کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا وجود عقلا ممکن ہے؟
کیا محال تحت قدرت باری تعالیٰ ہوتا ہے؟
بسط البنان دیکھنے کے بعد تکفیر میں تأمل کا کیا حکم ہے؟
مسئلہ:
محمد یوسف بنارسی ۹۳؍۱۲ بیچ باغ کانپور
(۱)
زید کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا وجود عقلا ممکن ہے لیکن چونکہ شریعت مطہرہ نے حضور کا خاتم النّبیین ہونا بتا دیا لہٰذا اب حضور کے بعد کسی نبی کا ہونا شرعا محال ہے برائے کرم شریعت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ زید کا قول کہاں تک صحیح ہے‘ اور اگر غلط ہے تو زید کا ازروئے شرع کیا حکم ہے؟ جواب مدلل و مفصل مع حوالہ عبارات کتب معتبرہ عنایت فرمائیں۔
(۲)
زید کہتاہے کہ محال تحت قدرت باری تعالیٰ ہوتا ہے کیونکہ وہ ممکن بالذات اور محال بالغیر ہوتا ہے دلیل میں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو جن کا کفر قرآن و حدیث سے ثابت ہے‘ اور وہ قطعی کافر ہیں جنت میں داخل کرنے پر قادر ہے لیکن وہ ایسا کرے گا نہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی قرآن نے خبر دی ہے لیکن تحت قدرت داخل ہے‘ اور بکر اس کے خلاف کا قائل ہے۔ ازروئے شرع کس کا قول صحیح اور قابل عمل ہے‘ اور کس کاقول غلط اور باطل ہے‘ اور اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟ جواب مدلل و مفصل مع عبارات کتب معتبرہ مرحمت فرمائیں۔
(۳)
زید عالم دین ہے‘ اور مفتی بھی ازیں قبل ان علمائے دیوبند کو جن کو حسام الحرمین میں ان کی کفری عقائد کی بناء پر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے متحقق و ثابت کرتے ہوئے ان پر فتویٰ کفر دیا ہے جس کے صحیح ہونے پر جمیع علمائے اہلسنّت کا اتفاق ہے خود بھی کافر کہا کرتا تھا مگر اب یہ کہتا ہے کہ جب سے میں نے بسط البنان دیکھی ہے بربنائے احتیاط کافر کہنے میں تامل کرتا ہوں دریں صورت زید کے لئے ازروئے شرع کیا حکم ہے؟
براہ کرم سوالات مذکورہ بالا کا جواب مدلل و مفصل عنایت فرما کر مشکور فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔
الجواب: (۱) بیشک سرکار اقدس آخر الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بنی کا پیدا ہونا شرعاً محال اور عقلا ممکن بالذات ہے۔
اما الاوّل فلور ودالنص وَلٰکِنْ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ واماالثانی فلان خلق نبی بعد نبینا علیہ التحیۃ والثناء من المقدورات الالھیۃ وکل مقدور الھی ممکن۔
لیکن سرکار اقدس خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا خاتم الانبیاء پیدا ہونا محال بالذات ہے۔
لان ختم النبوۃ وصف لایقبل الاشتراک عقلا ولایکون موصوفہ الاواحد اوھونبینا رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم
اسی لئے وصف ختم نبوت میں سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نظیر و مثل محال بالذات ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَااَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلُ اللّٰہِ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ ’ یعنی محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ‘‘۔صلی اللہ تعالیٰ علیٰ نبینا وسلم۔ اس آیت کریمہ کے نزول سے قبل سرکار مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا دو طرح ممکن تھا ایک بطور امکان وقوعی۔ دوسرے بطور امکان ذاتی۔ ورود آیت کریمہ نے صرف امکان و قوعی ختم کیا امکان ذاتی ختم نہیں کیا۔ صورت مسئولہ میں چونکہ زید نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے وجود کو محال شرعی مانتے ہوئے اس کے وجود کو ممکن کہا ہے اس لئے اس کا قول صحیح ہے کیونکہ وہ صرف امکان ذاتی کا قائل ہے امکان وقوعی کا قائل نہیں۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
(۲)
جمہور اہل سنت کے نزدیک جنت میں کفار کا داخلہ شرعاً محال اور عقلاً ممکن بالذات ہے‘ اور صاحب عمدہ امام ابوالبرکات عبداللہ نسفی علیہ الرحمہ وغیرہ بعض علماء کے نزدیک عقلاً بھی محال ہے شرح مقاصد الطالبین فی علم اصول الدین میں ہے
اتفقت الائمۃ ان اللّٰہ تعالٰی لا یعفوعن الکفر قطعا وان جاز عقلا ومنع بعضھم الجواز العقلی ایضا لامخالف لحکمۃ التفرقۃ بین من احسن غابۃ الاحسان واساء غایۃ الاساء ۃ وضعفہ ظاھر (سبحان السبوح مطبوعہ لاہور ص ۸۲)
امام ابن الہمام علیہ الرحمہ مسایرہ میں فرماتے ہیں: صاحب العمدۃ اختاران العفو عن الکفر لایجوز عقلا (سبحان السبوح، ص ۹۷)
مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوا کہ جمیع اہل سنت اس امر پر متفق ہیں کہ جنت میں کفار کا اخلہ ممتنع شرعی ہے۔ ہاں اختلاف جواز عقلی اور عدم جواز عقلی میں ہے جمہور اہل سنت جواز عقلی کے قائل ہیں اور امام ابوالبرکات نسفی وغیرہ بعض علماء امتناع عقلی کے قائل ہیں۔ صورت مسئولہ میں زید کا قول قوی مطابق جمہور ہے‘ اور بکر کا قول ضعیف موافق مسلک صاحب عمدہ وغیرہ ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
(۳)
دیوبندیوں کے پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب حفظ الایمان کی عبارات کفریہ التزامیہ متعینہ کی صفائی میں بسط البنان لکھی جس نے تھانوی صاحب کے کفر پر رجسٹری کر دی معلوم ہوتا ہے کہ زید جو عالم اور مفتی بھی ہے اس نے بسط البنان کے مغالطہ و فریب کا پردہ چاک کرنے والے رسالہ وقعات السنان مصنفہ حضرت مولانا شاہ مصطفیٰ رضا شاہزادہ سرکار اعلیٰ حضرت نہیں دیکھا۔ اس مبارک رسالہ میں شاہزادۂ اعلیٰ حضرت نے بسطان البنان کا ایسا علمی رد تحریر فرمایا جس کا جواب نہ تو خود تھانوی صاحب دے سکے نہ آج تک ان کا کوئی حامی مولوی دے سکا۔ تعجب ہے کہ زید خود عالم دین اور مفتی بھی ہے‘ اور اس کے سامنے حفظ الایمان ص ۸ کی وہ عبارت ہے جو اپنے کفری معنی میں متعین ہے‘ اور جس میں تھانوی صاحب نے صاحب و علمک مالم تکن تعلم سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو صریح گالی دی ہے‘ اور سرکار کی شان میں کھلی توہین کی ہے تو پھر بسط البنان دیکھنے کے بعد زید کے نزدیک حفظ الایمان کی گالی اور توہین کیوں کر مدح و تعظیم بن گئی الحاصل چونکہ تھانوی کی حفظ الایمان والی کفری عبارت معنی میں متعین ہے‘ اورصریح متعین کفری قول کے قائل کے بارے میں ائمہ فتویٰ کا ارشاد ہے : من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر اس لئے زید تکفیر تھانوی سے امتناع کے باعث بحکم شریعت اسلامیہ خود کافر ہو گیا اس پر توبہ تجدید ایمان فرض ہے۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
کتبہ:
جلال الدین احمد الامجدی
۹؍ شعبان ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱/۱۰)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند