اگر کسی نے طلاق نامہ تحریر کیا اس طور پر کہ میں اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہوں‘ میں طلاق دیتا ہوں‘ میں طلاق دیتا ہوں اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
اگر دونوں میاں بیوی آپس میں رہنے کےلئے راضی ہوں تو کیا کیا جائے؟
مسئلہ: از حاجی عظمت علی شاہ پچموہنی پوسٹ دلدلہ ضلع بستی
زید نے اپنی بیوی ہندہ کو بایں الفاظ طلاق نامہ تحریر کر دیا کہ میں اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہوں‘ میں طلاق دیتا ہوں‘ میں طلاق دیتا ہوں۔ نیز ہندہ کو مطلقہ ہوئے تقریباً آٹھ دس ماہ گزر رہا ہے۔ اب اتنے دنوں کے بعد دونوں میاں بیوی راضی و رضامند ہیں۔ حضور دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا کوئی صورت ہے جس سے دوبارہ دونوں کا عقد ہو جائے؟ مع حوالہ قرآن وحدیث کے جواب جلدی ارسال کرنے کی زحمت گوارہ فرمائیں اور مذکورہ بالا تحریر سے کون سی طلاق ہوئی؟ بینوا توجروا۔ بالثواب
الجواب: صورت مسئولہ میں ہندہ اگر زید کی مدخولہ ہے تو اس پر طلاق مغلظہ واقع ہو گئی اب اگر زید اسے پھر اپنے نکاح میں لانا چاہتا ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ عدت گزر جانے کے بعد دوسرے سے نکاح صحیح کرے۔ دوسرا شوہر اسے ہمبستری کے بعد طلاق دے پھر دوبارہ عدت گزار کر زید سے ناح کرسکتی ہے جیسا کہ پارۂ دوم میں ہے:
اِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗط وکماجاء فی حدیث العسیلۃ۔
اور اگر زید کی مدخولہ نہیں تھی تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوئی اس صورت میں بغیر حلالہ زید سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ واضح ہو کہ طلاق والی عورت اگر نابالغہ یہ آئسہ یعنی پچپن سالہ ہو تو اس کی عدت تین ماہ ہے اور اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ (سورۂ طلاق) اور اگر نابالغہ آئسہ اور حاملہ نہ ہو تو اس کی عدت تین حیض ہے خواہ تین حیض تین ماہ یا تین سال یا اس سے زیادہ میں آئیں۔ پارۂ دوم میں ہے:
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْئٍ۔
لہٰذا عوام میں جو مشہور ہے کہ مطلقہ کی عدت تین مہینہ تیرہ دن ہے غلط ہے۔واللّٰہ تعالٰی ورسولہ الاعلٰی جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۵؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۲۰)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند