موئے مبارکہ یعنی داڑھی شریف کے آداب؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ :
موئے مبارک کاادب و احترام کرنا ہر مسلمان پرضروری ہے؟ اوراس کے آداب وبرکات کیا ہیں؟مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔
(سائل:محمد فارق قادری کرناٹک)
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
’’باسمہ تعالی و تقدس‘‘
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب:
آثارشریفہ وموئے مبارک کی زیارت ایک بندۂ مؤمن کے لئے دنیاوآخرت کی سعادت ورحمت کا ذریعہ ہے ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ سے نسبت رکھنے والی ہرشئی کی تعظیم وتوقیراوراس کا ادب واحترام عین ایمان ہے ، ان میں سرمو فرق آجائے توایمان برباد ہوجاتاہے ، چنانچہ آثارشریفہ وموئے مبارک کی زیارت مقدسہ کے مسعود موقع پرکامل ادب واحترام ملحوظ رکھیں، ظاہری وباطنی طہارت وپاکیزگی کا مکمل اہتمام کریں ، قلب وضمیرکوہرقسم کے دنیوی افکاروخیالات سے پاک وصاف رکھیں ،باادب ، خمیدہ سر‘ کمال تواضع اورخشوع وخضوع کے ساتھ درودوسلام کا وِرد زبان پرہو اورقلب میں عظمت وجلالت جاگزیں ہو،اس یقین کے ساتھ کہ’’ جزء کا احترام بھی کُل کا احترام ہے ‘‘۔
شفاء شریف میں ہے:
’’ ومن اعظامہ واکبارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ ومالمسہ اوعرف بہ ۔‘‘
یعنی:’’ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کا ایک جزیہ بھی ہے کہ جس چیز کو حضور سے کچھ علاقہ ہو حضور کی طرف منسوب ہو حضور نے اُسے چھوا ہو یا حضور کے نام پاک سے پہچانی جاتی ہو اس سب کی تعظیم کی جائے۔‘‘
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن اعظامہ واکبارہ الخ ،عبد التواب اکیڈمی، بوہڑ گیٹ ملتان: ۲/ ۴۴)
اور دوسری جگہ ہے:
’’ من اعظامہ واکبارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ و اکرام مشاھدہ وامکنتہ من مکۃ و المدینۃ ومعاھدہ ومالمسہ علیہ الصلوٰۃ والسلام او اعرف بہ ۔‘‘
یعنی:’’ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام متعلقات کی تعظیم اور آپ کے نشانات اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے
مقامات اور آپ کے محسوسات اور آپ کی طرف منسوب ہونے کی شہرت والی اشیاء کا احترام یہ سب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم وتکریم ہے۔‘‘
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن اعظامہ واکبارہ الخ، عبد التواب اکیڈمی ،بوہڑ گیٹ، ملتان: ۲/ ۴۴)
صحابہ کرام نےآثار و تبرکات کے ادب و احترام ان سے حصول تبرک اور ان کی زیارت و توسل کی وہ مثال پیش کی ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی نظیر ملنی مشکل ہے ۔
حضرت علامہ قاضی عیاض رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں:
’’و کانت فی قلنسوۃ خالد بن الولید رضی اﷲ تعالٰی عنہ شعرات من شعرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فسقطت قلنسوتہ فی بعض حروبہ فشد علیہا شدۃ انکر علیہ اصحاب النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کثرۃ من قتل فیہا فقال لم افعلہا بسبب القلنسوۃ بل لما تضمنتہ من شعرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لئلا اسلب برکتہا وتقع فی ایدی المشرکین ورأی ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما واضعایدہ علی مقعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من المبنر ثم وضعہا علی وجہہ۔ ولھذا کان مالک رحمۃ اللہ لا یرکب بالمدینۃ دابۃ و کان یقول:استحی من اللہ ان أطأ تربۃ فیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحافر دابۃ
۔‘‘
یعنی:’’ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی ٹوپی میں چند موئے مبارک تھے کسی لڑائی میں وہ ٹوپی گر گئی خالد رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس کے لئے ایسا شدید حملہ فرمایا جس پر اور صحابہ کرام نے انکار کیا اس لئے کہ اس شدید وسخت حملہ میں بہت مسلمان کام آئے خالد رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا میرا یہ حملہ ٹوپی کے لئے نہ تھا بلکہ موئے مبارک کے لئے تھا کہ مبادا اس کی برکت میرے پاس نہ رہے اور وہ کافروں کے ہاتھ لگیں اور ابن عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ منبرا طہر سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں جو جگہ جلوس اقدس کی تھی اسے ہاتھ سے مس کرکے وہ ہاتھ اپنے منہ پر پھیر لیا۔ اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ مدینہ منورہ میں سوار ہو کر نہیں چلتے اور فرماتے کہ:مجھے اللہ تعالی سے شرم آتی ہے کہ جس زمین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیادہ چلے ہوں،میں اسے جانوروں کے کھروں سے روندوں۔،،
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل و من اعظامہ و اکبارۃ الخ ،عبد التواب اکیڈمی، بوہڑگیٹ ،ملتان: ۲ . ۴۴)
دیکھئے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے آثار مقدسہ سے کس درجہ عقیدت و محبت تھی کہ اپنی جان کی بازی لگا دی مگر موئے مبارک کو کافروں کے ہاتھ نہ لگنے دیا نیز انہیں حضور کے بیٹھنے کی جگہ کتنی پیاری تھی کہ اس پر جمی ہوئی دھول کو اپنے چہرے کا غازہ بنایا اور اس زمین پر سوار ہو کر چلنا گوارا نہ کیا جس پر حضور پیدل چلتے تھے حالانکہ کہ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہ تھا لیکن اہل محبت کا معاملہ اور محبت کا تقاضہ ہی الگ ہے کہ جس چیز سے محبوب کو نسبت ہو یا جس چیز کا محبوب سے نسبت ہو اس کی تعظیم و تکریم کی جائے کیونکہ یہ تعظیم دراصل محبوب الہی کی تعظیم ہے اور محبوب کی تعظیم و تکریم معراج محبت کی ضامن ہے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’اعتمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و لعلھا عمرۃ الجعرانۃ فحلق رأسہ فابتدر الناس شعرۃ فسبقتھم الی ناصیۃ فجعلتھا فی ھذہ القلنسوۃ فلم اشعر قتالا و ھی معی الاتبین لی النصر ۔‘‘
یعنی:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ فرمانے کے بعد اور غالبا وہ عمرۂ جعرانہ تھا، سر مبارک منڈایا، صحابہ کرام نے موئے مبارک حاصل کرنے کے لیے بڑی کوشش کی، میں نے ان پر سبقت کی اور پیشانی کے موئے مبارک
حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنی اس ٹوپی میں رکھ لیا،اسی کی یہ برکت ہے کہ جب بھی کسی جنگ میں شریک ہوا اور یہ ٹوپی میرے ساتھ رہی تو فتح مھجے ہی نصیب ہوئی۔،،
(آداب الاخیار، صفحہ: ۱۳)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام آثار مقدسہ کو نہایت ذوق و شوق سے حاصل کرتے اور غایت درجہ ادب و احترام کے ساتھ رکھتے،ان کی زیارت کرتے،حتی کہ آثار و تبرکات کو دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز رکھتے تھے ۔
حضرت ابن سیرین رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’قلت لعبیدۃ عندنا من شعر النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصبناہ من قبل انس أو من قبل اھل
انس،فقال لان تکون عندی شعرۃ منہ احب الی من الدنیا و مافیھا ۔‘‘
یعنی:’’ میں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلقین سے حاصل ہوئے ہیں، حضرت عبیدہ نے فرمایا کہ: اگر میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک ہو، تو وہ مجھے تمام دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز ہے۔،،
(آداب الاخیار، صفحہ :۳۱)
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی جو آپ کے دست اقدس میں رہی ، آپ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پھر حضرت عمر فاروق رضیاللہ تعالی عنہ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دست حق پرست میں رہی ، جب وہ انگوٹھی اریس نامی کنوئیں میں گرگئی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کے ساتھ مسلسل تین دنوں تک اسے تلاش کیا حتی کہ کنوئیں کا پانی بھی نکلوادیا مگر انگوٹھی نہ ملی۔
علامہ زرقانی قدس سرہ الربانی فرماتے ہیں:
’’انما بالغ في التفتيش عليه لكونه اثر النبي صلى الله عليه وسلم قد لبسہ، واستعمله وختم به۔‘‘
یعنی :’’اس انگوٹھی کی تلاش میں اس قدر مبالغہ کرنے کی اصل وجہ یہی تھی کہ حضورصلی الله علیہ کالم کے آثار شریفہ میں سے تھی۔جضور نے اسے پہنا تھا، اسے استعمال فرمایا تھا اور اس سے مہر فرمائی تھی ۔‘‘
(آداب الاخیار، ۲۸)
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے نزدیک آثارمبارکہ کی کیا قدر و منزلت تھی ، وہ کس قدر ان کی تعظیم و توقیر کا اہتمام فرماتے تھے اور ان تبرکات سے متعلق ان کے کیا عقائد تھے۔
علامہ زرقانی قدس سرہ الربانی آگے فرماتے ہیں:
’’و کان ذلک في السنة السابعۃ من خلافته ومن يومئذ انقض امر عثمانوخرج عليه الخوارج وكان ذلك مبدأ الفتنة التي أفضت إلى قتله و انتصلت الی آخر الزمان قال بعض العلماء فكان في هذا الخاتم النبوى من السرشی مما كان في خاتم سليمان لانه لمافقد خاتمه ذهب ملکہ۔‘‘
یعنی:’’ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے ساتویں سال پیش آیا اور اسی روز سے امر خلافت خلل پذیر ہوا، اس موقع پر خوارج نے آپ پر خروج کیا اور یہی اس فتنہ کی ابتداء تھی، جس کا نتیجہ آپ کی شہادت کی شکل میں ظاہر ہوا اور وہ فتنہ آخر تک باقی رہا بعض علما نے فرمایا کہ اس انگوئی میں کوئی ایسا راز تھا جیساکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی میں تھا کہ وہ گم ہوگئی تو حکومت جاتی ر ہی۔‘‘
(زرقانی علی المواہب،۵/ ۳۰)
یعنی اس انگوٹھی میں ایسی برکت تھی کہ جب تک وہ خلفائے راشدین کے پاس رہی امور خلافت بحسن وخوبی انجام پذیر ہوتے رہے اور جب وہ گم ہوئی تو بہ صرف امور خلافت میں رخنہ اندازی ہوئی بلکہ خروج جیسا عظیم فتنہ ظہور پذیر ہوا اور یہ فتنہ ایسا ہولناک ثابت ہواکہ اسلام کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی شکل میں ایک ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح جب تک حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس انگوٹھی موجود رہی تب تک دنیا پر ان کی بے مثال حکومت قائم رہی اور جب وہ گم ہوگئی تو ان کی حکومت بھی جاتی رہی۔
اس واقعہ سے یہ بھی درس ملتا ہے کہ آثار صائین کا محض ادب و احترام ہی لازم نہیں اور ان کی بے حرمتی اور توہین و تحقیر سے اجتناب ہی واجب نہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی ازحد ضروری ہے تا کہ ان کے فیوض و برکات سے محرومی مقدر نہ بن جائے۔
حضرت امام غزالی قدس سرہ العالی فرماتے ہیں:
’’جس طرح کوئی شخص کسی بادشاہ کا تابع وفرماں بردار ہے، جب کسی شہر میں جاتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ وہاں
کے لوگ اس کے بادشاہ کی بڑی عظیم و توقیر کرتے ہیں اس کے نشانیوں کا ادب واحترام کرتے ہیں تو وہ بھی اس شہر والوں کے ساتھ محبت و مروت سے پیش آتا ہے، اسی طرح فرشتے حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے تابع فرمان ہیں جب یہ کسی شہر میں حضور کے آثار و برکات اور ان کا ادب واحترام دیکھتے ہیں تو اس شہر اور اہل شہرکی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں اور عذاب سے محفوظ رکھتےہیں ۔ ‘‘
(بالاستشفاع والتوسل،۷۹)
مذکورہ دلائل و براہین سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ آثار مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم و صالحین خواہ تبرکات اصلیہ ہوں یا تمثال آثار کی تعظیم و تکریم اور ان سے توسل روز اول سے آج تک حق پرستوں کا شیوہ رہا ہے اور وہ ان کے توسل سے اپنی ضرورتوں میں کامیاب ہوتے رہے ہیں اور ان کی بے ادبی سبب خسران اور وبال جان ہوئی ہے۔ اس لئے ہم پر ضروری ہے کہ آثار مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم و صالحین خواہ تبرکات اصلیہ ہوں یا تمثال آثار کی تعظیم و تکریم کریں۔
کتبہ:جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح و المجیب نجیب فقط محمد عطاء اللہ
النعیمی خادم الحدیث و الافتاء بجامعۃ النور
جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان)