توبہ و استغفار و تجدید ایمان و تجدید نکاح اور بیعت کس طرح کرے

♻️🏮🏮🏮🏮🏮🏮🏮🏮🏮♻️
     🌹•┈┈❍﷽❍┈┈•🌹
♻️🏮🏮🏮🏮🏮🏮🏮🏮🏮♻️

****************************************
🤲توبہ و استغفار و تجدید ایمان و تجدید نکاح اور بیعت کس طرح کرے 

📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿 
_****************************************_
  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضور والا مرتبت عرض یہ کرنا ہے کہ کچھ دن پہلے میں نے آپ کے پاس یہ سوال سینڈ کیا تھا ایک مدرسہ میں سنسکرت پڑھانا شروع کیا گیا جس کے پرچار میں پیپر میں ایڈ دیا گیا کہ(مذ ہب ہندو و مسلم کو مضبوط کرنے کیلئے پڑھائے جارہے ہیں گیتا و قرآن) نیز یہ کہنا کہ ہندو مسلم کلچر میں زیادہ انتر نہیں ہے اور یہ انتر صرف انسان کی سوچ نے بڑھایا ہے نیز زید کا یہ کہنا کہ میں نےتمام دھرموں کو ایکترت کرنے اور محبت وبھائی چارگی کا پیغام دینے کیلئے میں نے سنسکرت کو اپنایا اور مدرسے میں قرآن و گیتا کو ساتھ ساتھ رکھا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ
👈(1)مدرسہ میں کفریات کا نصاب پڑھانا کیسا ہے
👈(2)اور ایسے مدرسہ میں بچوں کو تعلیم کے لئے بھیجنا کیسا
👈(3) مذہب ہندو و مسلم کومضبوط  کرنا یہ جملہ کہنا کیسا
👈(4)ہندو مسلم کلچر میں زیادہ فرق نہیں
یہ جملہ کہنا کیسا
👈(5)تمام دھرموں کو ایکترت کرنا یہ جملہ کہنا کیسا

جس کے متعلق آپ نے حکم شرعی سنایا
کہ مذکورہ بالا عقائد رکھنے والا شخص عند الشرع حکم کفر میں  ہے اس شخص پر ضروری ہےکہ  اپنے ان کفریہ عقائد سے توبہ و استغفار کرے اور تجدید نکاح اور تجدید بیعت کرے
حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا عقائد باطلہ رکھنے والا شخص ان تمام باتوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہتا ہے اور اس نے اس طرح سے توبہ و استغفار کیا ہے
                  🔮برات نامه🔮
🏫منجانب: ذمہ داران جامعہ مکیہ خزائن العرفان، قادری نگر، چاند پور، مراد آباد
      🌹السلام عليكم ورحمه الله🌹
انسانی زندگی میں ذہنی و فکری ملی و سماجی تغیر و تبدل وقوع پذیر ہوتے رہنا آج کی نئی بات نہیں ہے، وہ تغیرات خواه معاشرتی ہوں یا علمی و نظریاتی، اور
یہی تغیرات رفته رفته دینی ضروری امور کے طور و طریقے تک بھی تجاوز کر جاتے ہیں جسکے نتیجے میں کبھی کبھی  علمی حلقے میں باہمی کچھ اختلافی امور بھی پیش آجاتے ہیں یہی کچھ صورتحال پیش آئی جامعہ مکیہ خزائن العرفان قادری نگر چاند پور مراداباد میں، وہ یہ کہ طریقہ تعلیم میں کچھ ندرت اور تغیر و ترمیم جو کہ حالات حاضرہ کے حساب سے اور قول ” من جھل باھل زمانہ فھو جاھل ۔ یعنی جو زمانے کے حالات سے بے خبر ہے وہ جاھل ہے” کے پیش نظر ضروری سمجھی جارہی تھی اسکی صالح کوشش کی گئی، یعنی شعبہ تحفیظ القرآن اور درس نظامی کے ساتھ ساتھ طلبہ کو مختلف زبانوں مثلا عربی انگلش اردو ہندی اور سنسکرت وغیرہ میں بھی عبور حاصل کرانا ضروری سمجھا گیا تاکہ دیگر مذاہب کا بھی با آسانی مطالعہ کر سکیں جو کہ تبلیغ دین و احیائے سنت کیلئے ناگزیر ہے اور تاکہ مختلف زبان  ہندی، سنسکرت، اور ویدانت کے ذریعے  غیر مسلموں تک مذہب اسلام کی حقانیت اور سچائی پہنچائی جا سکے ، ادارہ ھذا  کی یہ خبر میڈیا رپورٹر کو اس طور پر پنہچ
کہ ” جامعہ مکیہ خزائن العرفان میں دی جا رہی ہے ویدوں کی بھاشا سنسکرت کی جانکاری” اور مقصد یہ تھا کہ ادارہ ھذا  کے نصاب میں سنسکرت زبان ایک
عرصے سے داخل ہے اور اب باقاعدہ طور پر بڑے طلبہ کو دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ سنسکرت بھی پڑھائی جائیگی تاکہ مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کر کے
بحیثیت مبلغ دنیا بھر میں اسلام کا پیغام پہنچا سکیں، اور ہم نے اس تعلق سے حضرت کا موقف بیان کیا لیکن افسوس کہ اخبار والوں نے اپنے حساب سے دینک جاگرن میں اسکو شائع کردیا، اس پر طرہ یہ کہ اپنے خود ساختہ مفہوم کو حضرت کی جانب منسوب کر دیا اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق تھا کہ یہ سب کچھ پیر طریقت رہبر شریعت شاہ محمد ظہیر عالم قادری کی غیر موجودگی میں ہوا جن دنوں وہ ساؤتھ افریت کیلئے گھر سے روانہ ہو چکے تھے اور ابھی بھی حضرت بیرون ملک کے دورے میں بھی ہیں، لہذا  اگر خبر صحیح انداز سے نہیں چھپی ہے اور اس کا اثر غلط جا رہا ہے تو اس سے ہم اور ہمارا ادارہ بری الذمہ ہیں اور ہر ذمہ دار
اس سے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہے۔
واضح رہے کہ جب خبر سامنے آئی تو خود حضور مرشد گرامی اور ادارے کے ذمہ داروں کو سخت تعجب ہوا کہ بات کیا ہوئی تھی اور خبر کیا چھپ گئی، پھر یہ ہوا کہ ہمارے بہت سے محبین و معتقدین علما و صوفیا نے بھی اس خبر کو پڑھ کر تشویش کا اظہار کیا، ان میں کچھ لوگوں نے اس خبر کو منفی انداز میں لیا اور کچھ لوگوں نے مثبت انداز میں، جبکہ اس مذکورہ انداز میں چھپی ہوئی خبر سے ادارے کا کوئی تعلق نہیں تھا ، نیز یہ کہ ملک کے ناگفتہ بہ حالات کو سازگار بنانے رکھنے کیلئے اور نفرتوں کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے ہم ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ان کے دلوں کی نفرتوں کو دور کیا جا سکے۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے صوفی محمد ارشاد عالم قادری نے ایک درست مقصد کے تحت کچھ جملے کہے لیکن کچھ احباب کی سمجھ سے وہ جملے شرعا  قابل گرفت ٹهرے، لہذا  بتائید و توفیق الہی انہوں نے چند گواہوں کے سامنے علانیہ توبہ کر لی ہے، اب کسی کو تشویش میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، ویسے مجموعی طور پر احتیاطا  ہم سب ذمہ دار بھی توبہ و استغفار کر لیتے ہیں۔ استغفر الله ربي من كل ذنب و اتوب اليه، لا الہ الا الله محمد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم
لہذا  برائت نامہ شائع کرنے والے کا نام مولانا نوشاد ہے۔ اور پیپر میں ایڈ دینے والے کا نام مولانا ارشاد۔ اور مولانا صوفی ظہیر عالم ہے

حاصل کلام یہ ہے کہ

(1)کیا اس طرح توبہ و استغفار کرنے سے عند الشرع توبہ مانی جائے گی یا نہیں ؟

(2)مذکورہ بالا عقائد رکھنے والا شخص  توبہ و استغفار و تجدید نکاح اور بیعت کس طرح کرے

💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢 نورالحسن اشرفی بریلی شریف
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*

*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
  📚✒ مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ 👇👇
اس کے متعلق حکم شرعی سنانے سے قبل اس مذکورہ بالا تحریر پر گفتگو کرلیں کہ مولانا ارشاد۔ اور مولانا صوفی ظہیر عالم کے ما تحت دینک جاگرن پیپر میں ان جملوں کو مذہب ہندو و مسلم کومضبوط  کرنے کےلئے ہندو مسلم کلچر میں زیادہ فرق نہیں ہے یہ فرق صرف انسان کی سوچ میں ہے  اور تمام دھرموں کو ایکترت کرنےکے لیے سنسکرت کو پڑھایا جارہاہے شائع کیا اور  برأت نامہ میں یہ کہنا کہ ہم نے اس تعلق سے حضرت کا موقف بیان کیا لیکن افسوس کہ اخبار والوں نے اپنے حساب سے دینک جاگرن میں اسکو شائع کردیا، اس پر طرہ یہ کہ اپنے خود ساختہ مفہوم کو حضرت کی جانب منسوب کر دیا اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق تھا کہ یہ سب کچھ پیر طریقت رہبر شریعت شاہ محمد ظہیر عالم قادری کی غیر موجودگی میں ہوا جن دنوں وہ ساؤتھ افریت کیلئے گھر سے روانہ ہو چکے تھے اور ابھی بھی حضرت بیرون ملک کے دورے میں بھی ہیں، لہذا  اگر خبر صحیح انداز سے نہیں چھپی ہے اور اس کا اثر غلط جا رہا ہے تو اس سے ہم اور ہمارا ادارہ بری الذمہ ہیں اور ہر ذمہ دار اس سے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہے۔ واضح رہے کہ جب خبر سامنے آئی تو خود حضور مرشد گرامی اور ادارے کے ذمہ داروں کو سخت تعجب ہوا کہ بات کیا ہوئی تھی اور خبر کیا چھپ گئی، پھر یہ ہوا کہ ہمارے بہت سے محبین و معتقدین علما و صوفیا نے بھی اس خبر کو پڑھ کر تشویش کا اظہار کیا، ان میں کچھ لوگوں نے اس خبر کو منفی انداز میں لیا اور کچھ لوگوں نے مثبت انداز میں، جبکہ اس مذکورہ انداز میں چھپی ہوئی خبر سے ادارے کا کوئی تعلق نہیں تھا ، نیز یہ کہ ملک کے ناگفتہ بہ حالات کو سازگار بنانے رکھنے کیلئے اور نفرتوں کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے ہم ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ان کے دلوں کی نفرتوں کو دور کیا جا سکے۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے صوفی محمد ارشاد عالم قادری نے ایک درست مقصد کے تحت کچھ جملے کہے لیکن کچھ احباب کی سمجھ سے وہ جملے شرعا  قابل گرفت ٹهرے، لہذا  بتائید و توفیق الہی انہوں نے چند گواہوں کے سامنے علانیہ توبہ کر لی ہے، اب کسی کو تشویش میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، ویسے مجموعی طور پر احتیاطا  ہم سب ذمہ دار بھی توبہ و استغفار کر لیتے ہیں۔

🕹لہذا یہ تحریر قابل گرفت ہے اس طور پر کہ جب حضرت  شاہ محمد ظہیر عالم قادری کے موقوف کے خلاف خبر شائع ہوئی تو اسی وقت جامعہ کے ذمہ دار حضرات کو فی الفور اخبار والوں سے رابطہ کر کے برأت نامہ شائع کرانا چاہیے تھا کہ جو خبر شائع ہوئی ہے وہ غلط ہے اور صحیح یہ ہے  نیز یہ کہنا کہ  خبر صحیح انداز سے نہیں چھپی ہے اور اس کا اثر غلط جا رہا ہے تو اس سے ہم اور ہمارا ادارہ بری الذمہ ہیں اور ہر ذمہ دار اس سے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہے۔یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس کا ذمہ دار جامعہ ہی ہے اگر واقعی میں جامعہ اس خبر کا ذمہ دار نہیں ہے تو فی الفور اخبار میں برأت نامہ شائع کریں کیونکہ یہ خبر جامعہ کی طرف منسوب ہوتے ہوئے شائع ہوئی ہے  اور برأت نامہ میں یہ کہنا کہ  صوفی محمد ارشاد عالم قادری نے ایک درست مقصد کے تحت کچھ جملے کہے لیکن کچھ احباب کی سمجھ سے وہ جملے شرعا  قابل گرفت ٹهرے، لہذا  بتائید و توفیق الہی انہوں نے چند گواہوں کے سامنے علانیہ توبہ کر لی ہے،یہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ جب صوفی صاحب سے کفر ہی سرزد نہیں ہوا تو توبہ و استغفار کرنے کہ کیا ضرورت پیش آئی اور توبہ بھی کی تو چند لوگوں کے سامنے دال میں کچھ کالا ضرور ہے

🕹لہذا  اس طرح توبہ و استغفار کرنے سے عند الشرع توبہ نہیں مانی جائے گی
کیوں کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم کوئی گناہ کرو تو توبہ کرلو السر بالسر و العلانیۃ بالعلانیۃ یعنی پوشیدہ گناہ کی توبہ پوشیدہ اور علانیہ گناہ کی توبہ علانیہ
📗✒المعجم الکبیر ج 20 ص 159 الحدیث 331

✒سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ علانیہ گناہ کی علانیہ توبہ کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فتاوی رضوی شریف میں  فرماتے ہیں کہ  سو (100) کے سامنے گناہ کیا اور ایک گوشہ میں دو (2) کے آگے اظہار توبہ کر دیا تو اس کا اشتہار مثل  اشتہار  گناہ نہ ہوا، اور وہ (علانیہ توبہ کے) فوائد کہ مطلوب تھے پورے نہ ہوئے بلکہ حقيقة وہ مرض کہ باعث اعلان تھا توبہ میں کمی اعلان (یعنی نقص اعلان) پر بھی وہی باعث ہے کہ گناہ تو دل کھول کر مجمع
کثیر میں کرلیا اور (اب انہیں لوگوں کے سامنے )اپنی خطا پر اقرار کرتے عار(یعنی شرم ) آتی ہے
📗✒فتاوی رضویہ ج 21 ص 146

✒اور صفحه 144 پرفر ماتے ہیں:
گناه علانیہ دوہرا گناہ ہے کہ اعلان گناه (بھی) گناہ بلکہ اس گناه  سے بھی بدتر گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی الله تعالی علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں میری سب امت عافیت میں ہے سوا ان کے جو گناہ  آشکارا (یعنی علی الاعلان) کرتے ہیں ۔ بخاری ج 4 ص 188 حدیث 2099

نیز حدیث میں ہے: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہمیشہ الله تعالی کا عذاب بندوں سے دور رہے گا جبکہ وہ اللہ تعالی نے کی نافرمانیوں کو ڈھانپیں اور چھپائیں گے پھر جب علانیہ گناہ اور (کھلم کھلا ) نافرمانیاں کریں گے تو وہ عذاب کے مستحق اور سزاوار ہو جائینگے۔
📗✒الفردوس بمأثور الخطاب ج 5 ص 96 حدیث 7578

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں توبہ و استغفار کے متعلق کتنی سختی برتی جاتی تھی ایک روایت حاضر ہے
عراق میں ایک شخص صبیغ بن عسل تمیمی کے سر میں کچھ خیالات بد مذہبی گھومنے لگے ، امیرالمومنین فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ  کے حضور عرضی حاضر کی گئی طلبی کا حکم  صادر فرمایا وہ حاضر ہوا امیرالمومنین نے کھجور کی شاخیں جمع کر رکھیں اور اسے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا فرمایا  تو کون ہے ؟ کہا میں عبد الله صبیغ ہوں، فرمایا اور میں عبداللہ عمر ہوں اور ان شاخوں سے مارنا شروع کیا کہ خون بہنے لگا پھر  قید خانے میں  بھیج دیا جب زخم اچھے ہونے پھر بلایا اور ویسا ہی مارا پھر  قید کردیا سہ بارہ پھر ایسا ہی کیا یہاں تک کہ وہ بولا یا امیرالمومنین ! واللہ اب وہ ہوا میرے سر سے نکل گئی، امیرالمومنین نے اسے حاکم یمن حضرت ابو موسی  اشعری رضی الله تعالے عنہ کے پاس بھیج دیا اور حکم فرمایا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے  وہ جدھ گزرتا اگر سو آدمی بیٹھے ہوتے سب متفرق ہوجاتے یہاں تک کہ  ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرضی بھیجی  کہ یا امیرالمومنین اب ا س کا
حال صلاح پر ہے اس وقت مسلمانوں کو ان کے پاس بیٹے کی اجازت فرمائی ،

📗✒اس روایت کو دارمی سنن اور نصر مقدسی و اباالقاسم اصبہانی دونوں کتاب الحجہ ابن الانباری کتاب المصاحف اور لالکائی کتاب السنہ اور ابن عساکر تاریخ دمشق میں سلیمان بن یسار سے روایت کی ہے

🤔اس روایت سے جامعہ مکیہ خزائن العرفان کے ذمہ دار حضرات کو سبق حاصل کرنا چاہیے اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ان پر بھی اسی طرح کی سختی برتی جاتی

🔍چپکے سے دو تین  کے سامنے کہہ لیا وہ انکسار که مطلوب شرع تھا حاصل ہونا در کنار هنوز خود داری و استنکاف
باقی ہے اور جب واقع ایسا ہو تو حاشا توبہ سر کی بھی خبر نہیں کہ وہ ندامت صادقہ چاہتی ہے اور اس کا خلوص
مانع استنکاف پھر انصاف کیجئے تو اس کا یہ کہنا کہ انہوں نے چند گواہوں کے سامنے علانیہ توبہ کر لی ہے (جیسا کہ برأت نامہ میں مذکورہے) (اور حال یہ ہے کہ برائت نامہ شائع کرنے والے کا نام مولانا نوشاد ہے۔ اور پیپر میں ایڈ دینے والے کا نام مولانا ارشاد۔ اور مولانا صوفی ظہیر عالم ہے) اور اس پیپر  میں توبہ نہ کرنا خود بھی اسی خودداری و استنکاف  کی خبر دے رہا ہے ورنہ توبہ کا یہ قصہ پیش کرنا کہ چند  گواہوں کے نام گنانا ان سے  تحقیقات پر موقوف رکھنا یہ جھگڑا  آسان تھا یا پیپر میں  یہ دو حروف کہہ لینا کہ الہی ! میں نے اپنے ان ناپاک اقوال سے توبہ کی  ۔ پھر یہاں پر  ایک نکتہ اور ہے اس کے ساتھ بندوں کے معاملے تین قسم  ہیں
(1)ایک یہ کہ  گناه کی اس کو سزا دی جائے اس پر یہاں قدرت کہاں ،
(2)دوسرے یہ کہ اس کے ارتباط و اختلاط سے تحفظ و تحرز کیا جائے کہ بد مذہب کا ضرر سخت متعذر ہوتا ہے ، (3)تیسرے یہ کہ اس کی تعظیم و تکریم مثل قبول شهادت و اقتداۓ نماز وغیرہ سے احتراز کریں ۔ فاسق و بد مذہب کے اظہار توبہ کرنے سے قسم اول تو فورا موقوف ہوجاتی ہے  الا في لبعض صور مستثنیات مذكورة في الدر وغيره (مگر بعض ان صورتوں میں جو درمختار وغيره میں مذکور ہیں ۔ ت ) مگر دو قسم باقی ہنوز باقی رہتی ہیں یہاں تک کہ اس کی صلاح حال ظا ہر ہو اور مسلمان کو اس کے صدق توبہ پر اطمینان حاصل ہو اس لئے کہ بہت عیار اپنے بچاؤ اور مسلمانوں  کو دھوکہ دینے کے لئے زبانی توبہ کرلیتے ہیں اور قلب میں وہی فساد بھرا ہوا ہے

📌اگر کسی شخص سے علانیہ گناہ سر زد ہوجائے تو اس پر ضروری ہےکہ وہ علانیہ توبہ و استغفار کرے اگر علانیہ توبہ و استغفار نہیں کرتا ہے تو اس میں کئی نقصانات ہیں جن کو سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فتاوی رضویہ ج 21 ص 142 پر تحریر فرمایا ہے اللہ تعالی توفیق دے تو اس کا مطالعہ کریں فائدہ مند ثابت ہوگا

🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ اگر واقعی میں کسی مسلمان سے کلمات کفریہ علانیہ طور پر سرزد ہو جائیں تو ان پر ضروری ہےکہ وہ اپنے ان کفریہ عقائد سے توبہ و استغفار علانیہ طور پر ہی کریں اس لئے کہ مرتد ہوجانے کے بعد کوئی شخص اگر چہ بظاہر نیک راستے پر آگیا  داڑھی  زلفوں ،عمامے اور سنت کے مطابق  لباس سے بھی آراستہ ہو گیا مگر اس نے اپنے اس کفر سے تو بہ تجدید ایمان نہ کیا تو بدستور مرتد  ہے توبہ و تجدید ایمان سے پہلے جو بھی نیک عمل کیا وہ مقبول نہیں،  بیعت کی تو نہ ہوئی، یہاں تک کہ اگر نکاح بھی کیا تو نہ ہوا۔ چنانچہ سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ  فتاوی رضوی جلد 11 صفحه 153 پر فرماتے ہیں :معاذ الله اگر مرد یا عورت نے پیش از نکاح (یعنی نکاح سے قبل ) كفر صريح کا ارتکاب کیا تھا اور بے توبہ و (نئے سرے سے قبول) اسلام ان کا نکاح کیا گیا تو قطعا نکاح باطل، اور اس سے جو اولاد ہوگی ولد الزنا، اسی طرح اگر بعد نکاح ان میں کوئی معاذ الله مرتد ہو گیا اور اس کے بعد کے جماع سے اولاد  ہوئی تو وہ بھی حرامی ہوگی ۔ لہذاکسی نے ارتداد کے بعد اگر نکاح کیا ہو اور نکاح کے بعد اگر چہ توبہ و تجدید ایمان کر چکا ہوتو بھی
اب نئے سرے سے نکاح کرنا ہوگا۔ اس کیلئے دھوم دھام شرط نہیں، گھر کی چار دیواری میں بھی نکاح ہوسکتا ہے۔

    🚿ایک نظر ادھر بھی حاشا للہ 🚿
اللہ تعالی کی ذات مقدسہ علیم خبیر ہے اللہ تعالی دلوں کے راز کو جانتا ہے اگر واقعی میں جامعہ مکیہ خزاءن العرفان قادری نگر چاند پور مرادآباد یوپی کے ذمہ داران حضرات ان کفریہ عقائد سے بری الذمہ ہیں  تو ان پر ضروری ہے کہ  وہ اپنا  برأت  نامہ دینک جاگرن پیپر  میں شائع کریں تاکہ لوگوں کے درمیان جو خلجان ہے وہ دور ہو جائے اور اگر واقعی میں جامعہ کے ذمہ داران حضرات ان کفریہ عقائد میں ملوث ہیں  تو ان پر ضروری ہے کہ وہ فی الفور اپنا توبہ و  استغفار  کا اعلان نامہ دینک جاگرن پیپر میں شائع  کریں  جیسا حکم شرعی ہے اسی میں  دنیا و  آخرت میں بھلائی ہے

(2)🤲مذکورہ بالا عقائد رکھنے والا شخص عند الشرع حکم کفر میں  ہے اگر وہ شخص اپنے ان کفریہ عقائد سے توبہ و استغفار کرنا چاہتا ہے تو اس کے متعلق شریعت مطہرہ میں یہ حکم ہے کہ جس کفر سے توبہ مقصود ہے وہ اس وقت مقبول ہوگی جبکہ وہ اس کفر کو کفر تسلیم کرتا ہو اور دل میں اس کفر سے نفرت و بیزاری بھی ہو۔ جو کفر سرزد ہوا توبہ میں اس کا تذکرہ بھی ہو مثال کے طور پر جیسا کہ  مولانا ارشاد۔ اور مولانا صوفی ظہیر عالم کے ما تحت دینک جاگرن میں ان جملوں کو مذہب ہندو و مسلم کومضبوط  کرنے کےلئے ہندو مسلم کلچر میں زیادہ فرق نہیں ہے یہ فرق صرف انسان کی سوچ میں ہے  اور تمام دھرموں کو ایکترت کرنےکے لیے سنسکرت کو پڑھایا جارہاہے شائع کیا ہے تو وہ اس طرح کہے ”یاالله عز وجل ہمارے  ما تحت دینک جاگرن میں ان جملوں کو مذہب ہندو و مسلم کومضبوط  کرنے کےلئے ہندو مسلم کلچر میں زیادہ فرق نہیں ہے یہ فرق صرف انسان کی سوچ میں ہے  اور تمام دھرموں کو ایکترت کرنےکے لیے سنسکرت کو پڑھایا جارہاہے شائع ہوا ہے ان سب کفریہ عقائد سے توبہ کرتا ہوں۔ لا إله إلا الله محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد صل الله تعالی علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں  اس طرح کہنے سے  مخصوص کفر سے توبہ بھی ہوگئی اور تجدید ایمان بھی۔ اگر معاذ الله کئی کفریات بکے ہوں اور یاد نہ ہو کہ کیا کیا بکا ہے تو یوں کہے: ”یاالله تعالی مجھ سے جو جو کفريات صادر ہوئے ہیں میں ان سے توبہ کرتا ہوں۔ پھر کلمہ پڑھ لے ۔ (اگر کلمہ شریف کا ترجمہ معلوم ہے تو زبان سے ترجمہ دہرانے کی حاجت نہیں) اگر یہ معلوم ہی نہیں کہ کفر بکا بھی ہے یانہیں تب بھی اگر احتیاطا توبہ کرنا چاہیں تو اسطرح کہئے یا الله عزوجل ! اگر مجھ سے کوئی کفر ہو گیا ہو تو میں اس سے توبہ کرتا ہوں ۔کہنے کے بعد کلمہ پڑھ لیجئے

🤲اور تجدید نکاح اس طور پر کریں
تجدید نکاح کا معنی ہے نئے مہر سے نیا نکاح کرنا۔ اس کیلئے لوگوں کو اکٹھا کرناضروری نہیں۔ نکاح نام ہے ایجاب وقبول کا۔ ہاں بوقت نکاح بطور گواہ کم ازکم دو مرد مسلمان یا ایک مرد مسلمان
اور دو مسلمان عورتوں کا حاضر ہونا لازمی ہے۔ خطبہ نکاح شرط –
نہیں بلکہ مستحب ہے۔ خطبہ یاد نہ ہو تو اعو بالله اور بسم الله شریف کے بعد سورۂ فاتحہ بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ کم از کم دس درہم یعنی  دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ( موجودہ وزن کے حساب سے 30 گرام 618 ملی گرام چاندی یا اس کی رقم مہر واجب ہے  آپ نے تو  اب مذکورہ گواہوں کی موجودگی میں آپ ایجاب کیجئے یعنی  عورت سے کہے : میں نے اتنے روپے مہر کے بدلے آپ سے نکاح کیا ۔ عورت کہے : میں نے قبول کیا۔ نکاح ہو گیا۔ یہ ھی ہوسکتا ہے کہ عورت ہی خطبه یا سورة فاتحہ پڑھ کر ایجاب کرے اور مرد کہے : میں نے قبول کیا ، نکاح ہو گیا۔ بعد نکاح اگرعورت چاہے تو مہر معاف بھی کرسکتی ہے۔ مگر مرد بلا حجت شرعی عورت سے مہر معاف کرنے کا سوال نہ کرے۔
🤲اور تجدید بیعت کے متعلق حکم یہ ہے کہ بیعت ٹوٹ جانے کی صورت میں سابقہ پیر صاحب بقید حیات ہوں تب بھی دوبارہ انہیں سے بیعت کرنا ضروری نہیں کسی بھی جامع شرائط پیر صاحب کی بیعت کی جاسکتی ہے
_****************************************_
       *(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نائےگائوں ضلع ناندیڑ  مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـ*
*(بتاریخ ۱۹/ نومبر بروز منگل  ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🔮ماقال المجیب فھو حق واحق ان یتبع
✅الجواب’ ھوالجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)

🔮جواب کو شروع سے آخر تک بالاستعاب پڑھا ماشاءاللہ جواب بہت عمدہ پایا
✅الجوابــــــ صحیح والمجیبــــــ نجیح فقط محمد امجد علی نعیمی غفرلہ رائےگنج اتردیناجپور(مغربی بنگال) خطیب وامام ”مسجدنیم والی“ مرادآبا،اترپدیش،(الھنـــد)
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top