چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
مسئلہ: از مرتضیٰ حسین خاں۔ دیور رام پور ضلع بستی۔
چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
الجواب: چلتی ہوئی ٹرین میں نفل نماز پڑھنا جائز ہے مگر فرض، واجب اور سنت فجر پڑھنا جائز نہیں۔ اس لئے کہ نماز کے لئے شروع سے آخر تک اتحاد مکان اور جہت قبلہ شرط ہے‘ اور چلتی ہوئی ٹرین میں شروع نماز سے آخر تک قبلہ رخ رہنا اگرچہ بعض صورتوں میں ممکن ہے لیکن اختتام نماز تک اتحاد مکان یعنی ایک جگہ رہنا کسی طرح ممکن نہیں اس لئے چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا صحیح نہیں۔ ہاں اگر نماز کے اوقات میں نماز پڑھنے کی مقدار ٹرین کا ٹھہرنا ممکن نہ ہو تو چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھ لے پھر موقع ملنے پر اعادہ کرے ردالمحتارجلد اوّل ص ۴۷۲ میں ہے:
الحاصل ان کلا من اتحاد المکان واستقبال القبلۃ شرط فی صلاۃ غیر النافلۃ عند الامکان لایسقط الابعذر ا ھ۔
یعنی حاصل کلام یہ ہے کہ نفل نماز کے علاوہ سب نمازوں کے لئے اتحاد مکان اور استقبال قبلہ یعنی ایک جگہ ٹھہرنا اور قبلہ رخ ہونا آخر نمازتک بقدر امکان شرط ہے جو بغیر عذر شرعی ساقط نہ ہو گا‘ اور ظاہر ہے کہ ٹرین نماز کے اوقات میں کہیں نہ کہیں اتنی دیر ضرور ٹھہرتی ہے کہ دو چار رکعت نماز فرض آسانی سے پڑھ سکتا ہے کہ ٹرین ٹھہرنے سے پہلے وضو سے فارغ ہو کر تیار رہے‘ اور ٹرین ٹھہرتے ہی اتر کر یا ٹرین ہی میں قبلہ رخ کھڑے ہو کر پڑھ لے اگر اتنی قدرت کے باوجود کاہلی اور سستی سے چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھے گا تو وہ شرعاً معذور نہ ہو گا اور نماز نہ ہو گی… اور بعض لوگ جو ٹرین کو کشتی پر قیاس کر کے چلتی ہوئی ٹرین میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں وہ صحیح نہیں اس لئے کہ ٹرین خشکی کی سواری ہے‘ اور کشتی دریا کی۔ اگر کشتی کو بیچ دریا میں ٹھہرایا جائے تو پانی ہی پر ٹھہرے گی اور زمین اسے میسر نہ ہو گی اور ٹھہرنے کی حالت میں بھی دریا کی موجوں سے ہلتی رہے گی بخلاف ٹرین کے کہ وہ زمین ہی پر ٹھہرتی ہے‘ اور مستقر رہتی ہے تو اس کو کشتی پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے‘ اور پھر ٹرین اوقات نماز میں عام طور پر جگہ جگہ ٹھہرتی ہے تو اس پرسے اتر کر یا اس میں کھڑے ہو کر نماز بخوبی پڑھ سکتے ہیں اور کشتی جہاز و اسٹیمر نماز کے اوقات میں جابجا نہیں ٹھہرتے ہیں بلکہ خاص مقام ہی پر جا کر ٹھہرتے ہیں اور کبھی کنارے سے دور ٹھہرتے ہیں کہ اس سے اتر کر کنارے پر جانے اور واپس آنے کا وقت نہیں ملتا اس لئے ٹرین کو کشتی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں کشتی کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کہ اگر زمین پر اس کا ٹھہرنا ٹھہرانا یا اس پر سے اتر کر نماز پڑھنا ممکن ہو تو اس پر بھی نماز پڑھنا صحیح نہیں مراقی الفلاح میں ہے:
فان صلی المربوطۃ بالشط قائما وکان شیء من السفینۃ علی قرار الارض صحت الصلٰوۃ فیھا علی المختار علی السریروان لم یستقر منھا شیء علی الارض فلا تصح الصلاۃ فیھا علی المختار کما فی المحیط والبدائع الااذالم یمکنہ الخروج بلاضرر فیصلی فیھا ا ھ۔
اور طحطاوی علی مراقی میں ہے: قال الحلبی ینبغی ان لا تجوز الصلاۃ فیھا اذا کانت سائرۃ مع امکان الخروج الی البر۔ا ھ۔ خلاصہ یہ ہے کہ چلتی ہوئی ٹرین میں فرض، واجب اور سنت فجر پڑھنا جائز نہیں بلکہ بہار شریعت حصہ چہارم ص ۱۹ میں ہے: چلتی ریل گاڑی پر بھی فرض وواجب اور سنت فجر نہیں ہو سکتی اور اس کو جہاز و کشتی کے حکم میں تصور کرنا غلطی ہے کہ کشتی اگر ٹھہرائی جائے جب بھی زمین پر نہ ٹھہرے گی اور ریل گاڑی ایسی نہیں‘ اور کشتی پر بھی اسی وقت نماز جائز ہے جب وہ بیچ دریا میں ہو۔ کنارہ پر ہو اور خشکی پر آسکتا ہو تو اس پر بھی جائز نہیں ہے لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اس وقت یہ نماز پڑھے‘ اور اگر دیکھے کہ وقت جاتا ہے تو جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لے پھر جب موقع ملے اعادہ کر لے کہ جہاں من وجہتہ العباد کوئی شرط یا رکن مفقود ہو اس کا یہی حکم ہے انتہی بالفاظہ۔ وھو تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
یکم جمادی الاخریٰ ۱۳۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۳۸/۲۳۷/۲۳۶)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند