جمعہ کی اذان ثانی دے کر مؤذن کا پہلی صف اقامت کیلئے جانا کیسا ہے ؟
السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ جمعہ کے دن جب امام خطبہ پڑھ رہا ہے تو لوگوں کو گردنیں پھلانگ کر آگے آنے سے منع فرمایا ہے یہ حدیث میں ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ خطبہ جب مکمل ہو جائے اور مؤذن باہر دروازے پر جس نے اذان دی ہے تو کیا وہ تکبیر کہنے کے لیے جب دروازے سے لے کے مسجد کے اندر پہلی صف تک آئے گا تو لوگوں کی گردنیں یعنی کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان کو تھوڑا سا سرکاتا ہوا اگے ائے گا اور پہلی صف میں کھڑا ہو کر تکبیر کہے گا ایسا کرنا مؤذن کے لیے کیا جائز ہے ؟ چونکہ خطبہ مکمل ہو گیا ہے ، کیا یہ وعید جو حدیث میں آیٔ ہے وہ خطبہ مکمل ہونے تک ہے یا جماعت ہونے تک ؟
المستفتی عبداللہ یوپی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
اس باب میں اصل یہ ہے کہ اگر امام خطبہ شروع کرچکا ہے یا آگے کی صف میں جاتے ہوئے لوگوں کو تکلیف پہونچےگی تو آگے جانا ناجائز ہے اور اگر ان دونوں میں کوئی بات نہ پائی جائے بایں طور کہ امام نے ابھی خطبہ شروع نہیں کیا اور لوگوں نے مؤذن کو اگلی صف تک جانے کیلئے راستہ چھوڑ دیا ہو کہ نہ کسی کا کپڑا پاؤں کے نیچے آئے نہ کسی کے جسم کو پاؤں لگے تو مؤذن صاحب ہوں یا کوئی اور آگے جاسکتے ہیں
چنانچہ امام طاہر بن عبدالرشید بخاری حنفی متوفی ۵۴۲ھ فرماتے ہیں
” اذا حضر الرجل الجامع والمسجد ملان ان تخطى يؤذي الناس لم یتخط وان كان لا يؤذى احدا بان لايطا ثوبا ولا جسدا فلا باس بان یتخط ویدنو من الامام “*
(خلاصۃ الفتاوی ، کتاب الصلاۃ ، الفصل الثالث عشر فی الجمعۃ ، ۱/۲۱۳ ، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
یعنی ، جب کوئی جامع مسجد میں اس وقت آیا جب مسجد بھر چکی تھی تو اگر آگے بڑھےگا تو لوگوں کو ایذا ہوگی تو آگے نہ بڑھے اور اگر کسی کو ایذا نہیں پہونچے گی کہ نہ کسی کا کپڑا پاؤں کے نیچے آئےگا نہ بدن تو آگے بڑھنے اور امام کے قریب ہونے میں حرج نہیں
اور امام فقیہ النفس قاضی خان اوزجندی حنفی متوفی ۵۹۲ھ فرماتے ہیں
” وذكر الفقيه أبو جعفر رحمه الله تعالى عن أصحابنا رحمهم الله تعالى أنه لا بأس بالتخطي ما لم يأخذ الإمام في الخطبة ويكره إذا أخذ لأن للمسلم أن يتقدم ويدنو من المحراب إذا لم يكن الإمام في الخطبة ليتسع المكان على من يجيء بعده وينال فضل القرب من الإمام فإذا لم يفعل الأول فقد ضيع ذلك المكان من غير عذر فكان للذي جاء بعده أن يأخذ ذلك المكان أما من جاء والإمام يخطب فعليه أن يستقر في موضعه من المسجد لأن مشيه وتقدّمه عمل في حالة الخطبة وروى هشام عن أبي يوسف رحمه الله تعالى إنه لا بأس بالتخطي ما لم يخرج الإمام أو لا يؤذي أحداً “*
(فتاوی قاضی خان ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجمعۃ ، ۱/۱۵۸ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۲۰۰۹ء)
یعنی ، امام فقیہ ابوجعفر رحمہ اللہ نے ہمارے اصحاب رحمھم اللہ سے نقل کرتے ہوئے ذکر فرمایا کہ جب تک امام خطبہ شروع نہیں کیا ہے تب تک آگے بڑھنے میں حرج نہیں ، اور اگر خطبہ شروع کر چکاہے تو مکروہ ہے کیونکہ مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ محراب سے قریب ہو جبکہ امام خطبہ میں نہ ہو ، تاکہ بعد میں آنے والوں کیلئے جگہ پیچھے جگہ خالی ہوسکے ، اور قربت امام کی فضیلت حاصل ہو ، اگر پہلے آنے والے نے ایسا نہ کیا اس جگہ کو بلاعذر ضائع کیا لہذا بعد میں آنے والے کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اس جگہ کو وہ لےلے ، لیکن وہ آدمی جو امام کے خطبہ کی حالت میں آیا تو اس پر واجب ہے کہ مسجد کی اسی جگہ پر ٹھہر جائے ، کیونکہ اس کا چلنا اور آگے بڑھنا حالت خطبہ میں ہوگا ، اور ہشام نے امام ابویوسف رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ تب تک امام خطبہ شروع نہ کرے یا کسی کو تکلیف نہ پہنچے تو آگے بڑھنے میں حرج نہیں
اور امام ابراہیم حلبی حنفی متوفی ۹۵۶ھ فرماتے ہیں
” وقد علم منه ان التخطى جائز بشرطين احدهما ان لا يؤذى احدا لان الايذاء حرام والدنو مستحب وترك الحرام مقدم على فعل المستحب والثانى ان لا يكون الامام في الخطبة لان تخطيه حينئذ عمل وهو ايضا حرام في حال الخطبة فلا يرتكبه لاجل امر مستحب “
(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی ، فصل فی صلوٰۃ الجمعۃ ، قبیل صلوٰۃ العید ، ص۵۶۵ ، دار سعادت ۱۳۲۵ھ)
یعنی ، تخطی دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے اول یہ کہ کسی کو تکلیف نہ ہو اسلئے کہ ایذاء حرام ہے اور امام سے قربت مستحب اور حرام کو چھوڑنا مستحب کو کرنے پر مقدم ہے ، دوم یہ کہ امام حالت خطبہ میں نہ ہو اسلئے کہ اس وقت آگے بڑھنا ایک عمل ہوگا اور حالت خطبہ میں یہ بھی حرام ہے لہذا امر مستحب کیلئے اس حرام کا ارتکاب نہیں کرےگا ،
ان تصریحات فقہاء میں مؤذن و غیرمؤذن کسی کی کوئی قید نہیں ہے فلہذا ان عبارات فقہاء کی روشنی میں صورت مسئولہ کا حکم یہ ہےکہ اگر مؤذن صاحب بغیر کسی کو تکلیف پہونچائے ، کسی کے کپڑے ، بدن پر بغیر پاؤں رکھے ، کسی کے کاندھے ، سر پر بغیر ہاتھ رکھے ، کسی کو بغیر سرکائے ، بغیر جھکائے آگے تک جاسکتے ہوں ، یا لوگ ازخود مؤذن صاحب کو آگے جانے کیلئے راستہ دے دیتے ہوں تو جائز ہے کہ مؤذن صاحب صف اول میں جائیں اور اقامت کہیں
چنانچہ فتاوی فقیہ ملت میں ہے
” جب کہ مسجد کے اندر جانے کے لئے راستہ ہو تو مؤذن مسجد کے دروازہ پر اذان ثانی دے کر اقامت کے لئے صف اول میں جاسکتا ہے “*
(کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجمعۃ ، ۱/۲۴۱ ، شبیر برادرز لاہور)
اور اگر یہ صورت حال نہیں ہے جیساکہ سوال میں بھی ذکر ہے کہ نمازیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ، تھوڑا سا سرکاتا ہوا جانا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں آگے جانا ان کیلئے جائز نہیں ، بہتر صورت یہ ہے کہ وہیں بیٹھ جائیں اور امام صاحب کو یا صف اول کے کسی مقتدی کو جو اقامت پڑھنے کے لائق ہو اسے اقامت پڑھنے کی اجازت دے دیں ، کہ مؤذن کا اقامت کہنا مستحب امر ہے اور کسی کو ایذا دے کر آگے جانا حرام
چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
” الأفضل أن يكون المؤذن هو المقيم “*
(ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ۲/۶۴ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃ خاصۃ:۱۴۲۳ھ)
یعنی ، افضل یہ ہے کہ اذان دینے والا ہی اقامت کہے
فلہذا ایک مستحب امر کو انجام دینے کیلئے حرام کام کی اجازت نہیں ہوسکتی جیساکہ ابھی غنیہ کی عبارت گزری ،
یا پھر مؤذن صاحب کو چاہئے کہ خطبہ ختم ہونے کے بعد بغیر کسی کو ایذا دیئے صف اول میں اپنی جگہ جائیں ، یا امام صاحب چند سیکنڈ رک جائیں تاکہ مؤذن صاحب اپنی جگہ پہنچ جائیں اور نمازی حضرات بھی اس بات کا خیال رکھیں اور مؤذن صاحب کو اپنی جگہ تک جانے کیلئے راستہ دے دیں کہ وہاں جاکر اقامت کہنا مؤذن صاحب کا حق ہے اور حقدار کو اس کا حق ضرور ملنا چاہئے
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۲۶/ ربیع الآخر ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۱/ نومبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
محمد شرف الدین رضوی ، دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ ، المفتی دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب کما أجاب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق النعیمی غفرلہ ، المفتی دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
ابوالضیاء المفتی محمد فرحان القادری النعیمی غفرلہ ، رئیس دارالافتاء الضیائیۃ کراتشی
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ ، المفتی دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ ، رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
تاریخ التصحیح : ۲۸ ربیع الآخر۱۴۴۵ھ