شادی کے بعد رخصتی ہونے سے پہلے شوہر کا انتقال ہوجائے تو عدت کا کیا حکم ہے؟
SHADI KE BAAD RUKHSATU HONE SE PAHLE SHOHAR KA INTEQAAL HOJAYE TO IDDAT KA KYA HUKAM HAI?
शादी के बाद रुखसती होने से पहले शौहर का इन्तेक़ाल हो जाये तो इद्दत का क्या हुक्म है?
ایک عورت اور مرد کا نکاح ہوا لیکن رخصتی نہیں ہوئی(عورت اپنے میکے ہی میں رہی) ، چندہ ماہ بعد عورت کا شوہر انتقال کرگیا ، عورت حاملہ بھی نہیں ہے ، اب اس عورت کےلیے کیا حکم عدت یا فورا دوسری شادی؟
(سائل:عثمان قادری گجرات)
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب:
صورت مسئولہ میں عورت پر چار مہینہ دس دن عدت گزارنا لازم ہوگا۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ ۔
یعنی:اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔
(سورۃ البقرۃ،آیت:۲۳۴)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:
“وعدة المتوفی عنها زوجها إذا کانت غیر حامل وهي حرة أربعة أشهر وعشرًا، یستوي في ذٰلک الدخول وعدم الدخول والصغر والکبر”.
(الفتاویٰ التاتارخانیة،ج: ۵،ص:۲۲۸ رقم: ۷۷۲۵)
در مختار مصری میں ہے:
(و) العدۃ(للموت أربعۃ اشھر و عشر مطلقا) وطئت او لا ولو صغیرۃ۔
یعنی: موت کی عدت مطلقا چار مہینہ دس دن ہے۔عورت سے وطی ہوئی یا نہیں،خواہ وہ نابالغہ ہو۔
(در مختار مصری،ج:۲،ص:۶۱۹)
مجمع الانھر استنبولی میں ہے:
(و) عدۃ الحرۃ ۔۔۔۔۔۔صغیرۃ او کبیرۃ ۔۔۔۔۔۔ (للموت فی نکاح صحیح أربعۃ اشھر و عشرۃ ایام)(مخلصا)۔
یعنی:آزاد عورت صغیرہ ہو یا کبیرہ کی عدت موت نکاح صحیح میں چار مہینہ دس دن ہے۔
(مجمع الانھر استنبولی،ج:۱،ص:۲۲۷)
فتاوی عالمگیری مصری میں ہے:
عدۃ الحرۃ صغیرۃ او کبیرۃ للموت فی نکاح صحیح أربعۃ اشھر و عشرۃ ایام (مخلصا)
یعنی:آزاد عورت صغیرہ ہو یا کبیرہ کےلئے عدت موت نکاح صحیح میں چار مہینہ دس دن ہے۔
(فتاوی عالمگیری مصری،ج:۱،ص:۴۱۳)
فتاوی عالمگیری مصری میں ہے:
عدۃ الحرۃ فی الوفاۃ أربعۃ اشھر و عشرۃ ایام سواء کانت مدخولا بھا او لا ۔۔۔۔۔ صغیرۃ او کبیرۃ او آیسۃ و زوجھا حر او عبد ۔۔۔۔۔۔۔ و لم یظھر حبلھا کذا فی فتح القدیر(مخلصا)
یعنی: آزاد عورت کے لئے وفات کی عدت چار مہینہ دس دن ہے خواہ وہ عورت مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ ہو صغیرہ ہو یا کبیرہ یا آئسہ( جس کے حاملہ ہونے کی امید ختم ہو گئی ہو) اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام۔ بشرطیکہ اس کا حمل ظاہر نہ ہو ایساہی فتح القدیر میں ہے۔
(فتاوی عالمگیری مصری،ج:۱،ص:۴۷۳)
فتاوی شامی میں ہے:
تحت (قولہ دخل بھا) ھو قید لغیر المتوفی عنھا لما مر، أن عدۃ الوفاۃ لا یشترط لھاالدخول الاخ۔
(فتاوی شامی،ج:۳،ص:۵۱۱)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں:
موت کی عدت چار مہینے دس دن ہے یعنی دسویں رات بھی گزرلے بشرطیکہ نکاح صحیح ہو دخول ہوا ہو یا نہیں دونوں کا ایک حکم ہے اگرچہ شوہر نا بالغ ہو یا زوجہ نا بالغہ ہو۔ یوہیں اگر شوہر مسلمان تھا اور عورت کتابیہ تو اس کی بھی یہی عدت ہے مگر اس عدت میں شرط یہ ہے کہ عورت کو حمل نہ ہو۔
(الجوھرۃ النیرۃ،کتاب العدۃ،الجزء الثانی،ص:۹۷،و غیرھا۔)
(بہار شریعت،حصہ:۸،ج:۲،ص:۲۳۷،عدت کا بیان)
حضرت العلام مولانا مفتی محمد خلیل خان قادری مارہروی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے یعنی:دسویں رات بھی گذرے بشرطیکہ نکاح صحیح ہو دخول ہوا ہو یا نہیں۔ دونوں کا ایک ہی حکم ہے اگرچہ شوہر نابالغ ہو یا زوجہ نابالغہ ہو۔
(احسن الفتاوی المعروف فتاوی خلیلیہ، ج: ۲،ص:۴۴۳،باب العدۃ)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ
بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے بشرطیکہ نکاح صحیح ہو دخول ہوا ہو یا نہیں نیز حاملہ نہ ہو۔
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی بانی و مہتمم تاج الشریعہ لائبریری نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 📱8390418344
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی