وہابی دیوبندی اگر مدرسہ کے لئے خود رقم دے تو مدرسہ میں لگانا کیسا ہے؟

وہابی دیوبندی اگر مدرسہ کے لئے خود رقم دے تو مدرسہ میں لگانا کیسا ہے؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلے ھذا میں کہ چند وہابی دیوبندی اہل سنت والجماعت کے مدارس میں اپنی طرف سے رقم دینا چاہتے ہیں کیا اس رقم کو لیکر مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں یا نہیں جواب عنایت فرمائیں کرم نوازش ہو گی۔

(سائل: محمد ضیاء الحق امجدی یو پی)

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

الجواب:


اگر وہابی دیوبندی بد مذہب گمراہ نے نیاز مندانہ طور پر بغیر احسان جتلائے اور کسی وہابی دیوبندی کا عمل دخل کئے بغیر چندہ دیا تو اس رقم کو لینے میں کوئی حرج نہیں

جیسا کہ سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں

کہ  اور اگر نیازمندانہ طور پر پیش کرتا ہے تو حرج نہیں ـ جبکہ اس کے عوض کوئی چیز کافر کی طرف سے خرید کر مسجد میں نہ لگائی جائے ـ بلکہ مسلمان بطور خود خریدیں یا راہبوں ، مزدوروں ، کی اجرت میں دیں ـ اور اس میں بھی اصلاً وہی طریقہ ہے ـ کہ کافر مسلمان کو ہیبہ کردے ـ اور مسلمان اپنی طرف سے لگائیں

(فتاوی رضویہ جلد ششم ص:۴۸۶)

فتاوی فقیہ ملت میں ہے:

لیکن اگر وہابی دیوبندی  سے چندہ لینے کے سبب اس بات کا اندیشہ ہو کہ مسلمانوں کو بھی اجتماع اور ان کے دوسرے مذہبی پروگراموں میں چندہ دینا پڑیگا ـ یا ان کی تعظیم کرنی پڑیگی تو ایسی صورت میں کسی بھی کام کیلئے ان سے چندہ لینا جائز نہیں ـ البتہ چندہ ان سے بہر حال ہرگز نہ مانگے ـ حکم مذکور اس صورت میں ہے جب کہ وہ خود دے ــ(پھر بھی بچنا افضل ہے)

(فتاوی فقیہ ملت جلد:۲،ص:۱۴۷)


فتاوی بحر العلوم میں حضرت علامہ مفتی بحرالعلوم تحریر فرماتے ہیں کہ دیوبندیوں وہابیوں سے مسجد و مدرسہ کے لئے چندہ مانگنا نہ چاہیۓ از خود دے تو مسجد میں لگانا نہ چاہیۓ, مدرسہ کے غریب طلبہ البتہ اس قسم کی امداد کے مستحق ہیں ان پر صرف کرنا چاہیۓ
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے آداب و شرائط ہیں
(فتاویٰ بحرالعلوم ج دوم ص:۲۲۶
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ کسی بھی کار خیر میں وہابی دیوبندی بد مذہب گمراہ کی طرف سے دیا گیا پیسہ اگرچہ استعمال کیا جاسکتا ہے،وہابی دیوبندی اگر مدرسہ کے لیے خود رقم دے تو مدرسہ کے غریب طلبہ پر صرف کر سکتے ہیں ۔ لیکن دینی غیرت و حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ اہل اسلام کو کسی کار خیر،مسجد اور  مذہبی شعائر کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات خود اٹھانے چاہئیں۔

کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top