چادر چڑھانے تالے لگانے ڈوریاں اور دھاگہ باندھنے کی منت یعنی نذر ماننا کیسا ہے؟  Chadar chadhane tale lagane duriyan aur dhaga bandhne li mannat yani nazar Maanna ku aisa hai? चादर चढ़ाने ताले लगाने ढोरियां और धागा बान्धने की मन्नत यानी नज़र मानना कैसा है?

چادر چڑھانے تالے لگانے ڈوریاں اور دھاگہ باندھنے کی منت یعنی نذر ماننا کیسا ہے؟ 

📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿 
_****************************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
 اکثر لوگ مزار پر چادر چڑھانے کی منت مانتے ھیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ مزار کے مخصوص حصوں میں منت کے بیشمار تالے لگے ھوتے ھیں جن کے بارے مین بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ھے کہ ان تالوں کے لگانے سے کام پورا ہوجاتا ہے کام پورا ہونے کے بعد تالے کو کھول دیتے ھیں اور بہت سے لوگ منت کی مخصوص ڈوریاں جو مزارات پر عام فروخت ہوتی ھیں باندھتے ھیں اور آج کل منت کا یہ نیا طریقہ چلا ھے کہ مزارات پر منت کی مخصوص روٹیاں فروخت ہوتی ھیں جن کے بارے میں بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ روٹیوں کو ایک ہفتے تک گھر میں رکھنا باعث برکت ہے کیا ان سب امور کی منت ماننا جائز ہے یا ناجائز

💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢 ،نواز احمد( یــــوپـــــی)

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*

*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
  📚✒ مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ 👇👇
منت یا نذر ماننا شرعاً جائز ہے۔ قرآن کریم نے سابقہ انبیاء، صلحاء اور اقوام کی نذور کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت سیدہ مریم رضی اللہ تعالی عنہا کو اللہ تعالیٰ نے نذر کی ترغیب ان الفاظ میں دی ہے:
فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا. یعنی
تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں  نے آج رحمن کیلئے روزہ کی نذر مانی ہے تو آج ہرگز میں  کسی آدمی سے بات نہیں  کروں  گی۔
📗✒پ 16 سورہ مریم آیت مبارکہ 26
حضرت رضی اللہ تعالی عنہ  کی بیوی کی نذر کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد دہانی کروائی جا رہی ہے کہ:
إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.
  (یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے عرض کی: اے میرے رب! میں تیرے لئے نذر مانتی ہو کہ میرے پیٹ میں جواولاد ہے وہ خاص تیرے لئے آزاد (وقف) ہے تو تو مجھ سے (یہ )قبول کرلے بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔
📗✒پ 3 سورہ آل عمران آیت 35
سورہ بقرہ میں اہلِ ایمان کے نذر ماننے کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے، ارشاد ہے:
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ.
اور تم جو خرچ کرو یا کوئی نذر مانو اللہ  اسے جانتا ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
📗✒پ 3 سورہ بقرہ آیت مبارکہ 270

مذکورہ بالا قرآن کی آیات سے معلوم ہوا کہ نذر یعنی منت مانگنا جائز و درست ہے
یاد رہے کہ عرف میں ہدیہ اور پیش کش کونذر کہتے ہیں جیسے کسی بڑے کو کوئی چیز پیش کریں تو کہتے ہیں کہ جناب یہ اپ کی نذر کی۔ لیکن ہمارے ہاں منّت کے  دو طریقے  رائج ہیں : (1)ایک منّتِ شرعی اور(2) ایک منّتِ عُرفی ۔

👈(1)…نذر شرعی۔ شرع میں نذر عبادت اور قربت مقصودہ ہے اسی لئے اگر کسی نے گناہ کرنے کی نذر مانی تو وہ صحیح نہیں ہوئی۔ نذر خاص اللہ تعالی کے لیے ہوتی ہے اور یہ جائز ہے کہ اللہ  تعالی کے لیے نذر کرے اور کسی ولی کے آستانہ کے فقراء کو نذر کے صرف کرنے کی جگہ مقرر کرے مثلا کسی نے یہ کہا یارب !عزوجل، میں نے نذر مانی کہ اگر تو میرا فلاں مقصد پورا کردے کہ فلاں بیمار کو تندرست کردے تو میں فلاں ولی کے آستانہ کے فقراء کو کھانا کھلاؤں یا وہاں کے خدام کو روپیہ پیسہ دوں یا ان کی مسجد کے لیے فلاں سامان مہیا کروں گا تو یہ نذر جائز ہے۔
📗✒(ردالمحتار، کتاب الصوم، مطلب فی النذر الذی یقع للاموات۔۔۔ الخ، ج 3 ص 491

اس کی کچھ شرائط ہوتے ہیں اگر وہ پائی جائیں تو منّت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور پورا نہ کرنے سے آدمی گناہگار ہوتا ہے۔اس گناہ کی نحوست سے  اگر کوئی مصیبت آپڑے  تو کچھ بعید نہیں ۔شرعی نذر صرف اللہ تعالی ہی کے لئے ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے معنی ہیں غیر لازم عبادت کو لازم کرلینا، ہاں اس نذر کا مصرف اولیاء اللہ کے غریب مجاور بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔

👈(2)… نذر کی دوسری قسم یعنی لغوی نذر جسے عرفی نذر بھی کہتے ہیں جو نذرانہ کے معنی میں ہے وہ مخلوق کے لئے بھی ہو سکتی ہے،جیسے بزرگان دین کیلئے نذر و نیاز کی جاتی ہے، مزارات پر چادر چڑھانے کی نذر مانی جاتی ہے۔ اس طرح کی نذروں کا پورا کرنا ضروری نہیں البتہ بہتر ہے۔
🔍اس بارے میں تفصیل جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 20 ویں جلد میں موجود سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کے رسالہ’’سبل الاصفیاء فی حکم الذبح للاولیاء(اولیاء اللہ رحمہم اللہ تعالی کی طرف منسوب جانوروں کے ذبح کرنے کا جواز)‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔

از روئے  شرع اللّٰہ تعالیٰ کے  سوا کسی نبی  یا ولی کی نذرِ عُرفی ماننا جائز ہے  اور امیر غریب اور ساداتِ کرام سبھی کے  لئے  کھا نا بھی جائز ہے  ۔اسی کو نذرِ عُرفی یا نیا ز کہتے  ہے  ۔

🕹اس کے متعلق حضور صدرُ الشریعہ، بدرُ الطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَيْهِ فرماتے  ہیں : ’’مسجد میں چراغ جلانے  یا طاق بھرنے  یا فلاں بزرگ کے  مزار پر چادر چڑھانے  یا گیارھویں کی نیاز دِلانے  یا غوثِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا توشہ یا شاہ عبدُالحق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا توشہ کرنے  یا حضرت جلال بخاری کا کونڈا کرنے  یا محرّم کی نیاز یا شربت یا سبیل لگانے  یا میلاد شریف کرنے  کی منّت مانی تویہ شرعی منّت نہیں مگر یہ کام منع نہیں ہیں کرے  تو اچھا ہے  ۔ہاں البتہ اس کا خیال رہے  کہ کوئی بات خلافِ شرع اسکے  ساتھ نہ ملائے  مثلاً طاق بھرنے  میں رَت جَگا ہوتا ہے  جس میں کُنبہ اور رشتہ کی عورتیں اکھٹا ہو کر گاتی بجاتی ہیں کہ یہ حرام ہے  یا چادر چڑھانے  کے  لئے  لوگ تاشے  باجے  کے  ساتھ جاتے  ہیں یہ ناجائز ہے  یا مسجد میں چراغ جلانے  میں بعض لوگ آٹے  کا چراغ جلاتے  ہیں یہ خواہ مخواہ مال ضائع کرناہے  اورناجائز ہے ، مٹی کا چراغ کافی ہے  اور گھی کی بھی ضرورت نہیں، مقصود روشنی ہے  وہ تیل سے  حاصل ہے  ۔رہا یہ کہ میلاد شریف میں فرش و روشنی کا اچھا انتظام کرنا اور مٹھائی تقسیم کرنا یا لوگوں کو بُلاوا دینا اور اس کے  لئے  تاریخ مقرّر کرنا اور پڑھنے  والوں کا خوش الحانی سے  پڑھنا یہ سب باتیں جائز ہیں البتہ غلط اور جھوٹی روایتوں کا پڑھنا منع ہے  ، پڑھنے  والے  اور سننے  والے  دونوں گنہگار ہونگے
📗✒بہار شریعت، حصہ۹ ، ۲/ ۳۱۷
مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ  جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں الله تعالی کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں
📗✒(احکام شریعت حصہ اول ص 42)

📌مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ چادر چڑھانے کی منت اگر مزار پر چادر موجود ہے تو چادر نہ چڑھائے بلکہ اس کی رقم غریبوں میں تقسیم کر دیں اور رہی بات مزار پر تالے دھاگے ڈوروں اور روٹیوں کی تو ان سب کو پورا نہ کریں
کیونکہ یہ سب فضول خرچی کے اسباب ہیں  بلکہ ان سب کی رقم غریبوں میں تقسیم کر دیں صاحب مزار کے ایصال ثواب کی نیت سے یہی بہتر و مناسب ہے
حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے روایت ہے:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ.
’’ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقتِ نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔‘‘

📗✒بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1 : 467، رقم : 1322

📗✒مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، 2 : 696، رقم : 1004

🕹اور رہی بات اس طرح کا عقیدہ رکھنے کے متعلق کہ چادر چڑھانے تالے لگا کر کھولنے  ڈوریاں دھاگہ باندھنے سے کام پورے ہوتے ہیں شریعت مطہرہ میں یہ حکم ہے کہ اگر نذر ماننے والے کا یہ گمان ہے کہ یہ سب کام اللہ کے اذن کے بغیر ہوتے ہیں  تو یہ اعتقاد کفر ہے

سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : ’’ حقیقی مدد طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس سے مدد طلب کی جائے اسے بالذات قادر،مستقل مالک اور غنی بے نیاز جانا جائے کہ وہ اللہ تعالی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ا س کام (یعنی مدد کرنے)کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے نزدیک’’ شرک‘‘ ہے اور کوئی مسلمان اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں ایسا ’’عقیدہ‘‘ نہیں رکھتا اور اللہ تعالی کے مقبول بندوں کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے واسطہ اور حاجات پوری ہونے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں تو جس طرح حقیقی وجود کہ کسی کے پیدا کئے بغیر خود اپنی ذات سے موجود ہونا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے،اس کے باوجود کسی کو موجود کہنا اس وقت تک شرک نہیں جب تک وہی حقیقی وجود مراد نہ لیا جائے، یونہی حقیقی علم کہ کسی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ہو اور حقیقی تعلیم کہ کسی چیزکی محتاجی کے بغیر از خود کسی کو سکھانا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے، اس کے باوجود دوسرے کو عالم کہنا یا اس سے علم طلب کرنا اس وقت تک شرک نہیں ہو سکتا جب تک وہی اصلی معنی مقصود نہ ہوں تو اسی طرح کسی سے مدد طلب کرنے کا معاملہ ہے کہ اس کا حقیقی معنی اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے اور وسیلہ و واسطہ کے معنی میں اللہ تعالی کے علاوہ کے لئے ثابت ہے اور حق ہے بلکہ یہ معنی تو غیرخدا ہی کے لئے خاص ہیں کیونکہ اللہ  تعالی وسیلہ اور واسطہ بننے سے پاک ہے ،اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہو گا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔ بدمذہبوں کی طرف سے ہونے والا ایک اعتراض ذکر کر کے اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا سے توسل کر کے اسے کسی کے یہاں وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے ، اس وسیلہ بننے کو ہم اولیاء کرام سے مانگتے ہیں کہ وہ دربار الہی میں ہمارا وسیلہ، ذریعہ اور قضائے حاجات کاواسطہ ہو جائیں ، اس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالی نے اس ایت کریمہ میں دیا ہے: ’’و لو انهم اذ ظلموا انفسهم جآءوك فاستغفروا الله و استغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحیما
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ،تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
📗✒(۶۴)‘‘(النساء: ۶۴)
 کیا اللہ تعالی اپنے اپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی! تیرے پاس حاضر ہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قران کی ایت صاف فرما رہی ہے۔
📗✒فتاوی رضویہ ج21ص305/304
_****************************************_
       *(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نائےگائوں ضلع ناندیڑ  مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـ*
*(بتاریخ ۲۶/ نومبر بروز منگل  ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*

_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🍓الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد اسلام خان رضوی مصباحی صاحب قبلہ صدر المدرسین مدرسہ گلشن رضا کولمبی ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
🍓ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ و جامع و تحقیق جواب  ✅الجواب’ ھوالجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)
🍓ماشاء اللہ سبحان اللہ بہترین جوابــــ
✔الجوابــــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح فقط محمدامجدعلی نعیمی،رائےگنج اتر دیناج پور مغربی بنگال،خطیب وامام مسجدنیم والی مرادآبا اترپردیش الھند
🍓✅الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محــــمد معصــوم رضا نوری منگلور کرناٹک انڈیا
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top