عرب میں کافر ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
ARAB MEN KAFIR W MUSHRIK HO SAKTE HAIN YA NAHI?
अरब में काफिर व मुशरिक हो सकते हैं या नहीं
مسئله از : محمد رضوان ، ساکن بہافر گنج بازار ضلع بلرامپور، یوپی
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں : زید کہتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” إن الشيطـان قــد أئيس من ان يعبده المصلون في جزيرة العرب”
(مشكرة المصابيح، باب الايمان بالقدر، ج: 1، ص: 19)
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
إن الايمان ليارز الى المدينة كما تارز الحية الى جحرها۔
(الجامع الصحيح للبخاری، باب ان الايمان لبارز الى المدينة، ج ۱، ص: ۲۵۲)
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں لوگ کافر نہیں ہو سکتے اور ہمیشہ وہاں سچے اور صحیح مسلمان رہیں گے، بلکہ قیامت کے قریب بھی وہاں مسلمان رہیں گے۔ لہذا وہاں کے لوگوں کو گمراہ اور بد مذہب کہنا ان دونوں احادیث کا انکار کرنا ہے، اور وہاں اکثر اہل حدیث ہیں۔ لہذا اہل حق ہیں تو ان کو گمراہ کہنا خود گمراہ ہونے کی دلیل ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ مگر جواب میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ سائل کا منشا الزامی جواب سے نہیں ہے اور نا ہی وہ الزامی جواب کو مانتا ہے کیوں کہ اس کی تشفی الزامی جواب سے نہیں ہوگی۔
باسمه تعالى و تقدس”
الجواب بعون الملک الوهاب:
زید اپنے قول میں جھوٹا ہے، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مسیلمہ کذاب مدعی نبوت ہو کر کافر و مرتد ہوا اور بہت سے لوگ زکوۃ کے منکر ہو کر کافر و مرتد ہوئے اور وہ سب عرب کے رہنے والے تھے۔
حدیث پاک میں ہے “لما توفی النبی صلی الله تعالى عليه وسلم واستخلف ابوبكر وكفر، من كفر من العرب۔
یعنی جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر کر دئے گئے اور عرب کے کچھ لوگ کافر ہو گئے۔
(صحيح البخارى باب قتل من ابى قبول الفرائض ج: ۲، ص: ۱۰۲۳)
زید نے جن احادیث کو نقل کر کے یہ دعوی کیا ہے کہ لوگ عرب میں کافر نہیں ہو سکتے ہیں اور ہمیشہ وہاں بچے اور صحیح مسلمان رہیں گے تو ان سے ہرگز ہرگز زید کا دعویٰ ثابت نہیں ہو سکتا ہے کیوں کہ پہلی حدیث کا ترجمہ خود ایک وہابی مترجم نے کیا ہے کہ شیطان اس امر سے مایوس ہو گیا ہے کہ مصلی (مومن) جزیرۂ عرب میں اس کی عبادت کریں (یعنی بت پرستی میں بتلا ہوں) اور اسی وجہ سے وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑا پیدا کیا کرتا ہے۔
(ترجمه مشکوة ، مترجم وهابی مطبوعہ کراچی ، ج ۱، ص ۲۳)
وہابی کے اس ترجمے سے واضح ہو گیا کہ شیطان کی عبادت کا مطلب ہے بت پرستی میں مبتلا ہونا یعنی اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ جزیرۂ عرب کے مسلمان بت پرستی میں مبتلا ہوں، اس حدیث کے تحت محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: طیبی گفته مراد مصلین مومنانند و مراد بعبادت شيطان عبادت اصنام و اگرچه اصحاب مسيلمه ومانعى الزكوة براه ارتداد افتند اما عبادة اصنام نه کردند. یعنی علامہ طیبی علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ احادیث میں مصلیوں سے مراد مومن ہیں اور شیطان کی عبادت سے مراد بتوں کی پوجا ہے اور اگر چہ مسیلمہ کذاب کے ساتھی اور مانعین زکوۃ مرتد ہوئے لیکن ان لوگوں نے بتوں کی پوجا نہیں کی۔
( اشعة اللمعات، ج ۱، ص: ۸۳، مطبوعه سکهر)
اور اسی حدیث کے تحت ملا علی قاری علیہ رحمتہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:
فی الحدیث ائس من ان يعود أحد من المؤمنين الى عبادة الصنم ويرتد الى شركه في جزيرة العرب ولا يرد على ذلك بارتداد اصحاب مسيلمة وما نعى الزكوة وغيرهم ممن ارتد وابعد النبي صلى الله عليه وسلم لانهم لم يعبد وا الصنم یعنی حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں کوئی مومن بت پرستی کی طرف لوٹ کر شرک نہ کرے گا، اور اس پر مسیلمہ کے ساتھیوں اور مانعین زکوۃ وغیرہ کے مرتد ہونے کا اعتراض نہ پڑے گا، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے تھے ۔ اس لیے کہ ان مرتدوں نے بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔
(مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح، ج ۱، ص : ۱۱۸)
ان اقوال وارشادات سے مثل آفتاب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کا یہ مطلب ہے کہ اب عرب کے مسلمان اپنے دین سے پھر کر بت پرستی نہ کریں گے۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب وہاں کافر نہیں ہو سکتے جیسا کہ زید نے سمجھ رکھا ہے، اور قوم کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ نیز حدیث مذکور میں کوئی ایسا جملہ نہیں ہے جس کا ترجمہ اور مطلب یہ ہوتا ہو کہ عرب میں کافر نہیں ہو سکتے۔ یہ سراسر زید کا فریب اور دھوکہ ہے۔ ابھی اوپر مسیلمہ کذاب اور منکرین زکوۃ کے متعلق آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔
مزید اور سنیں۔ ۳۲۰ھ میں عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانہ میں قرامطہ نے مکہ معظمہ پر غلبہ حاصل کیا، مسجد حرام کے اندر ہزاروں حاجیوں کو قتل کر ڈالا، اور اتنے ہی پر بس نہیں کیا بلکہ مقدس حجر اسود پر اپنا گرز مار کر اس کو توڑ ڈالا، جس کی تفصیل علامہ اجل شیخ الاسلام امام یوسف بن اسماعیل نبھائی رحمتہ اللہ علیہ کی مایہ ناز تصنیف “حجۃ اللہ علی العلمین”، ج:۲، ص: ۸۲۹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ پھر خلیفہ معتصم باللہ کے دور ۶۵۴ھ میں مدینہ طیبہ پر رافضیوں کا قبضہ رہا۔ اسی زمانہ میں مسجد نبوی میں ایسی بھیانک آگ لگی کہ مسجد اور اس کی زیب وزینت کا تمام سامان خاکستر ہو گیا۔ خود مسجد نبوی کا امام اور قاضی شہر رافضی تھے، بلکہ حالات ایسے تھے کہ اہل سنت و جماعت کی کوئی کتاب مدینہ منورہ میں اعلانیہ نہیں پڑھ سکتا تھا۔ ان سب کی تفصیل علامہ سہمودی علیہ الرحمۃ کی تصنیف لطیف وفاء الوفاء ج : اص: ۴۲۹ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان تمام شواہد سے واضح ہوا کہ زمانہ موجودہ یا آئندہ میں اگر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ پر گمراہوں کا تسلط ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی کئی سالوں تک گمراہوں، مرتدوں اور بدمذہبوں کا وہاں قبضہ رہ چکا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ان کے ناپاک وجود سے اس مقدس سر زمین کو پاک کیا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عرب میں اب لوگ بت پرستی نہیں کریں گے۔ رہا کسی اور طرح سے کافر و مرتد ہو جانا تو حدیث میں کہیں نہیں ہے کہ عرب میں کا فرنہیں ہو سکتے بلکہ واقعات و شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ وہاں کافر و مرتد ہوئے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اب رہے نجدی وہابی تو یہ ایسے ظالم و جفا کار اور گستاخ خدا و رسول ہیں کہ جن کے ظلم وستم کی کہانی اور جن کے غلط اور باطل عقائد کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے دیوبندیوں کے شیخ الاسلام حسین احمد ٹانڈوی“ کی کتاب الشہاب الثاقب اور عالم اہل سنت علامہ مفتی عبد القیوم ہزاروی“ کی تصنیف ”تاریخ نجد و حجاز اور غیر مقلدوں کے مجدد نواب صدیق حسن بھوپالی کی ترجمان الوہابیہ” کا مطالعہ کریں۔ حقیقت خود بخود واضح ہو جائے گی۔ بطور اختصار ان کے متعلق تحریر ہے کہ وہابی وہ قوم ہے جو صرف اپنے کو مسلمان سمجھتی ہے، اور جو لوگ اس کے عقائد باطلہ کی موافقت نہیں کرتے ہیں، انہیں کافر و مشرک سمجھتی ہے۔ اس لیے یہ لوگ اہل سنت و جماعت کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔ چنانچہ دیوبندی شیخ الاسلام حسین احمد ٹانڈوی نے لکھا ہے محمد بن عبد الوہاب نجدی ابتداء تیرہویں صدی نجد عرب سے ظاہر ہوا، اور چوں کہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا، اس لیے اس نے اہل سنت و الجماعت سے قتل و قتال کیا، ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا ۔
رہا، ان کے اموال کو غنیمت کا مال سمجھتارہا اہل حرمین کو خصوصاً اور اہل حجاز کو عموماً اس نے تکلیف شاقہ پہنچائی، سلف صالحین اور انبیا کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کیے۔ بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
(الشهاب الثاقب على المسترق الكاذب، ص: ۴۲ )
مزید ان کی گمراہیوں کو جاننے کے لیے مندرجہ بالا کتب کا مطالعہ کریں۔
الحاصل وہابی بلاشبہ ایک گمراہ اور بد مذہب فرقہ اور انگریزوں کا پیدا کیا ہوا ایک فتنہ ہے جس نے جبرا حرمین شریفین پر قبضہ جمارکھا ہے، وہاں پر قبضہ و تسلط جما لینا حق ہونے کی دلیل ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی۔ ورنہ ماننا پڑے گا کہ ابوطاہر قرمطی اور رافضی جنہوں نے حرمین شریفین پر قبضہ کیا تھا وہ سب برحق ہوں، حالانکہ وہ یقینا کافر و مرتد گمراہ و بد مذہب تھے، تو جس طرح ان لوگوں کا حرمین کریمین پر قابض ہو جانا ان کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہے، یوں ہی وہابیوں کا قابض ہونا بھی قطعا ان کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔ اور زید نے جو دوسری حدیث شریف پیش کی ہے اس سے بھی وہابیوں کا حق ہونا ثابت نہیں ہے کیوں کہ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ایمان مدینہ طیبہ میں سمٹ کر رہ جائے گا، اور ظاہر ہے کہ یہ حدیث آج کل کے حالات پر صادق نہیں آسکتی ، ورنہ لازم آئے گا کہ پوری دنیا کے مسلمان صاحب ایمان نہ ہوں حتی کہ مکہ شریف اور نجدیوں کے دارالسلطنت ریاض میں بھی کوئی مسلمان نہ ہو کہ ایمان صرف مدینہ شریف میں رہے گا۔ اس لیے اس حدیث کا مطلب محدثین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ قرب قیامت اور دجال کے نکلنے کے وقت ایمان مدینہ شریف میں رہ جائے گا۔ چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں۔
اصح آنست که از زمانه خروج دجال که جز در مدینہ مطہرہ علم دین دران زمانه موجود نه باشد۔
یعنی:صحیح تربات یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ خبر دی گئی ہےکہ دجال کے نکلنے کے وقت علم دین صرف مدینہ شریف میں رہے گا۔
(اشعة اللمعات، ج: اص : ۱۲۵)
لہذا زید کا اپنی حقانیت کے ثبوت پر اس حدیث کو پیش کرنا سراسر اس کی جہالت و حماقت ہے اور بھولے بھالے عوام کو دھوکہ دینے کا ایک حربہ ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہےکہ ایسے لوگوں سے سخت پرہیز کریں اور ان کی باتوں کو ہرگز ہرگز نہ سنیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
الجواب صحیح: محمد قدرت اللہ الرضوی سابق صدر المدرسین دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی
كتبه: محمد اختر حسین قادری ۸/ جمادی الاخر و ۱۴۲۲ھ
(فتاوی علیمیہ،ج:۲،ص:۲۴۳سے ۲۴۶)
از قلم:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 8390418344