ایک (۱) کیا یزید جنتی ہو سکتا ہے؟
دو (۲) امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی بناء پر یزید گنہ گار ہوا کہ نہیں؟
تین (۳) کیا یزید بن معاویہ کو برا کہنا جائز ہے؟
چار (۴) یزید کی موت حالت کفر پر ہوئی یا حالت ایمان پر؟
پانچ (۵) یزید کے بارے میں اور پوری پوری روشنی ڈالئے؟
مسئلہ: از محمد مشرف معرفت گاماپان دوکان مین روڈ دھا راوی بمبئی ۱۷
ایک (۱) کیا یزید جنتی ہو سکتا ہے؟
دو (۲) امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی بناء پر یزید گنہ گار ہوا کہ نہیں؟
تین (۳) کیا یزید بن معاویہ کو برا کہنا جائز ہے؟
چار (۴) یزید کی موت حالت کفر پر ہوئی یا حالت ایمان پر؟
پانچ (۵) یزید کے بارے میں اور پوری پوری روشنی ڈالئے؟
الجواب: (۱) بعض ائمہ کے نزدیک جنتی ہو سکتا ہے‘ اور بعض کے نزدیک نہیں ہو سکتا۔
(۲) امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کی بناء پر یزید پلید سخت گنہ گار، حق العبد میں گرفتار، لائق عذاب قہار اور مستحق عذاب نار ہوا۔
(۳) بے شک یزید خبیث کو برا کہنا جائز ہے۔
(۴) اگر کفر سرزد ہو تو غرغرہ کے وقت تک توبہ مقبول ہے‘ اور آدمی زندگی بھر مسلمان ہو تو موت سے پہلے کفر میں مبتلا ہو سکتا ہے تو یزید کی موت حالت کفر پر ہوئی یا حالت ایمان پر اسے اللہ و رسول ہی جانتے ہیں۔
جل جلالہ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔
(۵) یزید کے بارے میں اعلیٰ حضرت پیشوائے اہلسنّت امام احمد رضا بریلوی الرحمتہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: یزید پلید علیہ مآیستحقہ من العزیز المجید قطعاً یقیناً باجماع اہلسنّت فاسق و فاجر و جری علے الکبائر تھا۔ اس قدر پر ائمہ اہلسنّت کا اطباق و اتفاق ہے صرف اس کی تکفیر و لعن میں اختلاف فرمایا۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اتباع و موافقین اسے کافر کہتے اور بہ تخصیص نام اس پر لعنت کرتے ہیں‘ اور اس آیت کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتَقَطَّعُوْا اَرْحَامَکُمْ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰی اَبْصَارَھُمْ۔ کیا قریب ہے کہ اگر والی ملک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتہ کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت فرمائی تو انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
(پ ۲۶ ع ۷)
شک نہیں کہ یزید نے والی ملک ہو کر زمین پر فساد پھیلا دیا حرمین طیبین و خود کعبۂ معظمہ و روضۂ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے ان کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے۔ تین دن مسجد نبی صلی اللہ تعالیٰ وسلم بے اذان و نماز رہی۔ مکہ و مدینہ حجاز میں ہزاروں صحابہ و تابعین بے گناہ شہید کئے، کعبۂ معظمہ پر پتھر پھینکے، غلاف کعبہ شریف پھاڑا اور جلایا، مدینہ طیبہ کی پاک دامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب و دانہ رکھ کر مع ہمراہیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا۔ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گود کے پالے ہوئے تن نازنین پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے تاکہ تمام استخوان مبارک چور ہو گئے۔ سر انور کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا، حرم محترم محذرات مشکوئے رسالت قید کئے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین میں فساد کیا ہو گا ملعون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق و فجور نہ جانے قرآن عظیم میں صراحتاً اس پر لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فرمایا۔
لہٰذا امام احمد اور ان کے موافقین اس پر لعنت فرماتے ہیں اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ لعن و تکفیر سے احتیاطاً سکوت کہ اس سے فسق و فجور تواتر ہیں کفر متواتر نہیں اور بحال احتمال نسبت کبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر‘ اور امثال وعیدات مشروط بعدمِ توبہ ہیں لقولہ تعالٰی: فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا اِلاَّ مَنْ تَابَ اور توبہ تادم غرغرہ مقبول ہے‘ اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط واسلم ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص ۱۰۷)
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۱؍ صفر المطفر ۱۴۰۳ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۲۷/۱۲۶/۱۲۵)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند