اذان خطبہ خارج مسجد کے سبب اختلاف کے ذمہ داری کس پر؟
جب سرور عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں اندر مسجد جمعہ کی اذان دلوائی اور خلیفہ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیق و سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے دور میں ایسا ہی کیا تو جو شخص اندر مسجد اذان دلوائے تو کیا وہ مسلمان نہیں یا وہ سنیت سے خارج سمجھا جائے گا۔ یا اس کی نماز نہ ہو گی؟
اس کے متعلق مدلل و مفصل جواب ملاحظہ فرمائیں
مسئلہ: از عبدالغنی موضع ڈوگرا مہوا مظفر پور (بہار)
اول(۱) ہمارے یہاں جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر ہوتی تھی۔ ایک نوجوان مولوی صاحب پنجگانہ نماز پڑھاتے تھے‘ مگر چند دن ہوئے کہ مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر کے بجائے باہر ہونی چاہئے۔
اس مسئلہ کی وجہ سے ہم میں اختلاف ہو گیا۔ بہت سے لوگوں نے مولوی صاحب کی اقتداء میں جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دی ہے۔ تراویح چھوڑ دی اور آپس میں جھگڑے کی نوبت آ گئی تو ایسی صورت میں دریافت طلب یہ امر ہے کہ ان اختلافات کی ذمہ داری کس پر ہے؟
دوم(۲) جب سرور عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں اندر مسجد جمعہ کی اذان دلوائی اور خلیفہ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیق و سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے دور میں ایسا ہی کیا تو جو شخص اندر مسجد اذان دلوائے تو کیا وہ مسلمان نہیں یا وہ سنیت سے خارج سمجھا جائے گا۔ یا اس کی نماز نہ ہو گی؟ یہ خیال نہ فرمائیں کہ اندر مسجد اذان دلوانے پر اصرار کرنے والے دیوبندی ہیں۔ نہیں نہیں‘ بلکہ یہ لوگ متقی اور سرکارنہی شریف والے سرکار کے مریدوں میں سے ہیں۔ صاف صاف حکم شرع شریف سے آگاہ فرمائیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔ (۱) آج کل جمعہ کی اذان ثانی منبر سے دوہاتھ یا تین ہاتھ کے فاصلے پر مسجد کے اندر دلواتے ہیں یہ ناجائز ہے جس طرح اور نمازوں کے لئے اذان خارج مسجد ہونی چاہئے یونہی جمعہ کی اذان ثانی بھی خارج مسجد ہونی چاہئے ہاں اس اذان میں اتنی پابندی زیادہ ہے کہ خطیب کے سامنے ہو۔ حضور اکرم سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں جمعہ کی یہ اذان مسجد کے باہر دروازے پر ہوا کرتی تھی جیسا کہ ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۱۵۶ میں ہے:
عن السائب بن یزید رضی اللہ عنہ قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علیٰ باب المسجد وابی بکر و عمر۔
یعنی جب رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن (خطبہ کے لئے) منبر پر تشریف فرما ہوتے تو حضور کے سامنے دروازۂ مسجد پر اذان ہوتی تھی۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل ص ۵۵ مطبوعہ مصر میں ہے: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان منع ہے۔ بحر الرائق ص ۲۶۸ میں ہے: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ اب جبکہ حدیث شریف سے معلوم ہو گیا کہ سرکار اقدس نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کریمہ یہی ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی خطیب کے سامنے دروازۂ مسجد پر ہو اور فقہائے کرام کے ارشادات سے ثابت ہوا کہ اذان مسجد میں ناجائز ہے تو اس نوجوان مولوی کا اعلان کرنا کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے باہر ہونی چاہئے ضرور حق ہے۔ جن لوگوں نے محض اس احیائے سنت کے باعث مسجد کو چھوڑ دیا اور اس نوجوان مولوی کی اقتداء سے متنفر ہو گئے اور جماعت کا نظم توڑ دیا اور تراویح سے اپنے کو محروم کر لیا نیز فتنہ و فساد پر آمادہ ہو گئے وہ سب کے سب گنہگار ہوئے۔ خواہش نفسانی کے پیچھے چلنے والے قرار پا گئے اور چونکہ بلاعذر شرعی تارک جماعت ہوئے اس لئے شرعاً فاسق ملعن بھی ہو گئے۔ ان سب پر توبہ کرنا اور اپنے گناہوں سے معافی مانگنا شرعاً فرض ہے۔
دوم(۲) مستفتی الٹی بات لکھ رہا ہے کیونکہ سرکار ابد رقرار صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے مقدس زمانے میں جمعہ کی یہ اذان مسجد کے اندر نہیں بلکہ خارج مسجد دروازے پر دلوائی ہے‘ اور ایسا ہی خلیفۂ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیق اور سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کے عہد مبارک میں ہوا ہے جیسا کہ ابوداؤد شریف کے حوالہ سے بیان کیا جا چکا ہے۔
جو شخص دیدہ و دانستہ بلاوجہ شرعی اس سنت مقدسہ کی مخالفت کرے وہ ضرور بدمذہبوں کا بھائی ہے جب حسب بیان سائل خارجِ مسجد اذان کی مخالفت کرنے والے سرکارنہی شریف کی خانقاہ سے منسلک ہیں تو پھر یہ تناؤ کیسا؟ تو، تو، میں میں اور جھگڑا فساد کیسا؟ خارج مسجد اذان دلوانے پر جھگڑا کیوں کر رہے ہیں۔ متقی ہوتے ہوئے اس سنت کریمہ کی مخالفت نہیں سمجھ میں آتی۔ بس فیصلہ یہ ہے کہ سب لوگ حکم شرع کے آگے اپنی اپنی گردنوں کو جھکا دیں‘ اپنے اپنے دلوں سے شیطانی خیالات نکال باہر کریں اور دونوں فریق متفقہ اعلان کر دیں کہ اب بحکم شریعت اسلامیہ جمعہ کی اذان ثانی موافق سنت نبوی علی صاحبھا الصلاۃ والسلام اندر کی بجائے خارج مسجد ہو گی‘ اور خدا و رسول جل جلالہ و صلی المولیٰ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنے اور شیطان کو بھگانے اور اس کو خائب و خاکسر کرنے کے لئے دونوں فریق ان تمام باتوں کی آپس میں معافی کرا لیں۔ جو زمانۂ اختلاف میں ایک دوسرے کے خلاف کہتے اور سنتے رہے اس میں جو پیش قدمی کرے گا وہ جنت میں بھی پیش قدمی کرے گا۔ والتوفیق من المولیٰ تعالیٰ سبحانہ ورسولہٗ جل جلالہ وصلی المولی تعالی علیہ وسلم۔
کتبہ: بدر الدین احمد الصدیقی القادری الرضویؔ
، ۱۹؍ ذی القعدہ ۱۳۸۶ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۱۳/۲۱۲)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند