بعض شعراء ومقررین نے وعظ اور نعت خوانی کو پیشہ بنا لیا ہے
(_*از قلم*)
*”محمد طاہرالقادری کلیم فیضی بستوی _*,
سربراہ اعلیٰ مدرسہ انوار الاسلام
قصبہ سکندرپور ضلع بستی
یوپی
٢٩/ربیع الغوث ١٤٤٥ ——————-
————————–
_*”بالکل صحیح کہا آپ نے _*, جیسے مارکیٹ میں دیگر اشیاء ضروریہ فروخت
ہوتی ہیں اور ان کا مول وبھاؤ ہوتا ہے ٹھیک
اسی طرح” بعض شعراء وخطباء ہیں جسے یوں
سمجھئے کہ وہ دوکان لگا ئے بیٹھے ہیں ،
اور جب کوئی( گاہک) ان کو مدعو کرنا چاہتا ہے تو
وہ پہلے پوچھتے ہیں کہ نذرانہ کیا دیں گے _؟
“مدعو کرنے والے نے اگر تھوڑا کم نذرانہ بتایا تو حضرت “خطیب صاحب یا
“شاعر صاحب کہتے ہیں کہ ہم اتنے میں نہیں آپائیں گے ہم “گیارہ ہزار یا “پندرہ ہزار لیں گے __یا “بیس ہزار یا “تیس ہزار لیں گے ،
اب اگرمدعو کرنے والا انہیں کو بلانے کی خواہش رکھتا ہے اورضرورت مند ہے تو کہہ دیتا ہے کہ
حضرت ٹھیک ہے تشریف لائیے _!
_____________
پھر “خطیب یا شاعر” صاحب کہتے ہیں کہ _*”نذرانہ کی رقم پہلے میرے اکاؤنٹ*
_*میں ڈال دیں تب میں پکی اور فائنل تاریخ سمجھوں گا* _!
_________________”بہرحال چارو ناچار مدعو کرنے والے
کو پیشگی رقم بھیجنی پرتی ہے تب
حضرت پورے آؤ بھاؤ ( میک اپ) کے ساتھ طے شدہ تاریخ کے جلسے میں براجمان ہوتے ہیں ،
آنے کے بعد جب پروگرام کا وقت ہوجاتا ہے اور سج دھج کر” اسٹیج پر پہنچتے ہیں اور ان کے نام کا اعلان ہوجاتا ہے تو ممبر پر سفید جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ آپ لوگوں کی
محبت میں آگیا ہوں ورنہ میرا کہیں
اور پروگرام تھا ،
ایک بات اور ہے کہ ان شعراء وخطباء کو بہت جلدی بھی رہتی ہے
اور کہتے ہیں کہ مجھے جلدی پڑھوادیں یا بلوادیں مجھے جانا ہے ورنہ میری گاڑی
چھوٹ جائے گی مجھے فلاں جگہ کے پروگرام میں جانا ہے تاکہ ٹائم سے پہنچ جاؤں ،
جبکہ” جلسے والے ان کو رات بھر کے لئے بک کرتے ہیں اور اپنے حساب سے ان کے پڑھنے
یا “خطیب صاحب کی تقریر کا وقت
متعین کئے رہتے ہیں کہ فلاں خطیب کو اتنے بجے بیٹھانا ہے اور فلاں شاعر کو اتنے بجے پڑھوانا ہے ،
“پھر شاعر صاحب اپنا کام کرکے فوراً رخصت ہو جاتے ہیں ،
بعض لوگ طے شدہ تاریخ کے بعد جس دن جلسہ یا پروگرام رہتا ہے اس سے ایک دو دن پہلے یا اسی دن چھچھند کرتے ہیں کہ میں” تھکا ہوں
بیمار “ہوں مجھے کسی چار چکہ اور اچھی گاڑی سے آنا پڑے گا تو اتنا اتنا
کرایہ ہوجائے گا اور کجھ بچے گا نہیں اس لئے نذرانہ میں کچھ اور اضافہ کردیں ،___________بتائیے_!
“خطیب یا شاعر” یہ تو جانتا ہی ہے کہ اتنی جلدی میں کوئی دوسرا ملے گا نہیں_:
اسی لئے وہ نکھرا کرتے ہیں اور جانتے ہیں مجبوراً بڑھا کر ہی دیں گے نہیں تو ان کا جلسہ بھی خراب ہو گا اور ان کو بدنامی الگ سے اٹھانی پڑے گی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ لوگ یہ کہیں گے” فلاں مقرر یا فلاں شاعر “کی تاریخ ہی نہیں لیا ہوگا مجمع جمع کرنے کے لئے فقط ان کا پوسٹر میں نام چھاپ دیا ہے ،
_______________
*”گت ہے _*, عوام اور منتظمین جلسہ ایسے لوگوں کی آؤ بھگت بھی
خوب کرتے ہیں، ان کو ہاتھوں ہاتھ لئے رہتے ہیں اور جو بیچارہ کچھ نہیں کہتا ہے اس کی طرف جیسے پروگرام کروانے والوں کی توجہ ہی نہیں
ہوتی ہے اور مقامی وعلاقائی علمائے کرام کو تو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی ہے ،
اور ان کو سو پچاس روپے بھی کمیٹی والوں پر دینا گراں گزرتا ہے ،
__________
“یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے اکابرین علماء اہل سنت نہ کبھی نذرانہ طے کر تے تھے اور نہ ہی آؤ بھاؤ مارتے تھے جلسے والے جو بھی
نذرانہ دیتے وہ خاموشی سے جیب میں رکھ لیتے اور رخصت ہو جاتے تھے اب چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ،
کیونکہ انہیں “اللہ تعالیٰ کے رزاق ہونے
کا کامل بھروسہ اور ایمان تھا ان کا
عقیدہ تھا کہ” رزاق مطلق” نے جو رزق
متعین کردیا ہے وہ مل کر رہے گی ،
اب کوئی بتائے کہ بھاری بھرکم نذرانہ طے کرکے وعظ و بیان کرنے والوں کو “مبلغ اسلام کیسے کہا جائے” ناشر مسلک اعلیٰ حضرت کیسے کہا جائے ،”محافظ اسلام و سنیت کیسے کہا جائے ،؟
“ارباب علم و شعور “حرام و حلال مکروہ ومنع اور خلاف اولی ناپسندیدہ
،مباح، مستحسن گناہ وثواب وغیرہ کے بارے میں
خوب جانتے ہیں تو پھر ایسا کیوں
کرتے ہیں ؟
“علماء اسلام کو تبلیغ دین کی نیت سے اور “خالصتا لوجہ اللہ “تقریر ونعت خوانی
کرنی چاہئے _!
اس لئے کہ ہماری زندگی کے معاشی اور ضروری مسائل حل کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے