سورۂ ھود میں لفظ اخ سے کیا مراد ہے؟حدیث مبارکہ میں لفظ اخ کیا سب کو شامل ہے؟حدیث اول ما خلق اللہ نوری کا راوی کون ہے؟کیا لفظ نور لفظی اور اصطلاحی دو معنی رکھتا ہے؟لفظ نور کے متعلق تفصیلی معلومات

سورۂ ھود میں لفظ اخ سے کیا مراد ہے؟
حدیث مبارکہ میں لفظ اخ کیا سب کو شامل ہے؟
حدیث اول ما خلق اللہ نوری کا راوی کون ہے؟
کیا لفظ نور لفظی اور اصطلاحی دو معنی رکھتا ہے؟
لفظ نور کے متعلق تفصیلی معلومات

مسئلہ:
از محمد مصطفیٰ بھٹملی ضلع بستی
(۱)

وَاذْکُرْاَخَاعَادٍ اِذَا نَذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ الخ
پ ۲۲ رکوع ۳ سورۂ ہود
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا۔
وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا۔
وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا۔
ان آیتوں میں لفظ ’’اخ‘‘ سے کیا مراد ہے نیز حدیث پاک میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد لفظ ’’اخ‘‘ سے امت میں سے کسی کو یا سب کو کہیں ملتا ہے وہ عبارت کیا ہے‘ اور راوی کون ہے؟
(۲)

اوّل ماخلق اللہ نوری۔
انا نبی والادم بین الماء والطین۔
لولاک لما خلقت الافلاک
یہ تینوں ٹکڑے کیسے ہیں اور روایت اور سند کے اعتبار سے راوی ان تینوں کے کون سے لوگ ہیں اگر روایت صحیح ہے تو کوئی ان میں حدیث قدسی بھی ہے۔
نیز پھر لفظ ’’نور‘‘کا معنی کیا ہے؟
ساتھ ہی مخلوق ہے یا غیر مخلوق۔ ایک بات اور بھی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا نور، فرشتوں کا نور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور۔ یہ تینوں کیا معنی رکھتے ہیں؟ اگر حضور پاک کا نور مان لیا جائے تو یہ مجسم ہے یا غیر مجسم اس طرح مان لینے میں کوئی تنقیص تو لازم نہیں آتی یہ چند باتیں بحث وجنگ و جدال کے لئے نہیں پوچھی جا رہی ہیں بلکہ کبھی اس طرح کے لوگوں سے جو اپنے کو وہابی دیوبندی کہتے ہیں اور حضور پاک کی شان میں بے ادبی کرتے ہیں۔ ملاقات ہو جانے پر اپنا خیال ظاہر کرنے کے لئے اور بس‘ مجھے صحیح باتوں کی تلاش ہے۔

نوٹ:

نور کا لفظی اور اصطلاحی د و طرح کا معنی ہے‘ اور صرف لفظی یا صرف اصطلاحی۔

الجواب: (۱) آیات مذکورہ میں ’’اخ‘‘ سے مراد: ہم قوم ہے۔ حضرت امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت فرمائی جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے بعد پیدا ہونے والے بعض مخلصین مسلمانوں کو ازراہ کرم لفظ اخوان سے یاد فرمایا ہے۔ راوی حدیث سے منقول کلمات یہ ہیں
وَاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَاْتُوْا بَعْدَ
(ملاحظہ ہو مسلم شریف جلد اوّل ص ۱۲۷)
واضح ہو کہ وہابیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بھائی کہنا لکھنا اور کتابوں میں چھاپنا جائز ہے‘ بلکہ ملا رشید احمد گنگوہی نے تو فتاویٰ رشیدیہ میں اپنی طرف سے ایک حدیث گھڑ کر پیش کر دی ہے جیسا کہ وہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
چونکہ حدیث میں آپ (حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم)نے خود ارشاد فرمایا تھا کہ مجھ کو بھائی کہو بایں رعایت تقویت الایمان میں اس لفظ کو لکھا ہے
(فتاویٰ رشیدیہ کامل ص ۸۵ مطبوعہ کراچی پاکستان)
اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ
یہ مقام عبرت ہے کہ جب وہابیوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ورفعت گھٹانے اور حضور کو اپنا بھائی بنانے کے لئے کوئی ثبوت نہ مل سکا تو ان کے پیشوا گنگوہی نے اپنے جی سے ایک حدیث گھڑ کر اپنے فتاویٰ میں لکھ دی تاکہ وہابیت کے پجاریوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ جب خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ مجھ کو بھائی کہو تو ہم لوگ ضرور حضور کواپنا بھائی کہیں گے
(معاذ اللہ تعالیٰ)
واضح ہو کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بعض انبیائے کرام کی بعثت کا ذکر فرماتے ہوئے ان کو ان کی قوموں کا ’’اخ‘‘ قرار دیا۔
مثلاً اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا
یعنی قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے ہم نسب اور ہم قوم ہود کو بھیجا
تو آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ الصلاۃ والسلام کا نسب ظاہر کرنے کے لئے ’’اخ‘‘ کا کلمہ استعمال فرمایا ہے۔ یوں ہی مسلم شریف کی حدیث میں ہے سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شفقت کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے بعض مخلص مسلمانوں کو لفظ اخوان سے یاد فرمایا ہے۔ سرکار اقدس حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت کریم و مہربان ہیں۔ بطور تواضع جس کلمہ کو چاہیں اپنے حق میں استعمال فرمائیں۔ خود ملا رشید احمد گنگوہی ہی نے براہین قاطعہ میں اپنے آپ کو احقر الناس لکھا ہے پھر کیا گنگوہی کے کسی گستاخ شاگرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یوں کہے کہ ہمارے مولانا گنگوہی صاحب احقر الناس تھے۔ اگر حق حاصل نہیں ہے تو کیوں جبکہ خود گنگوہی ہی نے اپنے آپ کو احقر الناس لکھا ہے تو ان کو احقر الناس کیوں نہ کہا جائے۔ اس جگہ گنگوہی کے ماننے والے یہی کہیں گے کہ حضرت مولانا گنگوہی صاحب نے چونکہ بطور تواضع اپنے آپ کو احقر الناس لکھا ہے اس لئے دوسرا کوئی شخص اس کلمے کو ان کے حق میں نہیں بول سکتا پھر مسلمانوں کی طرف سے بھی یہی جواب ہے کہ یہ سرکار افضل المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے مخلصین امت کو بطور تواضع کلمۂ اخوان سے یاد فرمایا ہے اس لئے وہابی دیوبندی ملحد و زندیق کو ہرگز ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ حدیث شریف کی آڑ لے کر سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بھائی بنائے۔
(۲) وہابیوں کے مشہور و معروف ادارہ ’’کتب خانہ رشیدیہ دہلی‘‘ نے مولوی محمد ابراہیم دہلوی وہابی کی کتاب احسن المواعظ چھپوا کر شائع کی ہے۔
اسی کتاب مذکور کے ص ۲ میں مولوی محمد ابراہیم دہلوی نے بحوالۂ المواہب الدنیہ زرقانی شرح مواہب تاریخ الخمیس۔ تاریخ انس الجیل لکھا ہے:
عن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اوّل ماخلق اللہ نوری۔
یعنی سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو چیز اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ میرا نور ہے
وہابیوں کے پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی ہی نے اپنے فتاویٰ رشیدیہ مطبوعہ کراچی ص ۱۵۷ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حدیثیں (یعنی اوّل ماخلق اللّٰہ نوری اور لولاک لما خلقت الافلاک) کتب صحاح میں موجود نہیں ہیں مگر شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے اوّل ماخلق اللہ نوری نقل کیا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے
فقط واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
بندہ رشید احمد گنگوہی۔
علامہ فاسی مغربی کی تصنیف مطالع المسرت شرح دلائل الخیرات میں ہے:
قد قال الاشعری انہ تعالٰی نور لیس کالا نواروالروح النبوۃ القدسیۃ من لمعۃ نورہ والملئکۃ شررتلک الانوار وقال صلی اللہ علیہ وسلم اوّل ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیء عنی
سیّدنا ابوالحسن اشعری قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نور ہے نہ اور نوروں کے مانند اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اقدس اسی نور کی تابش ہے‘ اور فرشتے ان نوروں کے پھول ہیں‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور بنایا اور میرے ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی۔ واضح ہو کہ حدیث اوّل ماخلق اللّٰہ نوری کی مؤید وہ حدیث شریف ہے جس کو سیّدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور سیّدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے استاد اور امام بخاری اور امام مسلم رضی اللہ عنہما کے استاذ الاساتذہ حافظ الحدیث عبدالرزاق ابوبکر بن ہمام نے اپنی تصنیف میں سیّدنا جابر بن سیّدنا عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت کیا۔قال قلت یارسول اللّٰہ بابی انت امی اخبرنی عن اوّل شیء خلقہ اللّٰہ تعالٰی قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللّٰہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ (الحدیث بطولہ) یعنی سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! میرے ماں باپ حضور پر قربان مجھے حضور بتا دیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کیا چیز بنائی۔ حضور نے فرمایا: اے جابر! بیشک تمام مخلوقات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ اس حدیث عبدالرزاق کو امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نحوہ روایت کیا ہے۔ بالجملہ حدیث اوّل ماخلق اللّٰہ نوری اکابر علماء کی تصانیف میں بلاتکسیر شائع و ذائع ہے۔ اس حدیث کو علماء متقدمین و متاخرین کے درمیان قبول تام کا منصب جلیل حاصل ہے۔ علماء وہابیہ نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے‘ اور تلقی علماء بالقول وہ شیء عظیم ہے۔ جس کے بعد کسی سند کی حاجت نہیں رہتی بلکہ سند ضعیف بھی ہو تو حرج نہیں کرتی۔ نور عرف عام میں ایک کیفیت کا نام ہے کہ نگاہ پہلے اسے ادراک کرتی ہے‘ اور اس کے واسطے سے دوسری اشیاء دیدنی کو‘ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہئے کہ نور، ضیاء، روشنی، چمک، جھلک،اجالا کو کہتے ہیں۔ علامہ سیّد شریف جرجانی اپنی کتاب التعریفات میں لکھتے ہیں: النور کیفیۃ تدرکھا الباصرۃ اولا بواسطتھا المبصرات ور بایں معنی ایک عرض حادث ہے محققین کے نزدیک نور کی یہ تعریف ہے: الظاھر بنفسہ والمظھر لغیرہ کما ذکرہ الامام حجۃ الاسلام الغزالی ثم العلامۃ الزرقانی
(شرح المواھب)۔
۔ یعنی نور وہ ہے جو کہ خود ظاہر ہو اور دوسروں کا مظہر۔
قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے:
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔
دوسری جگہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔
اس آیت کریمہ میں نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ملاحظہ ہو تفسیر جلالین مطبوعہ کراچی قرآن مجید نے جس طرح ذات الٰہی جل جلالہ کے لئے رحیم کا کلمہ استعمال کیا اور وبالمؤمنین رؤف رحیم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی نور کا کلمہ استعمال کیا یونہی اللہ تعالیٰ کے لئے نور کا کلمہ آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی نور کا کلمہ استعمال ہوا ہے۔ پھر جس طرح رحیم بمعنی ذات الٰہی خالق ازلی، ابدی ہے‘ اور رحیم بمعنی ذات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق حادث ہے یونہی نور بمعنی ذات قدوس سبوح غیرمخلوق ہے‘ اور نور بمعنی ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق حادث ہے۔
(الف) ’’اللہ کا نور‘‘ یہ فقرہ جب اضافت بیانیہ کے معنی میں ہو تو نور سے مراد خود ذات الٰہی ہے جو کہ نور حقیقی، ازلی، ابدی ہے‘ اور اگر یہ فقرہ اضافت بمعنی لام ہو تو نور سے مراد حسب استعمال متعدد چیزیں ہو سکتی ہیں مثلاً جلوہ، تجلی، دین اسلام، کتاب الٰہی، شرائع، دین وغیرہ۔
(ب) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور‘‘ یہ فقرہ بھی جب اضافت بیانیہ کے طور پر ہو گا تو نور سے مراد خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے جیسا کہ اوّل ماخلق اللّٰہ نوری اور ان اللّٰہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک
یں نوری اور نورنبیک سے مراد خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جب یہ فقرہ اضافت لامیہ کے معنی میں ہو تو اس وقت نور سے مراد چمک، دمک اور روشنی ہے۔
(ج) ’’فرشتوں کا نور‘‘ اس فقرہ میں نور سے مراد چمک اور روشنی ہے۔
نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم جب تک عالم امر میں جلوہ گر تھا اس وقت وہ جو ہر غیر مجسم تھا پھر جب باذن الٰہی عالم شہادت کی طرف تشریف آوری کی تیاری ہوئی تو لباس بشریت سے متمثل ہوا اور نور مجسم بن کر رونق افروز ہوا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں اور نہ صرف نور بلکہ منیر بھی ہیں اور جو انکار کرے اورکہے کہ حضور منیر نہیں ہیں۔ وہ کافر مرتد ہے ملحد وزندیق ہے۔ قرآن عظیم کا منکر ہے اس لئے کہ قرآن مجید نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سراجاً منیراً کا اعلان کیا ہے۔ ظلمت جہالت سے جن کا ذہن مملو و مشحون ہے ان کے نزدیک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نور مان لینے سے تنقیص لازم آتی ہو گی لیکن وہ لوگ جن کا قلب نور ایمان سے روشن ہے ان کے نزدیک حضور کو نور ماننے میں حضور کی شان و عظمت کا اعتراف ہے۔
وللّٰہ الحمد اوّلا واخرًا۔ قولہ انا نبی والادم بین الماء والطین۔
یہ حدیث تصانیف علماء میں انا اور الآدم (معروف باللام) کے ساتھ مستعمل نہیں ہے بلکہ یوں مذکور ہے:
کنت نبیا وآدم بین الماء والطین۔
حضرت امام ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو قوی قرار دیا ہے۔
ملاحظہ ہو موضوعات کبیر مطبوعہ مجتبائی دہلی ص ۵۴ اور حضرت ملا علی قاری نے حدیث مذکور کی شاہد یہ حدیث پیش کی ہے: کنت نبیا واٰدم بین الروح والجسد
اس حدیث کو امام احمد اور امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت میسرۃ الضخر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے‘ اور حاکم نے اس کوصحیح قرار دیا ہے۔
ملاحظہ ہو موضوعات کبیرہ ص ۵۴۔
لولاک لما خلقت الافلاک یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ناقدین حدیث کے نزدیک ثابت نہیں۔ ہاں اس کا معنی دوسری معتبر حدیث سے ضرور ثابت ہے۔
چنانچہ دیلمی نے حدیث لولاک بروایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً یوں نقل کی ہے:
اتانی جبریل فقال ان اللّٰہ یقول لولاک ماخلقت الجنۃ ولولاک ماخلقت النار۔
یعنی حضور سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے پاس جبریل نے حاضر و کر عرض کی: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اے پیارے رسول!) اگر تم نہ ہوتے تو میں جنت کو نہ بناتا اور اگر تم نہ ہوتے میں دوزخ کو نہ بناتا‘ اور ابن عساکر نے بروایت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث نقل فرمائی جس کے آخر میں یہ ہے لولاک ماخلقت الدنیا یعنی اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے پیارے نبی! اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو نہ بناتا۔
جس حدیث کا متن قول ربانی اور ارشاد الٰہی ہو اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔
دیلمی اور ابن عساکر کی تخریج کرد ہ دونوں روایات حدیث قدسی ہیں
واللّٰہ تعالٰی ورسولہُ الاعلی اعلم جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

استکتبہ:
عبدالرحمن المعروف بعلی حسن نعیمی الاشرفی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۱/۳۰/۲۹/۲۸/۲۷)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top