کیاحضرت ابوبکر نے حضرت سیّدہ کو اپنی پوری جائیداد پیش کی؟(رضی اللہ عنہما)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت التجا کے ساتھ اپنی پوری جائیداد حضرت سیّدہ کو پیش کی جیسا کہ رافضیوں کی معتبر کتاب حق الیقین میں ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فدک کا مطالبہ کیا تو انہوں نے حدیث رسول لانورث مانرکنا صدقۃ کو سنانے کے بعد بہت معذرت کی اور کہا کہ ’’اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ نمی کنم آں چہ خواہی بگیر تو سیّدۂ امت پدر خودی و شجرۂ طیبہ از برائے فرزنداں خود انکار فضل تو کسے نمی تواند گردد تو حکم تو نافذست در اموال من امادر اموال مسلمانان مخالفت گفتۂ پدر تو نمی توانم کرد۔‘‘ میرے جملہ اموال و احوال میں آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہیں بلا روک ٹوک لے سکتی ہیں‘ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی سردار ہیں اور آپ کے فرزندوں کے لئے شجرۂ مبارکہ میں آپ کی فضیلت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور آپ کا حکم میرے تمام مالوں میں نافذ ہے لیکن مسلمانوں کے مالوں میں آپ کے والد ماجد سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت میں نہیں کر سکتا۔
(حق الیقین ملا مجلسی ص ۲۳۱)
رافضیوں کی اس مذہبی کتاب سے خوب واضح ہو گیا کہ حضرت سیّدہ حضرت ابوبکر کے نزدیک بہت محترم تھیں وہ حضرت سیّدہ کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہرگز ہرگز ان کے دل میں حضرت سیّدہ کی طرف سے کوئی بغض و عناد نہ تھا صرف حدیث رسول کے سبب فدک ان کے حوالہ نہ کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دامن ہر طرح کے الزام سے پاک ہے‘
اور ن پر باغ فدک کے غصب اور حضرت سیّدہ کی دشمنی کا الزام لگانا سراسر غلط ہے۔ اس مفصل جواب کا مقصد بحث و مناظرہ نہیں ہے بلکہ اپنے مسلک کی وضاحت اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی واجب الاحترام ہستی پر جو طعن کیا جاتا ہے اس سے مدافعت مقصود ہے۔ خداتعالیٰ سب کو ہٹ دھرمی سے بچائے اور حق بات قبول کرنے کی سب کو توفیق بخشے۔ امین برحمتک یا ارحم الراحمین وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ سیّدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔
معتبر کتاب حق الیقین میں ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فدک کا مطالبہ کیا تو انہوں نے حدیث رسول لانورث مانرکنا صدقۃ کو سنانے کے بعد بہت معذرت کی اور کہا کہ ’’اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ نمی کنم آں چہ خواہی بگیر تو سیّدۂ امت پدر خودی و شجرۂ طیبہ از برائے فرزنداں خود انکار فضل تو کسے نمی تواند گردد تو حکم تو نافذست در اموال من امادر اموال مسلمانان مخالفت گفتۂ پدر تو نمی توانم کرد۔‘‘ میرے جملہ اموال و احوال میں آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہیں بلا روک ٹوک لے سکتی ہیں‘ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی سردار ہیں اور آپ کے فرزندوں کے لئے شجرۂ مبارکہ میں آپ کی فضیلت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور آپ کا حکم میرے تمام مالوں میں نافذ ہے لیکن مسلمانوں کے مالوں میں آپ کے والد ماجد سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت میں نہیں کر سکتا۔
(حق الیقین ملا مجلسی ص ۲۳۱)
رافضیوں کی اس مذہبی کتاب سے خوب واضح ہو گیا کہ حضرت سیّدہ حضرت ابوبکر کے نزدیک بہت محترم تھیں وہ حضرت سیّدہ کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہرگز ہرگز ان کے دل میں حضرت سیّدہ کی طرف سے کوئی بغض و عناد نہ تھا صرف حدیث رسول کے سبب فدک ان کے حوالہ نہ کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دامن ہر طرح کے الزام سے پاک ہے‘ اور ن پر باغ فدک کے غصب اور حضرت سیّدہ کی دشمنی کا الزام لگانا سراسر غلط ہے۔ اس مفصل جواب کا مقصد بحث و مناظرہ نہیں ہے بلکہ اپنے مسلک کی وضاحت اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی واجب الاحترام ہستی پر جو طعن کیا جاتا ہے اس سے مدافعت مقصود ہے۔ خداتعالیٰ سب کو ہٹ دھرمی سے بچائے اور حق بات قبول کرنے کی سب کو توفیق بخشے۔
امین برحمتک یا ارحم الراحمین وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ سیّدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔
کتبہ: جلال الدین احمد امجدی
۲۴؍ ذی القعدہ ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۰۴/۱۰۳)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند