قبر پر پانی(چونے کا) ڈالنا کیسا ہے؟
QABAR PAR PAANI (CHUNE KA) DALNA KAISA HAI?
क़बर पर पानी (चुने का) डालना कैसा है?
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
قبر پر چونے کا پانی ڈالنا کیسا ہے*
*مجھے دوسرے طرف کا پتہ تو نہی.. لیکن مہاراشٹر میں یہ رواج ہے کہ مردہ کو جب دفن کیا جاتاہے اُس کہ دوسرے دن یا تیسرے دن بعد نماز فجر لوگ اُس کی قبر پر زیارت کہ لیئے جاتے ہیں اور لوگ کھانے والا چونا یا دیوار کو لگانے والا چونا پانی میں بھیگو کر اس کے تمام قبر پر چھڑک دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی جاتی ہے پھر اس کے بعد فاتحہ خوانی ہوتی ہے*
*سوال یہ ہے کہ قبروں پر جو چونے کا پانی ڈالا جاتا ہے پانی ڈالنا کہاں تک صحیح ہے*
قرآن و احادیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
(سائل) محمد یوسف رضا مقام .. مانجرم .. تعلقہ.. نایئگاوں .. ضلع ناندیڈ مہاراشٹر*
*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب*
مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ
دفن کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا سنت ھے حضور اقدس رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو دفن کرنے کے بعد ان کی قبر پر پانی چھڑکا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر آپ کی قبر انور شریف پر بھی پانی چھڑکا گیا
حدیث شریف میں ہے
عن ابی رافع قال سل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعدا و رش علی قبرہ ماء
یعنی حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کو قبر میں سر کی جانب سے لٹایا اور ان کی قبر پر پانی چھڑکا
( ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی ادخال المیت القبر حدیث نمبر 1618 صفحہ 225 مطبوعہ جمعیۃ المرکزالاسلامی القاہرہ مصر)
عن جابر قال رش قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم و کان الذی رش الماء علی قبرہ بلال بن رباح بقربۃ بدأ من قبل رأسہ حتی انتھی الی رجلیہ
یعنی حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر پانی چھڑکا گیا اور پانی چھڑکنے کی خدمت حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشکیزہ سے اس طرح انجام دی کہ سرہانے کی جانب سے پانی چھڑکنا شروع کیا یہاں تک کہ قدموں تک آکر ختم کیا
( بیھقی فی دلائل النبوہ مشکاۃ المصابیح باب الخطاء علی المیت الفصل الثانی ص 149 مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
قبر پر پانی چھڑکنے میں چند حکمتیں ہیں
اس سلسلے میں حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور و معروف کتاب مرقاۃ شرح مشکاۃ میں ارشاد فرماتے ہیں
قال الطیبی لعل ذلک اشارۃ الی استنزال الرحمۃ الالھیۃ و العواطف الربانیۃ یعنی حضرت طیبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پانی چھڑکنے میں یہ حکمت ہے کہ اس فعل میں اللہ تعالی کی رحمت اور رب کریم کی مہربانیوں کے نازل ہونے کی طرف اشارہ ہے
ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قبروں پر تشریف لے جاکر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مختلف دعائیں اپنے رب سے مانگی ہے ان مقدس دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی ہے
اللھم اغسل خطایاہ بالماء و الثلج و البرد یعنی اے اللہ اس کے گناہوں کو پانی اور برف اور اولے سے دھو دے
اسی طرح بزرگان دین اور عظیم الشان علماء ملت اسلامیہ یہ دعا کرتے چلے آئے ہیں کہ اللہ تعالی اس کی قبر کو سیراب کرے اور اس کے لیٹنے کی جگہ(قبر) کو ٹھنڈا کرے
بعض حضرات نے پانی چھڑکنے کی یہ وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ پانی اس لئے چھڑکا جاتا ہے کہ قبر زیادہ دیر تک قائم رہتی ہے مٹی جم جاتی ہے اور قبر پختہ ہو جاتی ہے اور قبر کا نشان جلدی مٹتا نہیں
اسی طرح کے سوال کے جواب میں سرکار اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں دفن کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا مسنون ہے اگر عرصہ طویل گزرنے کی وجہ سے قبر کی مٹی منتشر یعنی ادھر ادھر ہو گئی ہے اور قبر پر ازسرنو مٹی ڈالی گئی ہے یا قبر کی مٹی منتشر ہوجانے کا احتمال ہے تو اب بھی قبر پر پانی ڈال سکتے ہیں تاکہ قبر کا نشان باقی رہے اور قبر کی توہین نہ ہونے پائے بہ علل فی الدر و غیرہ ان لا یذھب الاثر فیمتھن( کتاب در مختار میں بھی یہی علت بیان فرمائی گئی ہے کہ نشان مٹ جانے کے سبب بے حرمتی نہ ہو) اور اس کے لیے کوئی دن معین نہیں ہوسکتا ہے جب حاجت ہو تب ڈالے اور بے حاجت پانی ڈالنا پانی کو ضائع کرنا ہے اور پانی ضائع کرنا جائز نہیں
(فتاوی رضویہ مترجم ج9ص373)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا سے معلوم ہوا کہ دفن کے بعد قبر پر پانی ڈالنا مسنون ہے اور مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں صرف عام پانی کا ذکر ہوا نہ کہ کسی رنگ کی ملاوٹ کا بہتر ہے کہ صرف عام پانی ہی ڈالا کریں نیز رنگ والا بھی پانی استعمال کر سکتے ہیں اس بناء پر کہ قبر کی پہچان ہو جیساکہ بہار شریعت میں ہے قبر پر بطور علامت اور نشانی پتھر رکھنا مستحب ہے
(بہار شریعت حصہ 4 ص 846 قبر و دفن کا بیان مکتبۃ المدینۃ)
حضرت العلام مولانا مفتی محمد اشرف رضا صاحب قبلہ صدر مفتی ادارۂ شرعیہ مہاراشٹر بمبئی
قبر پر چونے کا پانی ڈالنے کے متعلق ایک نکتہ تحریر فرماتے ہیں کہ
چونےکا سفید پانی ڈالنے سے سفیدی دیرتک باقی رہتی ہے اور ممکن ہےکہ ڈالنے والے کا یہ گمان ہوکہ جس طرح اوپر سفید و روشن ہے اندر بھی اللہ کریم و رحیم عزوجل روشن کردے.
میں نےسنگم نیر ناسک کے قریب حضرت مولانا مشتاق احمد رضوی فاضل منظر اسلام بریلی شریف خطیب و امام جامع مسجد سنگم نیرکی قبر پر سفید چونا پڑاہوا دیکھا اچھالگا. اللہ عفوو غفورعزوجل مومنوں کی قبروں کو منور کرے رحمت و نور سے معمور کرے اور ہمارے سینے اور قلوب کو بھی گناہوں کے زنگ سے پاک اور پر نور فرمائے. آمین
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
*(بتاریخ ۱۹/ اگست بروز پیر ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
🔖ــــــــــــــــــ✿📿✿ـــــــــــــــــــ🏷
الجواب صحیح وصواب والمجیب نجیح ومثاب حضرت العلام مولانا مفتی محمد اشرف رضا صاحب قبلہ صدر مفتی ادارۂ شرعیہ مہاراشٹر بمبئی
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی حال جدہ
🔖ــــــــــــــــــ✿📿✿ـــــــــــــــــــ🏷