بعد نماز بلند آواز سے کھڑے ہو کر صلوۃ و السلام پڑھنا کیسا ہے؟
مسئلہ: از ظہور محمد عرف بھلن پہلوان زید پور بارہ بنکی
۵؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۱ھ
ہم لوگ بعد نماز فجر صلاۃ و سلام بطور عقیدت کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں نیز اس کو ہم فرض وضروری بھی نہیں سمجھتے اور اس بات کا بھی خیال کرتے ہیں کہ ہمارا صلاۃ و سلام پڑھنا کسی مصلی کی نماز کے لئے باعث خلل نہ ہو شرعی نقطہ نظر سے ہمارا یہ فعل جائز ہے یا نہیں؟ اور اس سلسلہ میں ان لوگوں نے فرنگی محل لکھنؤ سے فتویٰ بھی منگوایا ہے۔ اگر اس کے اندر کوئی شرعی کتربیونت ہو تو تفصیل کے ساتھ اس پر بھی روشنی ڈالیں۔ وہ بھی اسی استفتاء کے ساتھ نقل ہے۔ استفتاء
ہم لوگ محفل میلاد شریف میں کھڑے ہو کر پورے احترام کے ساتھ صلاۃ و سلام پڑھتے ہیں اس میں کوئی اختلاف ہمارے درمیان نہیں ہے۔ البتہ کچھ حضرات نے بعد نماز فجر کھڑے ہو کرپورے احترام کے ساتھ صلاۃ و سلام پڑھنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ضروری وظائف جو پڑھے جاتے تھے وہ چھوٹ گئے ہیں اور بعد نماز فجر کھڑے ہو کر سلام کا ثبوت کہیں سے ثابت ہے یا نہیں؟ یا یہ نیا طریقہ ہے‘ اور جو لوگ بجائے سلام کے بیٹھ کر درود شریف کی تسبیح پڑھتے ہیں وہ کیسے ہیں۔ بینوا توجروا۔
المستفتی عنایت رسول غفرلہ زید پور محلہ پورب طرف بارہ بنکی ۱۷؍ فروری ۱۹۸۱ء
یقینا یہ طریقہ اسلاف سے ثابت نہیں۔ لیکن چونکہ مدینہ منورہ میں جو لوگ مسجد نبوی میں حاضری دیتے ہیں وہ بعد نماز مغرب اور بعد نماز فجر بالخصوص مواجہہ شریف میں حاضر ہو کر سلام پیش کرتے ہیں اس طریقہ کی تمثیل کے بطور ازراہ عقیدت اور حضور تصوری کوئی شخص سلام محض کرتا ہے تو اس کا سلام دوسروں کے مشاغل میں خارج نہ ہونا چاہئے اور صلاۃ و سلام ایسے وقت پڑھنا کہ دوسرے نمازیوں کی نمازوں اور وظائف کی یکسوئی میں خلل انداز ہو کر ذہنی انتشار کا باعث ہو یقینا صلاۃ و سلام کے خلاص پر اثرانداز ہو گا۔ اس لئے اگر صلاۃ و سلام عرض کرنا ہی مقصود ہے تو وہ بعد طلوع آفتاب زیادہ بہتر ہو گا۔ فوراً ادائے فرض کے بعد مناسب نہیں۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم۔ حررہ محمد حسیب بقلم خود غفرلہ فرنگی محل۔
اگر بخلوص نیت لوگ صلاۃ وسلام پڑھنا ہی چاہتے ہیں‘ تو ایسے وقت پر پڑھیں جب ان کا سلام دوسروں کے وظائف کی یکسوئی میں حارج نہ ہو۔ تاکہ آپ کا احترام بھی قائم رہے‘ اور مناسب ہے کہ اس مسئلہ میں لاؤڈ اسپیکر سے اجتناب کیا جائے۔ واللّٰہ اعلم
الجواب: وہابی دیوبندی قیام تعظیمی کے سخت مخالف ہیں‘ اور آیت کریمہ:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
چونکہ درود شریف پڑھنے کے حکم پر دلیل قطعی ہے اس لئے وہ بظاہر اس کی مخالفت نہیں کرتے مگر اس سے کوئی خاص لگاؤ بھی نہیں رکھتے اس لئے ان کے اجتماعات اور جلسے درود شریف پڑھنے اور پڑھانے سے عموماً خالی ہوتے ہیں اس لئے کہ اس میں سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طرح سے تعظیم پائی جاتی ہے‘ اور وہ تعظیم رسول کے منکر ہیں اس لئے کبھی وہ خود براہ راست درود و سلام کھڑے ہو کر پڑھنے کی مخالفت کرتے ہیں اور کبھی اہل سنت وجماعت ہی کو کسی بہانے سے اس کی مخالفت پر اکساتے ہیں لہٰذا تعیین وقت کے ساتھ بعد نماز فجر اگرچہ کھڑے ہو کر ایک ساتھ بلند آواز سے درود و سلام پڑھنا فرض و واجب نہیں بلکہ جائز ہے اسے ناجائز کہنا جہالت ہے لیکن جب وہابی دیوبندی اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ صرف جائز ہی نہ رہا بلکہ مستحسن و مرغوب ہو گیا۔ جیسا کہ شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’عمل بررخصت از براے اظہار خلاف بااہل ضلالت مستحسن و مرعوب ست۔ (اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۳۴۷) اس لئے اوراد و وظائف میں خلل کا نام لے کر درود و سلام کو بند کرانا وہابیوں دیوبندیوں کے مقصد کو پورا کرنا ہے اور ادائے فرض کے فوراً بعد پڑھنے کو مناسب قرار دینا اور بعد طلوع آفتاب کے پڑھنے کو بہتر ٹھہرانا دوسرے الفاظ میں بعد نماز فجر درود و سلام کو بند کرانا ہے اس لئے کہ اگر بعد نماز فوراً نہ پڑھا گیا تو سورج نکلنے تک لوگ درود و سلام کے لئے نہیں ٹھہریں گے اور اس طرح وہ بند ہو جائے گا لہٰذا صلاۃ و سلام بند نہ کریں اور ادائے فرض کے بعد فوراً پڑھیںطلوع آفتاب کا انتظار نہ کریں لیکن اس صورت میں صرف ایک بند پر اکتفاء کریں اس سے زیادہ نہ پڑھیں تاکہ وظیفہ والے صلاۃ و سلام میں شریک ہونے کے بعد بغیر کسی خلل کے یکسوئی کے ساتھ اپنا وظیفہ پڑھ سکیں اور اگر کچھ لوگ نماز میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھیں اور صلاۃ و سلام کے لئے لاؤڈ اسپیکر کے اجتناب کو مناسب کہنا بھی صحیح نہیں کہ اس کام کے لئے اس کا استعمال خاص طور پر مناسب بلکہ افضل ہے۔ اس لئے کہ اس میں گمراہ فرقہ کی مخالفت کا بہترین اظہار ہے‘ اور ان کی مخالفت کا اظہار مستحسن و مرعوب ہے کما تقدم تصریح الشیخ الدھلوی البخاری علیہ رحمۃ الباری۔ وھو تعالٰی اعلم
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۱۸؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۵۵/۲۵۴)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند