مرض جھولہ اور فالج والے کی امامت کیسی ؟
نسبندی کرانے والے کی امامت اور اس کی نماز جنازہ پڑھنا کیسا؟
مسئلہ: از جیش محمد قادری، متعلم دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف۔ بستی۔ زید ایک سنی درسگاہ کا طالب علم ہے۔ مسائل شرعیہ ضروریہ سے بخوبی آگاہ ہے۔ صحیح الطہارت اور صحیح القرأت ہے‘ مگر کمر سے پیر تک مرض جھولہ اور فالج کے باعث لاٹھی کے سہارے لنگڑاتے ہوئے چلتا ہے۔ نماز کا قیام اور رکوع تو سنت کے مطابق ادا کرتا ہے۔ لیکن سجدہ کی حالت میں بوجۂ مجبوری دائیں پاؤں کے انگوٹھے کا محض سرا لگتا ہے‘ اور دوسرے پیر کی چار انگلیوں کے صرف سرے لگتے ہیں پیٹ نہیں لگ پاتے باقی فرائض سنت کے مطابق ادا کرتا ہے تو ایسی صورت میں زید مذکور عالم اور غیر عالم کی امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟ زید کے پیچھے نماز پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج تو نہیں۔ بینوا بالدلیل توجروا الاجر الجزیل۔
الجواب: بعضے اعذارایسے ہیں جس میں معذور کی اقتداء صحیح اور درست ہے جیسے الاقتداء القائم بالقاعد والمتوضی بالمتیمم یعنی بیٹھ کر رکوع اور سجود کرنے والے کے پیچھے کھڑے ہو کر نما ز پڑھنے والے کی تیمم والے کے پیچھے وضو والے کی نماز کا درست ہونا۔ اسی طرح صورت مسئولہ میں زید چونکہ نماز کے بعض فرض یا واجب ادا کرنے سے مجبور اور معذور ہے۔ اس لئے اسے غیر عالم کی امامت کرنا تو بلاشبہ درست ہے رہا عالم کی تو اس میں بھی حرج نہیں لیکن صحت امامت کا جامع عالم صف میں موجود ہو تو اسی کو امام بنانا اولیٰ اور بہتر ہے۔ ھٰکذا فی فتاویٰ الرضویۃ ج ۳ ص ۲۲۶ ‘فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل ص ۷۹ خط مصری میں ہے:
ولوکان لقدم الامام عوج و قام علٰی بعضھا یجوز وغیرہ اولیٰ۔
یعنی امام کے پاؤں میں ایسا لنگ ہو کہ پاؤں کے بعض حصہ کے بل کھڑا ہوتا ہے پورا حصہ زمین پر نہیں جمتا تو اس کی امامت درست ہے‘ مگر دوسرا شخص (جو ایسا نہ ہو) وان بلغ حد بہ الرکوع علی المعتمد وکذا باعرج وغیرہ اولیٰ۔ یعنی قول معتمد کے مطابق کبڑی پیٹھ والے کی اقتداء درست ہے اگرچہ اس کا کبڑا پن قیام فرض کی شکل سے ہٹ کر رکوع کی صورت میں پہنچ چکا ہو ایسے ہی لنگڑے کے پیچھے نماز درست ہے مگر دوسرا شخص بہتر ہے۔ شامی جلد اوّل مطبوعہ دیوبند ص ۲۷۸ میں عبارت درمختار ومفلوج وابرص شاع برصہ کے تحت ہے: وکذا اعرج یؤم ببعض قدمہ فلاقتداء بغیرہٖ اولیٰ۔ یعنی فالج زدہ اور ظاہر برص والے کی طرح وہ لنگڑا شخص بھی ہے جو اپنے پیر کے بعض حصہ کے بل کھڑا ہوتا ہے پورا حصہ زمین پر نہیں جمتا تو ایسوں کی اقتداء اگرچہ درست ہے مگر دوسرا شخص اولیٰ اور بہتر ہے۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ وقت مجبوری جب پورا قیام فرض (کما فی الاحدب) اور استقراء علی الارض (کما فی الاعرج) حاصل نہ ہونے کی صورت میں بھی امامت درست ہے تو حالت سجدہ میں صرف انگوٹھا یا بعض واجب انگلیوں کا پیٹ زمین پر نہ لگنا صحت امامت کے لئے کب حرج بن سکتا ہے۔ بلاشبہ یہاں بھی امامت صحیح اور درست ہے اقتدا کرنے میں حرج نہیں۔ سوال مذکور میں زید کے متعلق فالج زدہ اور لنگڑا ہونا دو چیزیں بتائی گئی ہیں‘ اور دونوں کا حکم واضح ہو چکا۔ اب رہی یہ بات کہ ایسے لوگوں کی امامت تنزیہی کراہات میں شمار کی گئی ہے‘ اور کراہت تنزیہی بھی ایک قسم کی ہی مخلوط ہوتی ہے جس کے مطابق ایسے لوگوں کی امامت ممنوع کہی جا سکتی ہے‘ تو شرعی نقطہ فقہ سے ایسا خیال درست نہیں ہے کیونکہ مکروہ تنزیہی شرعاً ممنوع نہیں۔ کما تحقق فی فتاویٰ الرضویۃ جلد اوّل ص ۱۷۹ تا ص ۱۸۰مکروہ تنزیہی کا حاصل معنی خلاف اولیٰ ہوتا ہے۔ چنانچہ شامی جلد اوّل مطبوعہ دیوبند ص ۴۳۹ میں قول فقہاء نقل کیا ہے: المکروہ تنزیھا مرجعہ الی خلاف اولیٰ تو مسئلہ مذکور کی بابت حسب تصریحات فقہائے اعلام مطلب یہ ہوا کہ جماعت میں مذکورہ عذر رکھنے والوں سے بہتر دوسرا موجود ہو تو ان لوگوں کی امامت ناپسند اور خلاف اولیٰ ہے ورنہ خلاف اولیٰ بھی نہیں‘ بلکہ قوم میں اگر دوسرا لائق امامت نہ ہو اور یہ لوگ شرائط امامت کے مطابق ہوں تو امامت کے لئے یہی اولیٰ اور بہتر ہیں۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم جل مجدہ اتم واحکم وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ النبی الامی والہ وسلم۔
الجواب:صحیح والمجیب نجیح: غلام الجیلانی الاعظمی، الجواب صحیح: بدر الدین احمد قادریؔ رضویؔ۔
کتبہ العبد المسکین: محمد نعیم الدین عفا عنہ المعین الصدیقی القادری البرکاتی الرضوی،
الصدیقی القادری البرکاتی الرضوی، ۹؍ من ذی الحجۃ المکرمۃ المحرمۃ ۱۳۹۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۸۳/۲۸۲/۲۸۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند