کہاں بھیجنا ہو بھیجو ورنہ طلاق لے لو پھر کہا جاتا ہوں آؤں گا تو طلاق نامہ لے کر آؤں گا اس طرح کہنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
مسئلہ: از احمد علی انصاری محلہ مومن پورہ خلیل آباد ضلع بستی
عرض یہ ہے کہ کنیز عید کے موقعہ پر دولہا کی اجازت سے اپنے میکے آئی اور دولہا عید کے دوسرے دن کنیز کو بلانے آیا کنیز کے وارثین نے کہا: ’’آج رخصت نہیں کریں گے چونکہ شام ہو گئی ہے لہٰذا آج نہیں کل جایئے۔‘‘ معاملہ کچھ مٹ مٹاؤ کا تھا اس لئے کل کا وعدہ کیا گیا تاکہ کل دونوں کو سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا جائے گا۔ لیکن دولہا صاحب اسی بات کو لے کر اکڑ گئے اور کہا بھیجنا ہے توابھی بھیجو ورنہ طلاق لے لو۔ کنیز کے وارثین نے دولہا کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہر کوشش کے بعد یہی کہتا رہا کہ بھیجنا ہو تو ابھی بھیجو ورنہ طلاق لے لو۔ کنیز کے گھر والوں نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا طلاق لکھ کر دو۔ دولہا نے کہا ’’مجھے کاغذ قلم دو میں طلاق لکھ دوں‘‘۔ کنیز کے گھر والوں نے دوبارہ جواب دیا کہ کاغذ ہم لوگ کیوں دیں کیا آپ کاغذ کے محتاج ہیں اتنا سن کر دولہا صاحب کو اور طیش آ گیا اور گھر کا رخ کیا اور کہا میں جا رہا ہوں آؤں گا تو طلاق لے کر آؤں گا یہ کہہ کر چلا گیا۔ اب چار مہینے گزر جانے کے بعد دولہا کے وارثین کنیز کی رخصتی کے بارے میں کنیز کے گھر والوں سے بات چیت کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ دولہا کی باتوں سے طلاق پڑی یا نہیں؟ اگر نہیں پڑی تو طلاق لینا مناسب ہے یا نہیں؟
الجواب: اگر شوہر نے وہی جملے کہے جو سوال میں ظاہر کئے گئے ہیں تو شوہر کی باتوں سے زبانی طلاق نہیں واقع ہوئی‘ اور بلاوجہ شرعی طلاق دینا یا لینا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند، مبغوض اور مکروہ ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ابغض الحلال الی اللّٰہ تعالٰی الطلاق لہٰذا صرف اتنی سی بات پر جو سوال میں مذکور ہے طلاق لینا مناسب نہیں۔ وھو اعلم وعلمہ اتم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۴؍ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۹)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند