کیا اقامت میں حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے؟
خطبہ کی اذان اگر منبر کے سامنے مسجد کے اندر کہی جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟
حضور اور صحابہ کے زمانوں میں خطبہ کی اذان کہاں ہوتی تھی؟
مسئلہ: از حاجی محمد رضا صاحب، ساکن مجھوا سیٹھ پوسٹ ٹنڈوا ضلع بستی۔
اول(۱) کیا اقامت میں حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے؟ فقہ حنفی کی معتمد کتابوں کے حوالہ سے مدلل بیان فرمائیں۔
دوم(۲) خطبہ کی اذان اگر منبر کے سامنے مسجد کے اندر کہی جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارکہ میں خطبہ کی اذان مسجد کے کسی حصہ میں ہوتی تھی؟ اس کا جواب بھی حدیث شریف اور فقہ حنفی کی کتابوں کے حوالہ سے تحریر فرمائیں۔
الجواب: (۱) بیشک جو لوگ اقامت کے وقت مسجد میں موجود ہیں بیٹھے رہیں۔ جب مکبر حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح پر پہنچے تو اٹھیں۔ یہی حکم امام اور مقتدی دونوں کے لئے ہے۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۵۳ میں ہے: یقوم الامام اوالقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ وھو الصحیح۔ یعنی علمائے ثلاثہ حضرت امام اعظم، امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کا مذہب یہ ہے کہ امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب کہ مکبر حی علی الفلاح کہے‘ اور یہی صحیح ہے‘ اور شرح وقایہ جلد اوّل مطبوعہ مجیدی کانپور ص ۱۳۶ میں ہے: یقوم الامام والقوم عند حی علی الصلاۃ یعنی امام اور مقتدی حی علی الصلاۃ کہنے کے وقت کھڑے ہوں‘ اور مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد اوّل ص ۴۱۹ میں ہے: قال ائمتنا یقوم الامام والقوم عند حی علی الصلاۃ۔ یعنی ہمارے ائمہ کرام نے فرمایا کہ امام اور مقتدی حی علی الصلاۃ کے وقت کھڑے ہوں‘ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۳۲۱ میں تحریر فرماتے ہیں: فقہا گفتہ اند مذہب آنست نزدحی علی الصلاۃ باید برخاست۔ یعنی فقہائے کرام نے فرمایا مذہب یہ ہے کہ حی علی الصلاۃ کے وقت اٹھنا چاہئے‘ اور جو شخص اقامت کے وقت آئے اس کے لئے بھی حکم ہے کہ بیٹھ جائے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے۔ جب تکبیر کہنے والا حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح پر پہنچے تو اس وقت کھڑا ہو فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۵۳ میں ہے:
اذا دخل الرجل عند الاقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما لکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن قولہ حی علی الفلاح کذا فی المضمرات
اور شامی جلد اوّل ص ۲۸۰ میں ہے:
یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح۔ ھٰذا ما عندی والعلم عند ربی جل جلالہ وھو تعالٰی اعلم۔
دوم(۲) مسجد کے اندرونی حصہ میں اذان پڑھنا مکروہ ومنع ہے فتاویٰ قاضی خاں جلد اوّل مصری ص ۷۸ ،فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۵۵، اور بحرالرائق جلد اوّل ص ۲۶۸ میں ہے: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان پڑھنا منع ہے‘ اور فتح القدیر جلد اوّل ص ۲۱۵میں ہے: قالوا لایؤذن فی المسجد یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے اور طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۲۱۷ میں ہے:
یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القھستانی عن النظم۔
یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے اس طرح قہستانی میں نظم سے ہے۔ رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم اور صحابۂ کرام کے زمانے میں خطبہ کی اذان مسجد کے دروازے پر ہوا کرتی تھی جیسا کہ ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۱۶۲ میں ہے:
عن السائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علیٰ باب المسجد وابو بکر و عمر۔
یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں۔ لہٰذا یہ جو رواج ہو گیا ہے خطبہ کی اذان مسجد کے اندر دی جاتی ہے غلط ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس رواج کو چھوڑ کر حدیث و فقہ پر عمل کریں۔ وھو سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۰۶/۲۰۵/۲۰۴)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند