طلباء اسلام دینی تعلیم محبت سے حاصل کریں۔
ازقلم
محمد طاہرالقادری کلیم فیضی بستوی_*
سربراہ اعلیٰ مدرسہ انوار الاسلام
قصبہ سکندرپور ضلع
بستی یوپی ،،،،٢٦/ربیع الغوث ١٤٤٥
____________________
_*”عصر حاضر میں*_ اکثر طلبہ کے تعلیمی حالات ناگفتہ بہ اور انتہائی افسوسناک ہیں _
وہ اپنے والدین کی خواہش پر کسی “مدرسہ یا دارالعلوم” میں
داخلہ تو کروالیتے ہیں اور بادل ناخواستہ مدرسے میں
کسی طرح رہتے بھی ہیں
لیکن درسی کتابوں میں قطعاً دل نہیں لگاتے اور محنت سے نہیں پڑھتے ہیں —————–_*”ہاں*_ اگر کھیل کود کر کچھ یاد کرلیا تو ہوگیا
لیکن محنت سے اسباق یاد نہیں کرتے__________”علاوہ ازیں غیر حاضری بھی خوب کرتے ہیں اور کسی اچھی درسگاہ میں مستقل طور پر رہتے بھی نہیں بلکہ وہ اس مدرسہ میں
اس مدرسہ میں کود کاد کرکے تضیع اوقات کرڈ التے ہیں اور ان کو اس کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا ہے ،
_______________________”اور اگر کسی “طالب علم” کی آواز اچھی ہے اور وہ نغمہ وترنم والا ہے تو وہ “پروگرام کے چکر میں پڑا رہتا ہے اور “مدرسوں میں وہ درسی کتابوں پر برائے نام :____”کلام نعت و منقبت کی مشق وممارست میں زیادہ مصروف و محو رہتا ہے ،،،،،
چھوٹے مدارس کے ذمہ داروں کی مجبوری ہے اس لئے زیادہ سختی
نہیں کرپاتے ہیں کہ کہیں وہ بھاگ کر
دوسرے مدرسے میں نہ چلا جائے_!
اور ان کو “طلباء کی شدید ضرورت بھی ہے نہیں تو مدرسہ کیسے چلے گا ،اس لئے وہ بھی اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں ،—————-اورسوچتے ہیں کہ جیسے تیسے رہنے دو کم از کم ادارے میں طلبہ کی کچھ تعداد
تو بنی رہے گی ،
“موجودہ دور کے طلباء کی ان حرکتوں سے میری طبیعت بہت بیزار ہے _,
سوچتا ہوں کہ “الہی” ان کے مستقبل کا کیا ہو گا -؟
______”مدرسوں میں فری کا کھانا رہنے سہنے کا مناسب اور معقول انتظام بھی رہتا ہے اس لئے وہ خوب ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے گھر یا پروگرام میں چلے جاتے ہیں ،
اور ایک خرابی ان طلباء مدارس کےاندر
یہ بھی ہے کہ آئے دن _*”بیماری*_ کا بہانہ
بناکر آرام کرتے ہیں،
*”البتہ_* موبائل فون میں بھلے ہی سرگرم عمل اور اس میں بالکل جوجھے رہتے ہیں_,
_*”یہی وجہ ہے کہ*_ آج کل کے زیادہ تر
فارغین کے اندر قابلیت و استعداد نہیں رہتی ہے اگرچہ وہ اپنے نام کے ساتھ” علامہ ومفتی” کی پیوند کاری کریں _” ان کے اندر صلاحیت کا فقدان صاف نظر آجاتا ہے
اور ،ان کی تقریروتحریر سے بھی حقیقت کا اظہار ہوجاتا ہے _____________’
اور یہ “طالبان علوم دینیہ اپنے بڑوں اور _*”سینئیر علماء کرام*_ کا ادب ولحاظ کرنا یا تو جانتے ہی نہیں یا جانتے ہیں مگر کرنا نہیں چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا “سلام کرنے میں شاید وہ اپنی کسر شان سمجھتے ہیں یا انہیں شعور ہی نہیں اور یا تو “مدرسے والے ان کو بتاتے نہیں کہ “سلام میں کیا فائدہ ہے: اور کون کس کو سلام کرے، اور سلام کے بارے میں ہمارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا کیا فرمان ہے ،__________________
*”سلام کرنے کا مسئلہ _*,یہ ہےکہ چھوٹا بڑے کو، شاگرد استاذ کو، مریداپنے پیر کو ، آنے والا موجود لوگوں کو ،چلنے والا بیٹھے ہوئے کو پہلے سلام کرے،
“اساتذہ مدارس اس طرح کے مسائل اور اچھی باتوں کی تلقین شاید نہیں کرتے ہیں اس لئے طالب علم” سلام کے بھی چور ہوتے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”ایک بات اور میں نے نوٹ کی ہے کہ”جلسوں کے اسٹیج پر یہ آگے بڑھ بڑھ کر بیٹھے
رہتے ہیں اور ان سے بڑے اور ذی صلاحیت “علماء کرام” کو پیچھے جگہ ملتی ہے،
میرے خیال میں”طلباء کرام اگر کامیابی وترقی چاہتے ہیں تو وہ ہمیشہ اپنی اوقات، حد،
اور حیثیت کا خیال رکھیں اور مؤدب بن کر ر ہیں کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*”ا د ب ہی سے انسان، انسان ہے _*
*”ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے*
________
_*یہ “طلباء کو میری نصیحت ہے*_ اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو انہیں کا فائدہ ہوگا ،
” ہر طالب علم لڑکا دوران تعلیم’ دنیا کی د یگر چیزوں سے زیادہ علم دین سے محبت کرے اور اس کے حصول میں کوشاں وسرگرداں رہے اور محنت و توجہ اور کامل یکسوئی سے پڑھے،
کامیابی ،ترقی اور بھلائی اسی میں ہے ،
__*”اللہ کرے_* طلباء کے دلوں پر میری یہ
ناقص رائے اثر انداز ہو_*آمین ثم آمین بجاہ حبیبہ المصطفیٰ _*
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
——————+++———+++—————