مسجد میں داخل ہوتے وقت کس صورت میں سلام کرنا مکروہ ہے اور کس صورت میں مکروہ نہیں ہے ؟
ا__________
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد میں داخل ہونے پر سلام کرنا کیسا ہے ؟
یوٹیوب پر ایک مفتی صاحب کا بیان سنا کہ مسجد میں داخل ہونے پر سلام کرنا غلط ہے ، مکروہ اور خلاف سنت ہے ! کیا یہ بات درست ہے ؟
سائل ۔۔۔ مولا صاحب بینگیری ، ہبلی کرناٹک
ا__________
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
مطلقاً غلط اور مکروہ و خلاف سنت کہنا درست نہیں کیونکہ اگر مسجد میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو خالی بیٹھے ہوئے ہوں تو انہیں سلام کرنا نہ مکروہ ہے نہ خلاف سنت !
چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
” وإن دخل مسجداً وبعض القوم في الصلاة، وبعضهم لم يكونوا فيها يسلم، وإن لم يُسلَّم لم یکن تارکا للسنۃ “
(#ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ ، فصل فی البیع ، آداب الاستیذان فی دخول البیوت ، ۲۲/۱۲۴ ، تحقیق: صالح فرفور ، مطبوعہ دارالثقافۃ والتراث ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۴۴ھ)
یعنی ، کوئی آدمی مسجد میں داخل ہوا ، وہاں کچھ لوگ نماز میں ہیں اور کچھ لوگ نماز میں نہیں ہیں تو ایسی صورت میں داخل ہونے والا سلام کرےگا ، اور اگر سلام نہیں کیا تو بھی تارک سنت نہیں ہوگا
اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
” اگر کچھ لوگ خالی بیٹھے ہوں ان کو سلام کر سکتا ہے اور جو لوگ نماز یا تلاوت یا ذکر میں ہیں ان کو سلام کرنا مکروہ ہے “
(#فتاوی_رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، سلام و تحیت ، رقم المسئلۃ؛ ۱۹۳ ، ۲۲/۵۶۴ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)
البتہ اگر سارے لوگ نماز و تلاوت ، ذکر و اذکار ، اوراد و وظائف ، تعلیم و تعلم وغیرہ میں مشغول ہوں تو سلام نہ کرے کہ مکروہ ہے
چنانچہ امام برہان الدین محمود المعروف بابن مازہ مرغینانی حنفی متوفی ۶۱۶ھ فرماتے ہیں
” لا ينبغي لأحد أن يسلم على أحد، وهو يستمع لا وكذا على المؤذن والقارئ والمصلي، والفقيه إذا كان يفقه غيره، والقاضي إذا كان [ ينظر ] في حجج الخصمين، فإن سلم عليهم ردوا بعد الفراغ، قال الفقيه أبو جعفر – رحمه الله – ولقائل أن يقول : ليس عليهم الرد “
(#الذخیرۃ_البرھانیۃ المعروف بفتاوی الذخیرۃ ، کتاب الاستحسان ، الفصل السابع ، ۷/۲۶۸ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۰ھ)
یعنی ، یہ مناسب نہیں ہے کہ کسی کو خطبہ سننے ، اذان دینے ، قرات کرنے ، نماز پڑھنے ، علم فقہ سکھانے ، قاضی کے مقدمہ دیکھنے کی حالت میں سلام کرے ، اگر سلام کر بھی دے تو یہ لوگ فراغت کے بعد جواب دیں ، اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں پر جواب دینا واجب نہیں
اور علامہ ابن عابدین شامی حنفی فرماتے ہیں
” والظاهر أنه أعم، فيكره السلام على مشتغل بذكر الله تعالى بأي وجه كان “
(#ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها ، مطلب : المواضع التی یکرہ فیھا السلام ، ۴/۵۹ ، دارالثقافۃ والتراث)
یعنی ، ظاہر یہ ہے کہ ہر اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے جو کسی بھی طریقہ سے اللہ کے ذکر میں مشغول ہو
اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں
” وضو میں جواب دے ، اور وظیفہ و تلاوت میں جواب نہ دینے کا اختیار رکھتا ہے ، کہ اس حال میں اس پر سلام مکروہ ہے “
(#فتاوی_رضویہ ، ۲۲/۵۶۹ ، رقم المسئلۃ: ۲۰۲)
فلہذا مسجد میں داخل ہونے والے کو دیکھ لینا چاہئے کہ سب ذکر و نماز میں مشغول ہیں یا کچھ خالی بھی بیٹھے ہیں ، اگر سب ذکر و نماز میں مشغول ہوں تو سلام نہ کرے اور کچھ لوگ خالی بیٹھے ہوں تو کرسکتا ہے ،
یا پھر آہستہ آواز میں سلام کرے کہ کسی نمازی یا ذاکر کے ذکر و نماز میں خلل نہ ہو ، ایسی صورت میں بجائے ” السلام علیکم ” کے ” السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین ” کہے کہ ساتھی فرشتوں اور صالح جنات کو سلام ہوجائے
چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں
” فيكون مُسلّماً على الملائكة الذين معه، وصالحي الجن الحاضرين وغيرهم “
(#ردالمحتار ، ۲۲/۱۳۶)
یعنی ، ایسی صورت میں ساتھی فرشتوں اور صالح جن وغیرہ جو حاضر ہیں ان کو سلام ہوگا
یہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا مکروہ ہے بھی تو یہ ایسی کراہت نہیں کہ جس کے ارتکاب پر ڈانٹ ڈپٹ ، زجر و توبیخ یا لعنت و ملامت کی جائے جس پر یہی دلیل کافی ہے کہ ہمارے فقہائے کرام رحمہم اللّٰہ نے سلام کرنے پر کوئی سخت کلمہ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ مسلم علیہ کو فرمایا کہ چاہے تو فراغت کے بعد جواب دے دے ، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سلام کرنے پر اصرار کیا جائے کہ سلام کرنا درجہ استحباب میں ہے جس کیلئے فتنہ کھڑا کرنے کی بالکل اجازت نہیں
ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۷/ ربیع الاوّل ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۳/ ستمبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح
عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث و رئیس الافتاء بالجامعۃ النور اشاعت اہلسنت (پاکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
محمد جنید النعیمی غفر لہ ، المفتی بجامعۃ النور کراتشی
الجواب صحیح ، ابوآصف راجہ محمد کاشف النعیمی غفرلہ ، المفتی بدارالافتاء الھاشمیۃ کراتشی
الجواب صحیح ، مفتی عبدالرحمن قادری ، دارالافتاء غریب نواز لمبی جامع مسجدملاوی وسطی افریقہ
الجواب صحيح ، مفتي عبد الله الفهيمي ، دار الافتاء جامعة أنوار القرآن لاڑکانہ
الجواب صحیح ، محمد شہزاد النعیمی ، جامعۃ النور کراتشی
ماشااللہ سوال کا حق ادا کردیا بہت خوب
الجواب الصحیح فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح ، مفتی قاسم نعیمی اشرفی ، غوثیہ دارالافتاء کاشی پور ، اتراکھنڈ