انوار الحدیث میں ہے کہ فاسق کی اذان کا یہ اعادہ کرے اور فتاوی مصطفویہ میں ہے کہ اس کے اذان کا اعادہ نہیں تو تطبیق کی صورت کیا ہے؟

انوار الحدیث میں ہے کہ فاسق کی اذان کا یہ اعادہ کرے اور فتاوی مصطفویہ میں ہے کہ اس کے اذان کا اعادہ نہیں تو تطبیق کی صورت کیا ہے؟

مسئلہ: از غلام جیلانی خلیل آباد ضلع بستی۔
کیا فرماتے ہیں حضرت مفتی صاحب قبلہ اس مسئلہ میں آپ کی تصنیف انوار الحدیث ص ۱۱۹ میں درمختار اور بہار شریعت کے حوالے سے تحریر ہے کہ فاسق کی اذان کا اعادہ کرے اور حضرت مفتی اعظم ہند بریلی شریف نے فتاویٰ مصطفویہ ص ۵۸ میں عالمگیری کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ فاسق کی اذان کا اعادہ نہیں؟ تو اس کے بارے میں تحقیقی جواب تحریر فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب: بعون الملک العزیز الوھاب۔ فقہائے کرام نے بالاتفاق فاسق کی اذان کو مکروہ فرمایا ہے تنویر الابصار اور درمختار میں ہے: یکرہ اذان جنب وامرأۃ وفاسق ولوعالما ا ھ۔ یعنی جنبی، عورت اور فاسق کی اذان مکروہ ہے اگرچہ وہ عالم ہو‘ اور کنزالدقائق و بحر الرائق میں ہے:
کرہ اذان الجنب والمرأۃ والفاسق ا ھ تلخیصًا۔
یعنی جنبی، عورت اور فاسق کی اذان مکروہ ہے‘ اور فتح القدیر جلد اوّل ص ۲۱۶ میں ہے:
صرحا بکراھۃ اذان الفاسق من غیر تقیید بکونہ عالما اوغیرہ ا ھ۔
یعنی عالم غیر عالم کی قید کے بغیر اذان فاسق کے مکروہ ہونے کی فقہائے کرام نے تصریح فرمائی ہے پھر چونکہ اذان شعائر اسلام ہے‘ اور فاسق کی اذان سے بھی اقامت شعار کا مقصد حاصل ہے اس لئے بعض فقہائے کرام نے فرمایا کہ فاسق کی اذان صحیح ہے‘ مگر اذان کا مقصود اصل چونکہ دخول وقت کا اعلام ہے‘ اور فاسق کی خبر دیانات میں معتبر نہیں اس لئے بعض فقہائے کرام نے فرمایا کہ فاسق کی اذان صحیح نہیں۔ درمختار میں ہے:
جزم المصنف بعدم صحۃ اذان مجنون ومعتوہ وصبی لایعقل قلت وفاسق لعدم قبول قولہ فی الدیانات ا ھ۔
یعنی تنویر الابصار کے مصنف نے مجنون، معتوہ اور ناسمجھ بچے کی اذان کے صحیح ہونے پر جزم کیا ہے تو میں کہتا ہوں کہ فاسق کی اذان بھی صحیح نہیں اس لئے کہ اس کا قول دیانات میں قابل قبول نہیں‘ اور بحر الرائق جلد اوّل ص ۲۶۴ میں ہے:
اذان الفاسق والمرأۃ والجنب صحیح ا ھ۔
یعنی فاسق کی اور عورت کی اور جنب کی اذان صحیح ہے مگر پھر اسی صفحہ پر چند سطر بعد فرمایا کہ چونکہ فاسق کا قول اور اس کی خبر امور دینیہ میں قابل قبول نہیں اس لئے مناسب ہے کہ فاسق کی اذان صحیح نہ ہو۔ بحر الرائق کے اصل الفاظ یہ ہیں:
ینبغی ان لایصح اذان الفاسق بالنسبۃ الی قبول خبرہ والاعتماد علیہ لماقد مناہ انہ لایقبل قولہ فی الامور الدینیۃ ا ھ۔
اور علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نے منحۃ الخالق حاشیہ بحر الرائق میں فرمایا:
قولہ ینبغی ان لا یصح اذان الفاسق الخ کذا فی النھر ایضًا وظاھرہ انہ یعا دوقد صرح فی معراج الدرایۃ عن المجتبیٰ انہ یکرہ ولایعادو کذا انقلہ بعض الافاضل عند الفتاوی الھندیۃ عن الذخیرہ لکن فی القھستانی اعلم ان اعادۃ اذان الجنب والمرأۃ والمجنون والسکران والصبی والفاجر والراکب والقاعد والماشی والمنحرف عن القبلۃ واجبۃ لانہ غیر معتدبہ وقیل مستحبۃ فانہ معتدبہ الاانہ ناقص وھو الاصح کما فی التمرتاشی ا ھ۔ فقد صرح باعادۃ اذان الفاجرای الفاسق لکن فی کون اذانہ معتدابہ نظر لما ذکر الشارح من عدم قبول قولہ فحینئذ العلم بدخول الاوقات ومثلہ المجنون والسکران والصبی فالمناسب ان لا یعتد باذانھم اصلا ا ھ۔
یعنی صاحب بحر الرائق کا قول مناسب یہ ہے کہ فاسق کی اذان صحیح نہ ہو تو ایسا ہی نہر میں بھی ہے اور اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ فاسق کی اذان لوٹائی جائے اور معراج الدرایہ میں مجتبیٰ سے تصریح ہے کہ مکروہ ہے مگر لوٹائی نہ جائے اسی طرح بعض افاضل نے فتاویٰ ھندیہ یعنی عالمگیری سے نقل کیا ہے جس میں ذخیرہ سے ہے لیکن قہستانی میں ہے کہ جنبی، عورت، مجنون، نشہ والا، بچہ، فاسق، سوار اور بیٹھ کر اذان پڑھنے والا، چلتے ہوئے اور قبلہ سے انحراف کے ساتھ اذان کہنے والا ان سب کی اذان کا اعادہ واجب ہے‘ اور بعض لوگوں نے فرمایا کہ مستحب ہے اس لئے کہ اذان ہو جاتی ہے مگر ناقص ہوتی ہے‘ اور یہی صحیح ہے جیسا کہ تمرتاشی میں ہے‘ تو ہم یہ کہتے ہیں جبکہ فاجر یعنی فاسق کی اذان کے اعادہ کی تصریح ہے تو اس کی اذان کو مان لینا یہ محل نظر ہے۔ اس سبب سے کہ جس کو شارح نے ذکر کیا یعنی اس کے قول کا قابل قبول نہ ہونا لہٰذا اس کی اذان سے دخول اوقات کے حکم کا فائدہ نہیں حاصل ہو گا اور اس کے مثل مجنون، نشہ والا اور بچہ ہے تو مناسب یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی اذان کو ہرگز نہ مانا جائے انتہیٰ‘ اور ردالمحتار جلد اوّل ص ۲۶۳ میں تحریر فرمایا:
حاصلہ انہ یصح اذان الفاسق وان لم یحصل بہ الاعلام ا ھ۔
یعنی اختلاف کا خلاصہ یہ ہے کہ فاسق کی اذان صحیح ہو جاتی ہے اگرچہ اس سے اعلام نہیں حاصل ہوتا۔ لہٰذا صحیح ہو جانے کے سبب اس کی اذان کا اعادہ واجب نہیں اور چونکہ اس سے اعلام حاصل نہیں ہوتا اور پھر حدیث شریف میں ہے: یؤذن لکم خیارکم اس لئے فاسق کی اذان کا اعادہ مستحب ہے۔ فتح القدیر جلد اوّل ص ۲۲۰ اور بحر الرائق جلد اوّل ص ۲۶۴ میں ہے:
صرح بکراھۃ اذان الفاسق ولایعاد فالاعادۃ فیہ لیقع علی وجہ السنۃ ا ھ۔
یعنی اذان فاسق کے مکروہ ہونے کی تصریح ہے‘ اور اعادہ (واجب) نہیں مگر اس کا اعادہ کرنا چاہئے تاکہ اذان مسنون طریقہ پر ہو جائے۔ لہٰذا حضرت مفتی اعظم ہند قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ فاسق کی اذان مکروہ ہے مگر دے تو ہو جائے گی عالمگیری میں ہے: یکرہ اذان الفاسق ولایعاد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فاسق اذان نہ کہے کہ اس کی اذان مکروہ ہے‘ اور کہہ دے تو ہو جائے گی اعادہ واجب نہیں‘ اور انوار الحدیث میں جو درمختار اور بہار شریعت کے حوالے سے ہے کہ فاسق کی اذان کا اعادہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اعادہ مستحب و مندوب ہے‘ اور اعادہ واجب نہ ہو مگر مستحب ومندوب ہو اس میں تعارض نہیں۔ فتاویٰ رضویہ جلد دوم مطبوعہ لائل پور ص ۳۸۸ میں ہے: فاسق کی اذان اگرچہ شعار کا کام دے مگر اعلام کہ اس کا بڑا کام ہے اس سے حاصل نہیں ہوتا نہ فاسق کی اذان پر وقت روزہ و نماز میں اعتماد جائز۔ و لہٰذا مندوب ہے کہ اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے انتہیٰ بالفاظہ‘ اور ردالمحتار جلد اوّل ص ۲۶۴ میں ہے:
المقصود الاصلی من الاذان فی الشرع الاعلام بدخول اوقات الصلاۃ ثم صار من شعائر الاسلام فی کل بلدۃ اوناحیۃ من البلاد الواسعۃ فمن حیث الاعلام بدخول الوقت و قبول قولہ لا بدمن الاسلام والعقل والبلوغ والعدالۃ فاذا اتصف المؤذن بھذ الصفات یصح اذانہ ولافلایصح من حیث الاعتماد علیہ وامامن حیث اقامۃ الشعار الناقیۃ للاثم عن اھل البلدۃ فیصح اذان الکل سوی الصبی الذی لایعقل فیعاد اذان الکل ند باعلی الاصح ا ھ۔ وھو تعالٰی اعلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۲؍ صفر المظفر ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۸۵/۱۸۴/۱۸۳)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top