علاج کیلئے ڈاکٹر کے کہنے پر اپنے ہاتھ سے منی نکال کر دینے کا شرعی حکم

علاج کیلئے ڈاکٹر کے کہنے پر اپنے ہاتھ سے منی نکال کر دینے کا شرعی حکم
ا__(💚)_____
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
زید کو ایک ایسی بیماری لاحق ہے یعنی اس کی مردانہ قوت ختم ہوگئی ہے بیماری کی وجہ سے ،  اس بیماری کے علاج کے لیے ایک مسلم ڈاکٹر نے اس سے اس کا منی طلب کیا تو اب ایسی صورت میں منی کا حاصل کرنا مشت زنی ہی کے ذریعے ممکن ہے کیونکہ زید غیر شادی شدہ ہے تو کیا ایسی صورت میں زید کو یہ فعل یعنی مشت زنی  کرنے کی اجازت ہے؟؟
نوٹ بقول ڈاکٹر بغیر اس صورت (یعنی منی کے بغیر )کو اختیار کئے ہوئے علاج ممکن نہیں۔
جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں،

*متعلم*: دارالعلوم غوثیہ حضوریہ اعظم گڑھ یوپی
ا__(💚)_____
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

محض حصول لذت کیلئے #استمناءبالید ناجائز و حرام ہے

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

*” فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ “*

*(#القرآن_الکریم ، ۷۰/۳۱)*
ترجمہ: تو جو ان دو (منکوحہ بیوی اور مملوکہ باندی)کے سوا اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ،

اور حدیث پاک میں ہے

*” ناکح الید ملعون “*

*📔(#الاسرارالمرفوعۃفی_الاخبارالموضوعۃ ، حرف النون ، رقم الحدیث: ۵۶۹ ، ص۳۶۰ ، مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۰۶ھ)*
ترجمہ: جلق لگانے والے پر اللہ کی لعنت ہے

اسی لئے فقہائے کرام رحمھم اللہ نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ اپنے ہاتھ سے حصول لذت کیلئے منی نکالنا حرام ہے

چنانچہ علامہ محمد بن پیرعلی آفندی برکلی حنفی متوفی۹۸۱ھ اور علامہ عبدالغنی نابلسی حنفی متوفی۱۱۴۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️” وقد نص العلماء على تحريم الاستمناء باليد الا ان يكون بيد الحليلة “*

*📔(#الحدیقۃالندیۃ ، الصنف السابع من الاسباب التسعۃ فی بیان آفات الفرج ، ۲/۴۹۲، مطبوعۃ المکتبۃ الرضویۃ لائلپور)*
یعنی ، ہمارے علماء  استمناء بالید کی حرمت کی صراحت فرمائی ہے ، مگر یہ کہ بیوی کے ہاتھ سے ہو ،

البتہ اگر تین شرطیں پائی جائیں تو جائز ہے ، اور تینوں میں سے ایک شرط بھی مفقود ہوتو حرام ہے کہ اذا فات الشرط فات المشروط

پہلی شرط یہ ہے کہ بیوی نہ رکھتاہو اور ہی نکاح کرنے کی قدرت ہو ، دوسری یہ کہ شہوت کا غلبہ ایسا ہوکہ زنا میں پڑ جانے کا ظن غالب ہو اور تیسری شرط یہ ہےکہ تسکین شہوت مقصود ہو نہ کہ حصول لذت

چنانچہ علامہ محمد بن پیرعلی آفندی برکلی حنفی اور علامہ عبدالغنی نابلسی حنفی فرماتے ہیں

*🖋️” يجوز(عند) وجود (شروط ثلاثة )الاول ( ان يكون ) فاعل ذلك (عزبا) اى ليس له زوجة ولاامة ولابد ان يكون لا قدرة له على التزوج اوالتسري فان الشيطان يتلاعب بخواطره الشهوانية ، و) الشرط الثاني ان يكون فاعل ذلك (  بشبق) یقال شبق الرجل شبقا فهوشبق من باب تعب هاجت  بشهوة النكاح وامر أنشبقة وربما وصف غير الانسان به كذافى المصباح(وفرط ) ای کثرة(شهوة)ای افراغ النطفة بحيث لولم يفعل ذلك لحملته شدة الشهوة على الزنا واللواط ، والشرط الثالث (ان یرید بہ )اي بذلك الفعل(تسكين الشهوة ) الثائرة عليه مخافة الوقوع في الحرام (لا ) یريدبذلك ( قضاءها )اى الشهوة ومجرد وجود ! اللذة بذلك “*

*📔(#الحدیقۃالندیۃ ۲/۴۹۱ ، المکتبۃالنوریۃ الرضویۃ ، لائلپور)*
یعنی، تین شرطیں پائی جائیں تو جائز ہے ، اول یہ کہ فاعل نہ بیوی والا ہو نہ مملوکہ باندی والا ، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ شادی ونکاح پر قدرت نہ رکھتا ہو ، کیونکہ شیطان خواطر شہوانیہ کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے ، دوسری شرط یہ ہے کہ ایسا کرنے والا فرط شہوت سے تنگ آگیا ہو بایں طور کہ نہ کیا تو شدت شہوت سے زنا یا لواطت میں پڑ جائےگا ، اور تیسری شرط یہ ہے کہ صرف لذت مقصود نہ ہو بلکہ ایسی شہوت کی تسکین مقصود ہو جو حرام تک لے جانے والی ہے ،

اگر واقعی صورت حال ایسی ہو تو امید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا

چنانچہ امام فخرالدین زیلعی حنفی متوفی۷۴۳ھ  فرماتے ہیں

*🖋️” وان قصد بہ تسکین مابہ من الشھوۃ یرجی ان لایکون علیہ وبال “*

*📔(#تبیین_الحقائق ، کتاب الصوم ، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ ، ۱/۳۲۳، مکتبہ امدادیہ ملتان)*

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️” ہاں اگر کوئی شخص جوان تیز خواہش ہو کہ نہ زوجہ رکھتا ہو نہ شرعی کی اور جوش شہوت سخت مجبور کرے اور اس وقت کسی کام میں مشغول ہو جانے یا مردوں کے پاس جابیٹھنے سے بھی دل نہ بنے غرض کسی طرح وہ جوش کم نہ ہو یہاں تک کہ یقین یا ظن غالب ہو جاۓ کہ اس وقت اگر یہ فعل نہیں کرتا تو حرام میں گر فتار ہو جاۓ گا تو ایسی حالت میں زنا ولواطت سے بچنے کے لئے صرف بغرض تسکین شہوت نہ کہ بقصد تحصیل لذت و قضاۓ شہوت اگر یہ فعل واقع ہو تو امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی مواخذہ نہ فرماۓ گا۔ پھر اس کے ساتھ ہی واجب ہے کہ اگر قدرت رکھتا ہو فورا نکاح یا

خریداری کنیر شرعی کی فکر کرے ورنہ سخت گنہگار و مستحق لعنت ہوگا۔ یہ اجازت اس لئے نہ تھی کہ اس فعل نا پاک کی عادت ڈال لے اور بجاۓ طریقہ پسند ید و خد اور سول اسی پر قناعت کرے “*

*📔(#فتاوی_رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، النظر والمس ،رقم المسئلۃ:۸۵ ، ۲۲/۲۰۲، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

فلہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعی زید کو یہ مرض ہے اور ماہر فن و معتمد ڈاکٹر نے یہی علاج تجویز کیا ہے ، یا آلات جدیدہ ، مشینوں وغیرہ کے رپورٹ سے یہی پائیدار علاج سامنے آیا ہے
تو اولا اگر زید شادی کرسکتا ہو تو پہلے شادی کرے پھر بیوی کے ہاتھ سے منی نکال کر ڈاکٹر کو دے ، جیساکہ قدرت علی التزوج والتسری کی قید سے ظاہرہے

اور اگر پہلے شادی نہ ہوسکے تو اب چونکہ حصول اولاد بھی مقصود نکاح ہے

جیساکہ امام زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️” انه سبب لصيانة النفس عن الفاحشة ولصيانة نفسها عن الهلاك بالنفقة والسكنى واللباس والحصول الولد الموحد “*

*📔(#البحرالرائق ، کتاب النکاح ، ۳/۸۶ ، شرکۃ علاؤالدین بیروت)*
یعنی، نکاح برائی سے نفس کی حفاظت اور نفقہ ، سکنی ، لباس کے ذریعہ عورت کی صیانت ، اور موحد بچے کے حصول کا سبب ہے ،

فلہذا اس مقصود کے حصول کیلئے نامردی کا یہ علاج ضرورت کے درجہ میں ہوگا ، اور چونکہ ضرورتیں محظور شرعی کو جائز کردیتی ہیں

جیساکہ علامہ ابن نجیم مصری فرماتے ہیں

*🖋️” الضرورات تبیح المحظورات “*

*📔(#الاشباہ_والنظائر ، الفن الاول ، القاعدۃ الخامسۃ ، ص۷۳ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۱۹ھ)*
یعنی، ضرورتیں ناجائز کو جائز کردیتی ہیں

اسی بنا پر امام علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی ۵۹۳ھ نے فرمایا

*🖋️” ويجوز  للطبيب أن ينظر إلى موضع المرض منها للضرورة ۔۔۔ فإن لم يقدروا يستر كل عضو منها سوى موضع المرض، ثم ينظر ويغض بصره ما استطاع “*

*📔(#الھدایۃ ، کتاب الکراھیۃ ، فصل فی الوطئ و النظر والمس ، ۷/۱۹۱ ، ادارۃ القرآن کراتشی ، الطبعۃالاولی: ۱۴۱۷ھ)*
یعنی ، طبیب کیلئے موضع مرض کو دیکھنا جائز ہے ضرورت کے تحت ۔۔۔  اگر عورت کے گھر والے عورت معالجہ نہ پائیں تو موضع مرض کے علاوہ سارے عضو چھپا دیں پھر طبیب موضع مرض کو دیکھے اور حتی الامکان نگاہیں جھکا کر رکھے ،

اور علامہ سید جلال الدین خوارزمی کرلانی حنفی متوفی ۸۰۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️” قولہ كنظر الخافضة والختان یعني أنهما ینظران الى العورة لاجل الضرورة لا الختان سنۃ و ھو من جملة الفطرة في حق الرجال لا يمكن تركها “*

*📔(#الکفایۃ شرح الھدایۃ ، کتاب الکراھیۃ ، باب الوطئ والنظر والمس ، ۴/۷۵ ، مطبع حیدری ممبئی)*
یعنی، شارح کا یہ قول کہ یہ مسئلہ دائی اور ختنہ کرنے والے کے مسئلہ کی طرح ہے : یعنی یہ دونوں ضرورت کی وجہ سے ستر عورت کی طرف دیکھیں گے ، اسلئے کہ ختنہ سنت ہے جو مردوں کے حق من جملہ فطرت میں سے ہے ، لہذا اس کا ترک ممکن نہیں ،

فلہذا اس کیلئے بھی اپنے ہاتھ منی نکال کر ڈاکٹر کو دینا مباح ہوگا ، کیونکہ جب سنت ختنہ کی ادائیگی کیلئے ایک ناجائز چیز جائز ہوگئی تو نامردی کے علاج کیلئے بھی استمناء بالید بضرورت جائز ہوگی

لیکن خیال رہے کہ جو چیز ضرورت شرعی کے تحت جائز ہوتی ہے وہ ضرورت بھر ہی جائز ہوتی ہے ، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہوتی

جیساکہ امام مرغینانی فرماتے ہیں

*🖋️” أن ما ثبت بالضرورة يتقدر بقدرها “*

*📔(#الھدایۃ ، ۷/۲۹۱)*

فلہذا ایک بار سے اگر علاج کی ضرورت پوری ہوجائے تو دوسری بار زید کے حق میں بھی حرام ہی رہےگی ۔

*ھذا ماظھرلی والعلم الحقیقی عندربی*
*والله تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💚)____
*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۱۷/جمادی الاول ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۲/دسمبر۲۰۲۲ء*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح*
*محمد عطاء اللہ نعیمی غفرلہ*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح*
*محمد جنید النعیمی غفر لہ*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*ابوآصف راجہ محمدکاشف مدنی نعیمی غفرلہ*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*ابوالضیاء محمد فرحان قادری نعیمی عفی عنہ*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*محمد شہزاد نعیمی غفرلہ*
*الجواب صحیح*
ا__(💚)____
*محمد عرفان نعیمی غفرلہ*
ا__(💚)____
*الحلقۃالعلمیۃ ٹیلیگرام گروپ*
ا__(💚)____

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top