ہوا ہے بلکہ بشرط مذاکرہ طلاق یا نیت طلاق ایک طلاق بائن ہوئی ہے ، اور اگر مہر وغیرہ شوہر کے ذمہ واجب الاداء تھا تو اس نام نہاد خلع کی وجہ سے وہ بھی ساقط نہیں ہوا ہے بلکہ بدستور شوہر کے ذمہ ادا کرنا واجب ہے
امام کاسانی حنفی فرماتے ہیں
” ولا يسقط شيء من المهر “
(بدائع الصنائع ، ۴/۳۲۵)
یعنی ، اس صورت میں کچھ بھی مہر ساقط نہیں ہوگا
مسلمانوں کو چاہئے نکاح وطلاق اور خلع وغیرہ کے مسائل سیکھیں اور شرعی طریقہ پر عمل پیرا ہوں
ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۱۰/ ربیع الاوّل ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۶/ ستمبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح ،عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی ،شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ أھل السنۃ( باکستان) کراتشی
الجواب صحیح
مفتی جنید صاحب قبلہ
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف نعیمی……..
الجواب صحیح
مفتی شہزاد نعیمی صاحب
الجواب صحیح
مفتی ملک کاشف مشتاق نعیمی صاحب
الجواب الصحیح فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح
مفتی عمران صاحب قبلہ