اللہ تبارک وتعالیٰ کی شان میں لفظ دشمن کا استعمال کرنا کیسا ہے‘ اور لفظ دشمن کے معنی و مطلب کیا ہیں؟
کیا اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کا دشمن ہو سکتا ہے؟
مسئلہ: از مکان ۱۲۰۶ محلہ اسلام پورہ مالیگاؤں ضلع ناسک
اول(۱) اللہ تبارک وتعالیٰ کی شان میں لفظ دشمن کا استعمال کرنا کیسا ہے‘ اور لفظ دشمن کے معنی و مطلب کیا ہیں؟
دوم(۲) کیا اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کا دشمن ہو سکتا ہے؟ جواب صواب سے مرحمت فرمائیں۔
الجواب: دشمنان دین کے مقابلہ میں لفظ دشمن کا اطلاق خدا پر ہو سکتا ہے دشمن کے لغوی معنی یہ ہیں، مخالف، بیری، بدخواہ، حریف، رقیب،
(فیروز اللغات ص ۵۹۵)
اوّل الذکر معنی مراد لیتے ہوئے لفظ دشمن کے اطلاق میں شرعی جرم نہیں قرآن کریم میں ہے: مَنْ کَانَ عَدُوَّا لِلّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکٰئِلَٖ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِرِیْنَ۔
(پ ۱ سورۂ البقرۃ)
اس آیت کریمہ کا ترجمہ امام اہلسنّت مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے کنزالایمان میں یوں کیا ہے: جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل و میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا۔
واللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ اعلم
کتبہ: غلام عبدالقادر العلوی
۱۱؍ رجب، ۱۴۰۳ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۶۰)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند