اہل ہنود کو مشرک نہ ماننے والا کیسا ہے؟مشرکین عرب خدا کو مانتے تھے مگر مشرک تھے؟

اہل ہنود کو مشرک نہ ماننے والا کیسا ہے؟
مشرکین عرب خدا کو مانتے تھے مگر مشرک تھے؟

مسئلہ: از محمد سلیم الدین (بی۔ اے) مکان ۳؍۱۴۸ سٹی ٹیور جی روڈ گلبرگہ (کرناٹک)
زید کہتا ہے کہ اہل ہنود قطعی مشرک نہیں ہیں کہ ان کا پتھروں کے آگے سر جھکانا اور انہیں پوجنا بالکل ہماری عبادت کے عین مطابق ہے اس لئے کہ ان کے ذہنوں میں تصور صرف خدا کا ہوتا ہے دیوی اور دیوتا وغیرہ تو صرف بھگوان کے اوتار ہیں اس طرح خدا کی ذات میں کسی اور کو وہ شریک نہیں کرتے تو اس کے بارے میں قرآن و حدیث سے جواب تحریر فرمائیں اور شخص مذکور کے متعلق شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں؟


الجواب: بعون الملک الوھاب۔
زید کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ اہل ہنود قطعی مشرک نہیں ہیں۔ اس لئے کہ آدمی تین طرح سے مشرک ہوتا ہے۔ ایک تو خداتعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو واجب الوجود ماننے سے دوسرے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو خالق تسلیم کرنے سے اور تیسرے خداتعالیٰ کے سوا دوسرے کی عبات کرنے یا اسے مستحق عبادت سمجھنے سے جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’شرک سہ قسم ست در وجود ودر خالقیت و درعبادت‘‘
(اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۷۲)
اور حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
الاشراک ھواثبات الشرک فی الالوھیۃ بمعنی وجوب الوجود کما للمجوس اوبمعنی استحقاق العبادۃ کما یعبدہ الاصنام۔
(شرح عقائد نسفی ص ۶۱)
لہٰذا اہل ہنود بتوں کو پوجنے یا ان کو مستحق عبادت سمجھنے کے سبب قطعی مشرک ہیں ان کے ذہنوں میں خدا کا تصور ہونا انہیں مشرک ہونے سے نہیں بچا سکتا کہ اسی قسم کا عقیدہ اکثر مشرکین عرب کا بھی تھا کہ وہ بھی خداتعالیٰ کو مانتے تھے مگر بتوں کی پوجا کے سبب مشرک تھے جیسا کہ پ ۱۳ رکوع ۶ میں ہے:
وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ
یعنی ان میں کے اکثر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے ہی کی حالت میں مشرک ہیں۔ تفسیر جلالین میں ہے: وما یؤمن اکثرھم باللّٰہ حیث یقرون بانہ الخالق الرزاق الاوھم مشرکون بعبادۃ الاصنام یعنی ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے اس طرح سے کہ انہیں خدا کے خالق و رزاق ہونے کا اقرار تھا مگر بتوں کی عبادت کے سبب وہ مشرک تھے۔
اور تفسیر خازن میں اسی آیت کریمہ کے تحت ہے:
یعنی ان من ایمانھم انھم اذا سئلوا من خلق السمٰوٰت والارض قالوا اللّٰہ واذا قیل لھم من ینزل المطرقالوا اللّٰہ وھم مع ذٰلک یعبدون الاصنام وفی روایۃ ابن عباس انھم یقرون ان اللّٰہ خالقھم فذٰلک ایمانھم وھم یعبدون غیرہ فذٰلک شرکھم۔
یعنی جب مشرکین عرب سے پوچھا جاتا کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا فرمایا تو وہ لوگ کہتے کہ اللہ‘ اور جب ان سے کہا جاتا کہ بارش کون نازل فرماتا ہے تو وہ لوگ کہتے کہ اللہ‘ مگر چونکہ خداتعالیٰ پر ایمان رکھنے کے ساتھ وہ بتوں کی پوجا بھی کرتے تھے اس لئے وہ مشرک تھے‘ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ مشرکین عرب اقرار کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے یہ ان کا ایمان تھا‘ مگر وہ خداتعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی عبادت کرتے تھے یہ ان کا شرک تھا‘ اور تفسیر مدارک میں اسی آیت کریمہ کے تحت ہے:ای وما یؤمن اکثرھم فی اقرارہ باللّٰہ وبانہ خلقنہ وخلق السماوات والارض الاوھومشرک بعبادۃ الوثن الجمھور علی انھا انزلت فی المشرکین۔

یعنی مشرکین عرب میں سے اکثر کو اللہ تعالیٰ پر ایمان کا اقرار تھا اور اس بات کا بھی اعتراف تھا کہ ان کو اور آسمان و زمین کو خداتعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے مگر بتوں کی پرستش کے سبب وہ مشرک تھے‘ اور جمہور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت مذکورہ مشرکین ہی کے بارے میں نازل ہوئی اور تفسیر ابوالسعود میں ہے:
وما یومن اکثرھم باللّٰہ فی اقرارھم بوجود ہ وخالقیتہ الاوھم مشرکون بعبادتھم لغیرہ تعالٰی۔
یعنی اکثر مشرکین عرب اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے کہ ان کو خداتعالیٰ کے وجود و خالقیت کا اقرار تھا لیکن غیراللہ کی عبادت کرنے کے سبب وہ مشرک تھے۔
بلکہ خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود مشرکین عرب کے ایمان کو مختلف آیتوں میں بالتفصیل بیان فرمایا ہے مثلاً پ ۱۱ رکوع ۹؍ میں ہے:
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَط فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُج۔
یعنی تم فرماؤ کہ آسمان و زمین سے تمہیں روزی کون دیتا ہے؟ اور تمام کاموں کی تدبیر کون کرتا ہے؟ تو اب مشرکین عرب کہیں گے کہ اللہ‘ اور پ ۱۸ رکوع ۵ میں ہے:
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo سَیَقُوْلُوْنَ ِللّٰہِ
یعنی تم فرما دو کہ عرش عظیم اور ساتوں آسمان کا مالک کون ہے؟ اب مشرکین کہیں گے یہ اللہ کی شان ہے‘ اور پ ۲۱ ع ۲ میں ہے:
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلَنَّ اللّٰہ۔
یعنی تم اگر ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین کس نے پیدا فرمایا اور چاند و سورج کو کس نے کام میں لگایا تو مشرکین ضرور ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر اسی پارہ اور اسی رکوع میں ہے:
: وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلَنَّ اللّٰہُ۔
یعنی اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے اتار کر اس سے مردہ زمین میں زندگی پیدا کر دی تو و وہ ضرور ضرور کہیں گے کہ اللہ نے‘ اور پارہ ۲ رکوع ۱۳ میں ہے:
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلَنَّ اللّٰہُ۔
یعنی اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ ان عقائد کے باوجود مشرکین عرب چونکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اس لئے وہ مشرک تھے اسی طرح یہاں کے اہل ہنود بھی اگرچہ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں مگر بتوں کی پرستش کے سبب وہ بھی مشرک ہیں اور ان کا پوجنا ہرگز ہماری عبادت کے مطابق نہیں کہ ہ معبودان باطل کو پوجتے ہیں اور ہم صرف معبود برحق کی پرستش کرتے ہیں‘ اور دیوی دیوتا وغیرہ کو اگرچہ وہ اوتار مانتے ہیں مگر ان کو پوجتے بھی ہیں۔ اس طرح خداتعالیٰ کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرنے کا سبب وہ مشرک ہیں۔

لہٰذا زید پر لازم ہے کہ وہ اپنے عقیدۂ باطلہ سے رجوع کرے اور علانیہ توبہ واستغفار و تجدید ایمان کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو سب مسلمان اس سے دور رہیں ورنہ وہ اوروں کو بھی گمراہ کر دے گا۔
قال اللّٰہ تعالٰی: وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَیْطٰنُ فَـلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo (پ ۷ رکوع ۱۴)
ھٰذا ما عندی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۱؍ رجب المرجب ۱۴۰۲ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۶۱/۶۰/۵۹/۵۸)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top