کیا حضور کی طرف حضرت عمر نے ہذیان کی نسبت کی؟
اس کے متعلق مدلل و مفصل جواب ملاحظہ فرمائیں
دو(۲)اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہذیان کی نسبت کی ہے اس لئے کہ حدیث شریف کا یہ جملہ: اھجر استفھموہ (کیا حضور نے پریشان بات کہی ان سے پوچھو) حضرت عمر ہی نے کہا یقین کے ساتھ ہرگز ثابت نہیں کہ بخاری و مسلم وغیرہ کی اکثر روایتوں میں یوں ہے: قالوا ماشانہ اھجر استفھموہ لوگوں نے کہا: حضور کا کیا حال ہے کیا انہوں نے پریشان بات کہی ان سے پھر پوچھو۔
مطلب یہ ہے کہ ہجر کے معنی پریشان و ہذیان اور بیہودہ بکنے کے بھی ہیں یہ تو تسلیم ہے مگر ہو سکتا ہے کہ کلام میں استفہام انکاری ہو جیسے پارۂ اوّل رکوع دوم میں ہے کہ منافقوں نے کہا: اَنُؤْمِنُ کَمَا اٰمَنَ السُّفَھَآئُ یعنی کیا ہم ایمان ا لائیں جیسے کہ بیوقوف لوگ ایمان لائے۔ یعنی ہم ایمان نہیں لائیں گے تو اسی طرح جو لوگ لکھنے کا سامان لانے کی تائید میں تھے ہو سکتا ہے انہی لوگوں نے کہا ہو اھجر استفھموہ۔ کیا حضور نے ہجر کیا؟ یعنی ہذیان نہیں کیا ہے۔ لکھنے کا سامان لانا چاہئے ان سے پھر پوچھو‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ لکھنے کا سامان لانے کے مخالف تھے انہیں لوگوں نے استفہام انکاری کے طور پر کہا ہو: اھجراستفھموہ یعنی حضور کو ہذیان تو ہوا نہیں اس لئے کہ نبی اس سے محفوظ ہوتے ہیں تو آپ کا کلام ہماری سمجھ میں نہیں آتا کون سی ایسی ضروری چیز ہے جسے حضور شدت درد میں لکھنا چاہتے ہیں پھر سے پوچھو؟
او ر نہ سمجھنے کی وجہ بالکل ظاہر تھی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ احکام کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب فرماتے تھے اور اس موقع پر یہ نہیں فرمایا کہ
ان اللّٰہ امرنی ان اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدی۔
بے شک اللہ نے مجھ کو فرمایا ہے کہ میں تم لوگوں کے لئے ایک کتاب لکھ دوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔
لہٰذا جو لوگ لکھنے کا سامان نہ لانے کی تائید میں تھے ان کو شبہ پیدا ہوا کہ حضور نے تو عادت کے مطابق ہی فرمایا ہو گا مگر ہم نہیں سمجھے پھر سے پوچھو۔
اور صحابۂ کرام خوب جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دفع تہمت کے لئے کبھی لکھتے نہ تھے قرآن مجید پارہ ۲۱ رکوع ۱ میں ہے:
: وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ۔
اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ مگر اس موقع پر حضور نے خود لکھنے کو فرمایا اس لئے صحابہ کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت پیش آئی‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لفظ ھجر ھجر و ھجر ان سے مشتق ہو جس کے معنی چھوڑنے کے ہیں اور لفظ الحیاۃ مفعول مقدر ہو تو اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کیا حضور نے ظاہری زندگی چھوڑ دی؟ معلوم کرو جیسا کہ قرآن مجید میں یہ لفظ متعدد جگہ چھوڑنے
کے معنی میں استعمال ہوا ہے مثلاً پارہ ۱۶ رکوع ۶ میں ہے: وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا آزر نے ان سے کہا کہ تم مجھے زمانۂ دراز تک چھوڑ دو‘ اور سورۂ مزمل میں ہے: وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا۔ یعنی انہیں اچھی طرح چھوڑ دو۔
اور بعض روایتوں میں جو ہمزۂ استفہام نہیں ہے تو مقدر ہے جیسے پارۂ ۷ رکوع ۱۵؍ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول ھٰذا ربی کے شروع میں۔ بہت سے مفسرین کے نزدیک یہاں ہمزۂ استفہام مقدر ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اگر در بعضے روایات حرف استفہام مذکور نباشد مقدرست۔ ’’اگر بعض روایتوں میں حرف استفہام مذکور نہیں ہے تو مقدر ہے‘‘۔
(اشعۃ اللمعات جلد ۴‘ ص ۶۱۰)
اور اگر ہجر کے معنی اختلاط کلام ہی کے لئے جائیں تو اس کی دوقسمیں ہیں ایک وہ اختلاط جو بالاتفاق انبیائے کرام کو ہو سکتا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ قوت گویائی کے اعضاء کمزور ہو جائیں یا آواز بیٹھ جائے یا زبان پر خشکی کا غلبہ ہو جن کے سبب الفاظ اچھی طرح سننے میں نہ آئیں تو یہ حالتیں انبیاء کو لاحق ہو سکتی ہیں جیسا کہ حدیث شریف کی صحیح کتابوں میں موجود ہے کہ ہمارے نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کو آخری بیماری میں آوا ز بیٹھنے کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا‘ اور اختلاط کلام کی دوسری قسم کا عارضہ غشی کے سبب یا دماغ پر ابخرات کے چڑھ جانے سے سخت بخار ہوتا ہے کہ اکثر اس حالت میں مقصد کے خلاف الفاظ زبان پر جاری ہو جاتے ہیں۔ اختلاط کلام کی یہ قسم انبیاء کو ہوسکتی ہے یا نہیں۔ علماء کو اس میں اختلاف ہے جو لوگ اسے جنون کی قسم قرار دیتے ہیں وہ انبیاء کرام کے لئے اسے جائز نہیں ٹھہراتے‘ اور بعض لوگ اسے غشی و بے ہوشی کی مثل قرار دیتے ہیں‘ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے اس طرح کا عارضہ لاحق ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے جیسا کہ پارہ ۹ رکوع ۷ میں ہے: وَخَرَّمُوْسٰی صَعِقًا یعنی موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہو کر گر پڑے۔
اور پ ۲۴ ع ۲ میں ہے:
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ
اور صور پھونکا جائے گا تو جسے اللہ چاہے گا اس کے علاوہ جتنے زمین و آسمان میں ہیں سب بے ہوش ہو جائیں گے۔ پھر صور دوبارہ پھونکا جائے گا اور وہ سب دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔
اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاکون اوّل من یفیق فاذا موسی اخذبقائمۃ من قوائم العرش‘ تو پہلے جس کو ہوش آئے گا وہ میں ہوں گا اور میں
موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پایوں میں سے ایک پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔
ثابت ہوا کہ انبیائے کرام پر غشی و بیہوشی طاری ہوتی ہے‘ اور یہ ان کی شان کے خلاف نہیں‘ اور خوب ظاہر ہے کہ اس حالت کو جنون پر قیاس نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ جنون میں پہلے قوائے مدرکہ کی روح میں خلل واقع ہوتا ہے‘ اور ہمیشہ رہتا ہے لیکن اس حالت میں روح کے اندر ہرگز خلل نہیں ہوتا بلکہ کچھ وقت کے لئے جسم کے صرف اعضاء مرض کے سبب قابو میں نہیں رہتے‘ مگر خداتعالیٰ اپنے انبیاء کرام کو اس حالت میں بھی اپنی مرضی کے خلاف کچھ کرنے اور کہنے سے بچائے رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر بعض حاضرین کو وہم پیدا ہوا کہ حضور کا حکم اختلاط کلام کی قسم سے ہے جو ایسے مرضوں میں ظاہر ہوتا ہے تو کچھ بعید بھی نہیں کہ درد سر کی شدت کے ساتھ اس وقت حضور پر بخار بھی زور کئے ہوئے تھا مگر اس کے باوجود کہنے والے نے بہ لحاظ ادب قطعی طور پر یہ بات نہ کہی بلکہ بطریق تردد کہا: ماشانہ اھجر استفھموہ یعنی آپ کا کیا حال ہے کیا اختلاط کلام ہوا ہے یا ہم سمجھے نہیں دوبارہ پوچھو۔
واضح فرمائیں اگر حکم ہو لکھنے کا توسامان لائیں ورنہ جانے دیں کہ درد کی شدت میں مشقت اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں‘ اور یہ سب باتیں اس صورت پر ہیں جبکہ اختلاط کلام سے آخری قسم مراد ہو اور اگر قسم اوّل مراد ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ اس مضمون کو ہم حضور کی عادت کے خلاف دیکھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کی قوت گویائی میں کمزوری پیدا ہو گئی ہو اس سبب سے ہم آپ کے کلام کو بخوبی نہیں سمجھ سکے لہٰذا دوبارہ پوچھو تاکہ ظاہر فرمائیں اور ہم یقین کے ساتھ جان لیں کہ حضور لکھنے کا سامان طلب فرما رہے ہیں تو ہم اسے حاضر کریں اور اس صورت میں بھی کسی پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔
وھو سبحانہ تعالٰی اعلم۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۴/۱۱۳/۱۱۲/۱۱۱)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند