اول(۱) بکر خداوند قدوس کو گالی دینے کے بعد مسلمان رہ گیا یا کافر مرتد ہو گیا؟
دوم(۲) خداوند قدوس کو گالی دینے والے کی نماز جنازہ پڑھنا کیسا ہے؟ اور اسے اسلامی طور وطریقہ سے غسل و کفن دے کر مسلم قبرستان میں دفن کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
سوم(۳) جن لوگوں نے اسے شریعت کے مطابق اعزاز کے ساتھ غسل و کفن دے کر مسلم قبرستان میں دفن کیا ان پر توبہ لازم ہے یا نہیں؟
چہارم(۴) کیا زید عالم دین پر اس کی نماز جنازہ پڑھنا فرض تھا؟ اگر نہیں تو انکار کے سبب پردھان نے جو اس عالم دین کی توہین کی اس کے لئے کیا حکم ہے؟
پنجم(۵) پردھان اور گالی دینے والے کے گھر والے جو اس کی حمایت پر اڑے ہوئے ہیں اور نماز جنازہ سے انکار کے سبب عالم دین سے دشمنی کر رہے ہیں ان کے لئے کیا حکم ہے؟
ششم(۶) اگر وہ لوگ اپنی غلطی نہ مانیں اور توبہ نہ کریں تو ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اور زندگی میں مسلمان ان کے ساتھ کیا سلوک کریں؟
مسئلہ: از ابرار احمد قادری، امجدی منزل اوجھا گنج ضلع بستی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ زید جو عالم دین ہے اسے معلوم ہوا کہ بکر نے خداوند قدوس کو گالی دی ہے اتفاق سے بکر اسی عالم دین کے پاس سیمنٹ کی بوریہ مانگنے آیا۔ عالم نے کہا کہ تم نے خداتعالیٰ کو گالی دی ہے اس سے توبہ کرو تو ایک بوریہ کی بجائے ہم تمہیں دو بوریہ دیں گے۔ اگر توبہ نہیں کرو گے اور اسی حال میں مر جاؤ گے تو ہم تمہارا جنازہ نہیں پڑھیں گے نہ کسی کو پڑھنے دیں گے اور نہ مسلمان کے قبرستان میں دفن ہونے دیں گے۔ بکر نے عالم دین کی یہ باتیں سن کر توبہ نہیں کی اور بوریہ لئے بغیر اٹھ کر چلا گیا۔ دو ہی تین روز کے بعد بکر سخت بیمار ہوا اس عالم دین کو جب بکر کی بیماری کا علم ہوا تو پڑھے لکھے دو آدمیوں کو اس نے توبہ کرانے کے لئے بکر کے پاس بھیجا مگر وہ نزع کی حالت میں تھا توبہ کے الفاظ بھی نہ کہہ سکا۔ یہاں تک کہ مر گیا۔ کئی لوگوں کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نہیں وہ اکثر خداتعالیٰ کو فحش گالیاں دیا کرتا تھا۔ چونکہ جس آبادی کا یہ معاملہ ہے وہاں اکثر لوگ جاہل اور گنوار ہیں اس لئے بکر کی موت کے بعد عالم دین نے فتنہ و فساد کے خوف سے یہ کہا کہ ہم اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھیں گے مگر دوسروں کوپڑھنے سے روکیں گے بھی نہیں۔ آبادی میں جب یہ بات مشہور ہو گئی کہ فلاں عالم دین جو مسائل شرعیہ زیادہ جاننے والے ہیں انہوں نے خداوند قدوس کو گالی دینے والے کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تو پھر کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھنے کو تیار نہیں ہوا۔ بکر کی موت کے وقت جن لوگوں کو عالم دین نے توبہ کرانے کے لئے بھیجا تھا ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ جب ہم لوگوں نے اس سے توبہ کرنے کے لئے کہا تھا تو اس نے کچھ ہونٹ ہلایا تھا۔ عالم دین نے کہا کہ اگر آپ کو اطمینان ہو کہ اس نے توبہ کر لی ہے تو جا کر نماز جنازہ پڑھا دو‘ مگر وہ بھی نماز جنازہ پڑھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ زید عالم دین کا بیان ہے کہ میں یقین کی حد تک جانتا تھا کہ میرے انکار کر دینے کے بعد کوئی جنازہ نہیں پڑھے گا اس لئے میں نے دوسروں کو روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ اور صرف انکار کر دینے ہی کو کافی سمجھا۔ آبادی کے کچھ مسلمان خداتعالیٰ کو گالی دینے والے کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اسلامی طور و طریقہ پر اسے غسل و کفن دے کر مسلم قبرستان میں بغیر نماز جنازہ پڑھے ہوئے لے جا کر دفن کر دیا‘ اور دوسرے روز عالم دین مذکور کے خلاف پنچایت کیا کہ انہوں نے نماز جنازہ پڑھنے سے کیوں انکار کیا۔ پنچایت میں آبادی کے سابق پر دھان نے گالی دینے والے کی حمایت میں عالم دین مذکور کی سخت توہین کی۔ عالم دین نے پردھان سے اپنی غلطی ماننے اور گالی دینے والے کی حمایت سے توبہ کرنے کو کہا مگر وہ غلطی ماننے اور توبہ کرنے کو تیار نہیں ہوا بلکہ برابر اس عالم دین کی مخالفت کر رہا ہے‘ اور گالی دینے والے کے گھر والوں کو اس قدر اس عالم دین کے خلاف ابھارا کہ وہ عالم دین کے سخت دشمن ہو گئے ہیں اور مارپیٹ پر آمادہ ہیں۔ عالم دین نے پردھان اور گالی دینے والے کے گھر والوں سے کہا آپ اس کی حمایت میں اڑے ہوئے ہیں تو اب گالی دینے والے کی نماز جنازہ نہ ہونے کا غم نہ کرو بلکہ اپنی نماز جنازہ کی فکر کرو‘ کہ گالی دینے والے کی حمایت کرنے والے بھی گالی دینے والے کے حکم میں ہو گئے مگر بعض لوگوں سے معلوم ہوا کہ پردھان کہتا ہے ہم توبہ نہیں کریں گے اپنے لڑکوں کو ہندی میں نماز جنازہ لکھا دیں گے وہ ہم لوگوں کی نماز جنازہ پڑھا دیں گے۔ اب دریافت طلب یہ امور ہیں۔
اول(۱) بکر خداوند قدوس کو گالی دینے کے بعد مسلمان رہ گیا یا کافر مرتد ہو گیا؟
دوم(۲) خداوند قدوس کو گالی دینے والے کی نماز جنازہ پڑھنا کیسا ہے؟ اور اسے اسلامی طور وطریقہ سے غسل و کفن دے کر مسلم قبرستان میں دفن کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
سوم(۳) جن لوگوں نے اسے شریعت کے مطابق اعزاز کے ساتھ غسل و کفن دے کر مسلم قبرستان میں دفن کیا ان پر توبہ لازم ہے یا نہیں؟
چہارم(۴) کیا زید عالم دین پر اس کی نماز جنازہ پڑھنا فرض تھا؟ اگر نہیں تو انکار کے سبب پردھان نے جو اس عالم دین کی توہین کی اس کے لئے کیا حکم ہے؟
پنجم(۵) پردھان اور گالی دینے والے کے گھر والے جو اس کی حمایت پر اڑے ہوئے ہیں اور نماز جنازہ سے انکار کے سبب عالم دین سے دشمنی کر رہے ہیں ان کے لئے کیا حکم ہے؟
ششم(۶) اگر وہ لوگ اپنی غلطی نہ مانیں اور توبہ نہ کریں تو ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اور زندگی میں مسلمان ان کے ساتھ کیا سلوک کریں؟
بینوا توجروا
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب (ایک ۱ دو ۲ تین ۳) خداوند قدوس کو گالی دینا کفر و ارتداد ہے۔ لہٰذا بکر دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہو گیا۔ شفاء شریف اور اس کی شرح ملاعلی قاری میں ہے:
(لاخلاف ان ساب اللہ تعالیٰ) یٰسبہ الکذب اوالعجز ونحوذ لک (من المسلمین کافر حلال الدم بل واجب السفک۔
(ج ۲ ص ۴۹۱)
اور جب کفر بکنے کے بعد مطالبہ کے باوجود اس نے توبہ نہ کی اور اسی حالت میں مر گیا تو ہرگز ہرگز اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہئے تھی اور نہ ہی بروجہ سنت اسے غسل و کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہئے تھا۔ ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنا حرام اشد حرام بلکہ کفر انجام ہے۔ عینی اور کنز میں ہے:
’’(وشرطھا) ای شرط الصلاۃ علیہ (اسلام المیت) لقولہ تعالیٰ ولاتصل علیٰ احدمنھم مات ابدا یعنی المنافقین وھم الکفرۃ‘‘
(عینی علی الکنز ج ۱ ص ۶۵ مطبوعہ پاکستان)‘‘
اسے کو بروجہ سنت غسل و کفن دے کر مسلمانوں کے
قبرستان میں دفن کرنا ناجائز ہے درمختار اور شامی میں ہے: ’’(اماالمرتد فیلقٰی فی حفرۃ) ای لایغسل ولایکفن ولاید فن الیٰ من انتقل الیٰ دینھم، بحرعن الفتح‘‘
(شامی مطبوعہ پاکستان ج ۱ ص ۲۳۰)
جن لوگوں نے غسل و کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں اعزاز کے ساتھ اسے دفن کیا سخت گنہ گار مستحق عذاب نار ہوئے ان پر توبہ لازم ہے۔
فقط واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
چہارم(۴) زید عالم دین پر شخص مذکور کی نماز جنازہ پڑھنے سے احتراز فرض تھا اور احتراز کی وجہ سے پردھان کا اس عالم دین کی توہین کرنا کفر ہے۔
الاشباہ والنظائر ص ۱۹۱ میں فرمایا: الاستھزا بالعلم والعلماء کفر پھر اس کی شرح غمز العیون (ج ۲ ص ۲۰۲) میں فرمایا: قال فی البزازیۃ الاستخفاف بالعلماء کفر، لکونہ استخفا فابالعلم الخ مذکورہ پردھان پر توبہ، تجدید ایمان اور بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح اور عالم دین سے معافی مانگنا فرض ہے۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم
پنجم(۵) شخص مذکور بکر کا کفر و ارتداد واضح ہو جانے کے بعد جو لوگ بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ اس کے کفر سے راضی ہونے کے باعث خود بھی دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہوگئے۔ شرح فقہ اکبر ملا علی قاری علیہ الرحمہ میں فرمایا: ’’وفی الظھیریۃ۔ ان الرضا بکفر غیرہ ایضا کفر۔ وفی موضع اخرمنہ الرضأ بالکفرکفر۔
(شرح فقہ اکبر للملا علی القادری علیہ الرحمہ الباری ص ۲۱۸)
خداوندقدوس کو گالی دے کر بغیر توبہ مر جانے والے شخص کی نماز جنازہ سے انکار کے باعث عالم دین سے دشمنی کرنا ان کا کفر پر مزید اصرار اور خبث باطنی کا آئینہ دار ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوا: ’’لیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ‘‘ یعنی جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیں۔ رواہ احمد والحکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادہ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم نصف اوّل ص ۴)
دوسری حدیث میں ہے کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’لایستخف بحقھم الامنافق بین النفاق‘‘ یعنی ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق۔ رواہ ابوشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبداللّٰہ الانصاری رضی اللّٰہ عنہ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد دہم نصف اوّل ص ۱۴۰)
خلاصہ پھر فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر‘‘ اور منح الروض الازہر سے ہے: ’’الظاھر انہ یکفر‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج ۱۰ نصف آخر ص ۱۴۰)
واللّٰہ تعالٰی اعلم
ششم (۶) اگر وہ لوگ اپنی غلطی نہ مانیں اور بے توبہ مر جائیں تو ہرگز ہرگز ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی مسلمانوں کے طریقہ پر غسل و کفن دے کر انہیں مقابر مسلمین میں دفن کیا جائے گا‘ اور زندگی میں اگر وہ لوگ توبہ، تجدید ایمان اور بیوی والے ہوں تو تجدید نکاح نہ کر لیں تو ان کے ساتھ مسلمانوں کو سلام و کلام‘ نشست و برخاست اور مسلمانوں کا سا برتاؤ ناجائز و حرام ہو گا۔ علاقہ کے سبھی مسلمانوں پر فرض ہو گا کہ ان کا شدید مقاطعہ اور سخت بائیکاٹ کریں تاکہ وہ توبہ پر مجبور ہو جائیں۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
کتبہ: محمد قدرت اللہ الرضوی غفرلہ
دارالافتاء فیض الرسول براؤں شریف
۲۲؍ شوال المکرم ۱۴۱۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۶۰/۱۵۹/۱۵۸/۱۵۷)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند