کیا مسجد قرار دینے سے مسجد ہو گئی اگرچہ مسجد جیسی عمارت نہ ہو؟جو شخص مسجد برباد کرنے کی کوشش کرے اس کی امامت کیسی؟جو دیوبندیوں میں دیوبندی اور سنیوں میں سنی بنے اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟

کیا مسجد قرار دینے سے مسجد ہو گئی اگرچہ مسجد جیسی عمارت نہ ہو؟
جو شخص مسجد برباد کرنے کی کوشش کرے اس کی امامت کیسی؟
جو دیوبندیوں میں دیوبندی اور سنیوں میں سنی بنے اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟

مسئلہ: از شیخ عبدالرحمن جھلائی دوکان۔ مقام و پوسٹ پٹامنڈی۔ ضلع کٹک
اول۱- زید نے اپنی خوشی سے اپنے نئے مکان میں اذان دے کر کچھ عوام کو لے کر نماز پنجگانہ شروع کی اور جمعہ بھی پڑھ لیا خود اذان دے کر اس کی ابتدا کی جو کہ آج تک جاری ہے‘ اور باقاعدہ پیش امام بھی باہر سے لا کر رکھ دیا ہے مسجد قدیم جو کہ آبادی کے وقت سے قائم ہے‘ اور پچاس گز کے فاصلے پر ہے آیا نئی مسجد جس میں لوگ نماز پڑھتے ہیں مسجد کے حکم میں ہو گا یا نہیں؟
دوم۲- زید اور پیش امام نے مل کر مصلیوں میں تفرقہ ڈال دیا ہے‘ اور پرانی مسجد کو برباد کرنے کی کوشش میں لگا ہے‘ اور جاہل عوام کو بہکا کر مسجد قدیم سے الگ کر دیا ہے ایسے پیش امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اور زید پر اور جن لوگوں نے اس کا ساتھ دیا ہو شرع کا کیا حکم ہے؟
سوم۳- پیش امام مسجد کچھ دن بریلی مدرسہ میں چپڑاسی رہا پھر وہاں سے الگ ہونے کے بعد دیوبندی مدرسہ کا سفیر رہا اور مدرس بھی پھر دیوبندی بستی میں پیش امام رہا پھر چندہ کی غرض سے بریلوی بن کر آیا اور عوام میں نفاق ڈال کر الگ مسجد بنا کر نماز پڑھانا شروع کر دی اور مسجد قدیم کو برباد کرنے میں لگا ہوا ہے اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اس پر شرع کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا

الجواب: ۱- نئی جگہ جہاں لوگوں کو اکٹھا کر کے زید نے نمازالگ پڑھنی شروع کر دی ہے اگر اس جگہ کو مالک زمین نے مسجد قرار دے دیا ہے تو وہ مسجد کے حکم میں ہے اگرچہ مسجد جیسی عمارت نہ ہو۔
دوم۲- جو شخص کہ کسی مسجد کو برباد کرنے کی کوشش کرے اور ازراہ نفسانیت مصلیوں میں تفرقہ ڈالے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اور جو لوگ ایسے شخص کا ساتھ دیں وہ گنہگار ہیں
قال اللّٰہ تعالٰی: وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَیْطٰنُ فَـلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo (پ ۷ ع ۱۴)
سوم(۳) شخص مذکور اگر ایسا ہے کہ دیوبندیوں میں دیوبندی بن جاتا ہے اور سنیوں میں سنی تو وہ دیوبندی بھی ہے‘ اور منافق بھی اس کے پیچھے نماز پڑھنا ہرگز جائز نہیں اگرچہ وہ دیوبندیت سے توبہ بھی کرے۔ ہاں کچھ زمانہ گزرنے کے بعد جبکہ اس کی سنیت پر اطمینان ہو جائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی اور وجہ مانع امامت نہ ہو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: امیر المومنین غیظ المنافقین امام العادلین سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب صبیغ سے جس پر بوجہ بحث متشابہات بدمذہبی کا اندیشہ تھا بعد ضرب شاید توبہ لی تو حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو فرمان بھیجا کہ مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھیں‘ اس کے ساتھ خرید وفروخت نہ کریں‘ بیمار پڑے تو اس کی عیادت کو نہ جائیں‘ مر جائے تو اس کے جنازہ پر حاضر نہ ہوں۔ بتعمیل حکم احکم ایک مدت تک یہ حال رہا کہ اگر سو آدمی بیٹھے ہوتے اور وہ آتا تو سب متفرق ہو جاتے۔ جب حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عرضی بھیجی کہ اب اس کا حال اچھا ہو گیا اس وقت اجازت فرمائی۔ اخرج نضرالمقدسی فی کتاب الحجۃ وابن عساکر
(فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص ۳۱۳) وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۵؍ ربیع الاول ۱۴۰۲ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۲۷)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top