اہلسنت و جماعت کا نام ہمیں کیسے ملا اور کیوں دیا گیا ؟
AHLE SUNNAT WAL JAMAT KA NAAM HAMEN KAISE MILA AUR KYUN DIYA GAYA?
अहले सुन्नत व जमात का नाम हमें कैसे मिला और क्यूँ दिया गया?
——————————
*السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالٰی وبرکاتہ*
کیافرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان کرام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اہلسنت و جماعت کا نام ہمیں کیسے ملا اور کیوں دیا گیا
مہربانی ہوگی مندرجہ بالا مسئلہ کا تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں حوالے کے ساتھ
سائل: محمد عالم قادری بمبئی*
——————————
*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب*
صورت مسئولہ میں جواب یہ ہے کہ حضرت علامہ مولانا بدرالدین احمد صاحب قبلہ قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں آج سے تقریبا چودہ سو برس پہلے کی بات ہے کہ ایک دن حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت صحابہ اکرام کے بھرے مجمع میں بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت کے لوگ ۷۳ فرقوں میں بٹ جائیں گے ان میں ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سب فرقے ناری اور دوزخی ہوں گے سرکار کا یہ ارشاد سن کر صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ اس فرقہ کی پہچان کیا ہوگی سرکار نے جواب دیا ما انا علیہ واصحابی جس عقیدے پر میں اور میرے صحابہ ہیں اسی عقیدے پر وہ فرقہ رہے گا سرکار کی اس حدیث پاک سے چار باتیں کھلے طور پر ثابت ہوئیں ایک تو ایک کی مسلمان کہلانے والوں میں کئی گروہ بہت سے جتھے اور فرقے ہونگے دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کا صرف ایک ہی فرقہ حق پر ہوگا باقی تمام فرقے گمراہ اور دوزخی ہوں گے تیسری بات یہ کہ جو فرقہ حق پر ہوگا اس کے عقیدے سنت مصطفی اور جماعت صحابہ کے مطابق ہوں گے چوتھی بات یہ کہ سرکار مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے صحابہ حقانیت کی کسوٹی ہیں جو ان کی راہ پر لگ جائے وہ حق پر ہے اور جو ان کی راہ چھوڑ دے وہ گمراہ ہے اللہ تعالی نے حضور پر قرآن مجید نازل فرمایا یہ قرآن شریف وہ کتاب ہے جس میں سرکار کے لئے زمین وآسمان کی ہر ہر چیز ہر ہر ذرہ ہر ہر قطرہ ہر پتا ہر تنکا ہر شوشہ ہر گوشہ کا روشن اور کھلا بیان ہے جو کچھ عالم میں ہوا اور جو کچھ قیامت تک ہوتا رہے گا وہ سب باتیں قرآن مجید کی بدولت ہمارے سرکار کی نگاہ کے سامنے تھیں سرکار خوب جانتے تھے کہ میری امت کے لوگ آگے چل کر ایک راہ پر نہ جائیں گے بلکہ کئی راہ پر جائیں گے اور اس طرح ان کے کئی جتھے بن جائیں گے جن میں صرف ایک جتھہ حق پر ہو گا اور باقی تمام جتھے گمراہ ناری اور دوزخی ہوں گے سرکار نے یہ باتیں صحابہ کو بتادیں تاکہ صحابہ خود چوکنے رہیں اور بعد میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کو چو کنا رکھیں سرکار جیسا بتا کر دنیا سے تشریف لے گئے بعد میں ویسا ہی معاملہ پیش آیا چنانچہ خود سرکار کے زمانہ کے آخری حصہ میں گمراہ فرقوں کی ابتدا ہو گئی تھی لیکن صحابہ کے حقانیت اور ان کی تلواروں کی جھنکار نے ان فرقوں کو پنپنے نہ دیا پھر جب صحابہ کا دور ختم ہوگیا تو پورانے فرقوں کے بچے کھچے کچھ لوگ دوبارہ ابھرے اور ان کے ساتھ کئی ایک نئے فرقے بھی پیدا ہوتے گئے یہاں تک کہ (۷۲)بہتر ناری فرقوں کی گنتی پوری ہو کر رہی جب چالاک گمراہوں نے اپنے اپنے فرقوں کا اچھا اچھا نام رکھ کر اپنی جماعت کو مشہور کیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر اپنے اپنے جتھوں میں داخل کرنے لگے تو صحابہ کی لکیر پر چلنے والوں مسلمانوں کو ضرورت پڑی کہ ہمارے فرقہ کا بھی کوئی امتیازی نام ہونا چاہیئے چنانچہ انھوں نے اپنا نام اہلسنت والجماعت قرار دیا اور دوسرا ہلکا پھلکا مختصر سا نام سنی رکھا اہلسنت والجماعت کے معنی ہیں سنت مصطفی اور جماعت صحابہ کو ماننے والے لوگ دیکھو جب صحابہ نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل حق فرقہ کی پہچان دریافت کی تھی تو اس وقت حضور نے جواب میں ما انا علیہ واصحابی فرمایا تھا جس خلاصہ یہ ہے کہ سنت رسول اور جماعت صحابہ کو ماننے والا فرقہ ہی اہل حق ہے حضور کے اسی جواب کو سامنے رکھ کر اہل حق مسلمانوں نے اپنا امتیازی نام اہلسنت والجماعت تجویز کیا اور اسی نام سے آج تک پوری دنیا میں مشہور ہیں۔
(تعمیر ادب حصہ پنجم صفحہ نمبر 27)
حضرت مولانا مفتی محمد اختر حسین قادری تحریر فرماتے ہیں کسی شئ کا اسم اور نام اس شئ کے لئے لیے علامت و پہچان اور سبب امتیاز ہوا کرتا ہے علامہ قاضی ناصر الدین بیضاوی قدس سرہ لفظ اسم کے تعلق کے سے تحریر فرماتے ہیں :
واشقاقہ من السمو لا نہ رفعۃ لکشمی و شعارلہ۔
((( انوار التنزیل واسرار التاویل صفحہ 4 )))
یعنی لفظ اسم سمو سے ماخوذ ہے کیونکہ اسم اپنے مسمی کی رفعت و بلندی کا سبب اور اس کے لیے علامت اور پہچان ہوتا ہے اسی حکمت و مصلحت کے پیش نظر اشخاص و افراد اور تحریکات و مذاہب الگ الگ ناموں سے موسوم ہوتے ہیں دنیا میں مختلف ادیان و مذاہب اور افکار و نظریات کے ماننے والے پائے جاتے ہیں ان سب سے منفرد و ممتاز کرنے کے لئے اللہ تعالی نے مذہب اسلام کے ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ھو سماکم المسلمین
(سورۃ الحج 78)
یعنی اللہ تعالی نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔
اس آیت کریمہ کے تحت علامہ ابوالبرکات نسفی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں ای اللہ سماکم بہٰذا الاسم الاکرم (تفسیر نسفی 3/103 )
یعنی اللہ تعالی نے تمہارا یہ مبارک و مکرم نام رکھا ہے ایسے مبارک و محترم نام کے بعد دینے حق کے متبعین کو کسی اور نام کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ مگر اہل علم پر یہ حقیقت مثل افتاب واضح ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے عہد مبارک میں جب مسلمان ہونے کا دعوی کرنے والے کچھ لوگوں نے اسلامی عقائد و مسلمات کے خلاف نئے عقائد و نظریات کو پیش کیا تو اہل حق اور مذہب اسلام کے سچے متبعین نے ان نام نہاد مسلمانوں سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لیے اپنا نام اہلسنت والجماعت رکھا اپنے کو اہل سنت و جماعت سے مشہور کیا اور باطل عقائد و نظریات کے حامل اس طبقہ کو معتزلہ کا نام دیا چنانچہ شرح عقائد نسفی میں ہے :
و معظم خلافیاتہ مع الفرق الاسلامیۃ خصوصا المعتزلۃ لانھم اول فرقۃ اسسوا قواعد الخلاف لما وردبہ ظاھر السنۃ وجری علیہ جماعۃ الصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین فی باب العقائد (26)
اللہ تبارک وتعالی ہم تمامی حضرات کو اہلسنت والجماعت المعروف مسلک اعلی حضرت پر قائم و دائم رکھے آمین
*🌹(واللہ اعلم بالصواب)🌹*
کتبہ:جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
*(بتاریخ ۲۰/ فروری بروز بدھ ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*